0
Sunday 18 Mar 2012 00:37

امریکہ طالبان مذاکرات مشکلات کا شکار

امریکہ طالبان مذاکرات مشکلات کا شکار
تحریر: ثاقب اکبر 

قطر کے شہر دوحہ میں جاری امریکہ طالبان مذاکرات ایک مرتبہ پھر معطل کر دیئے گئے ہیں۔ رواں برس جنوری میں شروع ہونے والے ان مذاکرات کی معطلی کا اعلان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے طالبان کی ایک ویب سائٹ پر کیا گیا۔ یہ اعلان 15 مارچ 2012ء کو سامنے آیا۔ ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بیان میں مذاکرات معطل کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے طالبان کے ترجمان نے لکھا کہ امریکہ مذاکرات کی شرائط میں مستقل تبدیلیاں کر رہا ہے۔ انھوں نے مزید لکھا کہ امریکی وفد کے ساتھ حال ہی میں ہونے والی آخری ملاقات میں امریکہ کی جانب سے ایسی شرائط سامنے آئی ہیں جو نہ صرف ناقابل قبول ہیں بلکہ گزشتہ ملاقاتوں میں فریقین کے درمیان اتفاق رائے سے طے پا جانے والے نکات سے بھی مختلف ہیں۔ ترجمان نے مذاکرات معطل کرنے کی ذمہ داری امریکہ پر عائد کرتے ہوئے لکھا کہ اصل رکاوٹ امریکہ کا بار بار تبدیل ہونے والا غیر واضح موقف ہے۔ ترجمان کے مطابق طالبان صرف قیدیوں کے تبادلے اور قطر میں سیاسی دفتر قائم کرنے پر بات کرنا چاہتے ہیں جبکہ امریکہ وسیع تر معاملات پر بات کرنا چاہتا ہے۔
 
یاد رہے کہ طالبان شروع ہی میں مذاکرات کے لیے محدود مقاصد کا اعلان کیا تھا لیکن جب دس سال سے زیادہ عرصے سے آپس میں جنگ آزما دو قوتیں مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تیار ہوں تو یہ ممکن نہیں کہ بات چیت فقط قیدیوں کے تبادلے تک محدود رہے۔ خود امریکہ کے پیش نظر ان مذاکرات کے جو مقاصد مختلف ذرائع سے سامنے آچکے ہیں وہ ان کی وسعت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ مقاصد آشکار ہوتے ہیں اور کچھ پنہاں۔ امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے جنوری میں نیوز ویک میگزین سے بات کرتے ہوئے طالبان کے لیے نئے امریکی موقف کو ان الفاظ میں بیان کیا کہ ”وہ بنیادی طور پر ہمارے دشمن نہیں ہیں“ یہ کہ کر انھوں نے دراصل تحریک طالبان سے مذاکرات کی راہ ہموار کی۔ انھوں نے مذاکرات کا مقصد افغانستان میں ایک اتحادی حکومت کا قیام قرار دیا۔ امریکا کی خواہش یہ ہے کہ افغانستان سے نکلنے سے پہلے کسی طرح سے موثر طالبان نمائندوں کو حکومت میں شریک کر سکے۔ امریکا کو فی الحال یہ قبول نہیں کہ وہ اس طرح سے افغانستان سے نکلے کہ جس سے اس کی مکمل شکست کا تاثر ابھرے اور بعد میں چند دنوں یا چند ہفتوں کے اندر اندر موجودہ کابل حکومت کا طومار لپٹ جائے اور افغانستان پھر بلا شرکت غیرے طالبان کے ہاتھ آجائے۔
 
امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی 27 اکتوبر کو خارجہ امور سے متعلق کانگریس کی کمیٹی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ افغانستان کے امن عمل میں طالبان کو شریک کیا جائے۔ ان کا یہ بیان بھی طالبان کو شریک اقتدار کرنے کے امریکی مقاصد کا آئینہ دار ہے۔ ان بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ 2014ء کے آخر تک جب انھیں اپنے اعلان کے مطابق افغانستان سے اپنی افواج کو مکمل طور پر نکال لینا ہے، اس سے پہلے وہ کسی صورت بھی میدان جنگ میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتے وگرنہ صدر بش کا نقطہ نظر ان کے ان الفاظ سے ظاہر تھا NO Nation Can Negotiate With Terrorist طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ کوئی قوم بھی دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں کر سکتی۔ البتہ اب وہی امریکی طالبان سے مذاکرات کے لیے بے چین ہیں اور طالبان ہیں کہ ان کے ”ناز نخرے“ ختم ہونے کو نہیں آ رہے۔
 
دوسری طرف افغان صدر حامد کرزئی طالبان سے مذاکرات کے لیے بار بار اپنی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ انھوں نے کئی مرتبہ طالبان قیادت کو بلا واسطہ مذاکرات شروع کرنے کی دعوت دی ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ”بابائے طالبان“مولانا سمیع الحق سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ طالبان سے افغان حکومت کے مذاکرات کے لیے مدد کریں۔ اس سلسلے میں انھوں نے فروری کے تیسرے ہفتے میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران مولانا سمیع الحق سے خصوصی ملاقات کی۔ مولانا سمیع الحق جو ایک منجھے ہوئے سیاست دان بھی ہیں نے ملاقات کے بعد بتایا کہ میں نے صدر حامد کرزئی سے کہا ہے کہ میں طالبان راہنماﺅں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے تیار ہوں، اگر افغان صدر اور ان کی حکومت کچھ متعین پیشکشیں اور مطالبات سامنے لائے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اہم ترین طالبان راہنما مولانا سمیع الحق کے مدرسے میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں جن میں ان کے قائد ملا عمر بھی شامل ہیں۔ 

افغان صدر کی مذاکرات کی خواہش کے علی الرغم طالبان قیادت ابھی تک افغان حکومت یا صدر حامد کرزئی کو مذاکرات میں کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے خیال میں افغانستان میں اس وقت دو ہی قوتیں ہیں ایک امریکی قیادت میں نیٹو افواج اور دوسری تحریک طالبان۔ جب کہ کرزئی کی حیثیت ان کے نزدیک ایک امریکی گماشتے سے زیادہ نہیں، یہی وجہ ہے قطر میں مذاکرات کے دوران میں جب افغانستان کے صدر کی جانب سے کہا گیا کہ امریکہ اور کابل مل کر طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں تو طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس بیان کو جھوٹ قرار دیا اور کہا کہ طالبان ان مذاکرات میں کرزئی حکومت کو شامل کرنا نہیں چاہتے۔ 

اس میں شک نہیں کہ مذاکرات کی میز پر دونوں طرف سے نفسیاتی حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ طالبان یہ جانتے ہیں کہ امریکہ اس وقت کس مشکل میں ہے، جنوری میں شروع ہونے والے مذاکرات میں ابھی تک امریکی نقطہ نظر سے کوئی حوصلہ افزا پیش رفت نہیں ہو سکی۔ جبکہ مئی میں نیٹو کے اجلاس سے پہلے پہلے امریکہ کو ان مذاکرات سے کوئی نہ کوئی نتیجہ حاصل کرنا ہے، تاکہ رواں سال کے موسم گرما میں اعلان کے مطابق مزید تئیس ہزار امریکی فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے کے منصوبے کو حتمی شکل دی جاسکے، جبکہ اس کے بعد امریکہ کے صدارتی انتخابات کے انعقاد کو بھی چھ ماہ سے بھی کم کا عرصہ باقی رہ جائے گا جبکہ امریکی رائے عامہ کو مطمئن کرنے کے لیے امریکی حکومت کو افغان مخمصے سے اپنے آپ کو بظاہر ”آبرو مندی “ سے باہر نکلنا ضروری ہے۔

طالبان بھی امریکیوں کی یہ تمام مشکلات اچھی طرح سے جانتے ہیں اس لیے وہ یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ مذاکرات ان کی مجبوری نہیں ہیں اور اس میں شک بھی نہیں کہ موجودہ حالات میں مذاکرات طالبان سے زیادہ امریکہ کی ضرورت ہیں۔ رہ گئے مذاکرات کی میز پر امریکی داﺅ پیچ اور کہہ مکرنیاں تو امریکی ایسا نہ کرنے کا وعدہ بھی کر لیں تو بھی وہ اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور رہیں گے یہاں تک کہ حالات دھکیل کر کہیں اور لے جائیں۔
 
ان مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کا کردار بھی بہت اہم رہا ہے۔ پاکستان ایک عرصے سے اس امر پر زور دیتا چلا آیا ہے کہ جنگ سے افغان مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، اس کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ ابتدا میں تو امریکہ کے علاوہ افغان حکومت بھی پاکستان کے اس نقطہ نظر کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھتی رہی، لیکن اب ہر کوئی مذاکرات کے لیے اپنی بے چینی کا اظہار کر رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ قطر میں مذاکرات شروع ہوئے تو پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہمیں اس بات پر خوشی ہے کہ بالآخر دنیا نے ہمارے موقف کو پذیرائی دی اور اب تمام بڑے کھلاڑی اور افغانستان میں بھی لوگ اس بات کو دیکھ رہے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے ہی افغانستان کے مسئلے کا حل ڈھونڈا جانا چاہیے تو اس لحاظ سے ہم اس کو خوش آئند سمجھتے ہیں کہ مصالحت کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک طالبان کے ساتھ روابط کا تعلق ہے پاکستان ہر اس کوشش کی حمایت کرتا ہے جو پائیدار مصالحت کی طرف لے کر جائے، کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات کی بات کی ہے۔ جہاں کئی بھی مذاکرات ہو رہے ہیں افغانستان کی بہتری کے لیے ہو رہے ہیں، وہاں پر استحکام کے لیے ہو رہے ہیں پاکستان ہر کوشش کی حمایت کرے گا۔ اس میں بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ مذاکرات کے آغاز کے لیے پاکستان کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ پاکستان نے اگرچہ اپنے آپ کو اس میں سہولت کار قرار دیا ہے تاہم مذاکرات کے دوران میں پاکستانی وزیراعظم کا دورہ قطر اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔

طالبان کے نزدیک بھی پاکستان اور افغان حکومت کا معاملہ جدا جدا ہے، کیونکہ پاکستان بہر حال ایک الگ ملک ہے جبکہ افغان حکومت کو وہ جائز اور قانونی حکومت تسلیم نہیں کرتے۔ درایں اثنا امریکہ پاکستان کے معاملے میں بھی دوہرا کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاک فوج میں موجود طالبان کے حامیوں سے طالبان کو دور کیا جائے اور طالبان بلاواسطہ امریکا کے ساتھ اپنا معاملہ طے کریں۔ 

جہاں تک مذاکرات میں موجودہ تعطل کا تعلق ہے اسے ایک عارضی تعطل ہی سمجھا جانا چاہیے کیونکہ امریکا اور پاکستان دونوں کی بہر حال یہ خواہش ہے کہ طالبان کے ساتھ معاملہ جلد از جلد حل کیا جائے۔ طالبان کے نقطہ نظر سے اصل مسئلہ حکومت میں ان کے اقتدار کے حصے کا تعین ہے، ظاہر ہے کہ مطالبہ تو انھیں بلا شرکت غیرے اقتدار کا ہی کرنا چاہیے لیکن بقول شاعر:
یہ طلب تو اپنی طرف سے ہے
پہ وہاں سے دیکھیے کیا ملے 

یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ طالبان کے پانچ سالہ دور اقتدار میں شمالی اتحاد کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا رہا ہے، دوسری طرف تین سے زیادہ ممالک نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ ایک ہمسایہ ریاست ایران کے ساتھ بھی ان کے تعلقات کچھ اچھے نہ تھے۔ مرکزی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ بھی ان کے مراسم خوشگوار نہ تھے۔ ایسے میں ایک ایسی حکومت کی تشکیل کے بغیر افغان مسئلہ حل نہیں ہو سکتا جسے افغانستان کے اندر تمام نسلی اور لسانی گروہوں کی قابل ذکر حمایت حاصل نہ ہو۔ علاوہ ازیں انھیں اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر نظرثانی کر کے ہمسایہ ممالک کے تحفظات کو کسی حد تک کم کرنا ہو گا۔ 

ہماری اطلاعات کے مطابق خود افغان صفوں میں ان امور کا احساس موجود ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تہران میں گزشتہ برس منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں مبینہ طور پر طالبان وفد موجود تھا۔ طالبان اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ امریکہ کو تو خطے سے نکل جانا ہے لیکن ہمسایوں کو اس کے ساتھ ہی رہنا ہے، لہذا مذاکرات میں امریکی داﺅ پیچ کا مقابلہ کرتے ہوئے انھیں مستقبل کے افغانستان کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 146378
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش