0
Tuesday 20 Mar 2012 21:38

نیٹو سپلائی اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس

نیٹو سپلائی اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس
 تحریر: نادر بلوچ

کیا پاکستان ایک کمزور، ناتواں اور ڈگمگاتی ہوئی ریاست ہے جو اپنا کوئی فیصلہ خود نہیں کر سکتی اور ہر معاملے میں امریکہ سے ڈکٹیشن لیتی ہے؟ جواب یقیناً نفی میں ہے! کٹھ پتلی ریاستوں کا رویہ ایسا نہیں ہوتا۔ کیا یہ ناقابل ِ یقین انہونی نہیں کہ ہماری دو سرحدی چوکیوں پر امریکی افواج کے حملے، جس کے نتیجے میں 26 فوجی جوان شہید ہوئے، کے بعد پاکستان دنیا کی واحد سپرپاور کے سامنے تن کر کھڑا ہو گیا اور کئی معاملات پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی، حتیٰ شمسی ائیر بیس بھی خالی کرا لیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی نیٹو سپلائی روک دی گئی اور اس وقت ہزاروں کی تعداد میں نیٹو ٹینکرز بن قاسم پورٹ پر کھڑے ہیں، اب یہ امریکی ہیں جنہیں دانتوں پسینہ آ رہا ہے۔ 

پاکستان اور افغانستان کے کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے مارک گراسمین معاملات کو سدھارنے کے لئے پاکستان آنا چاہتے ہیں مگر اُن کو بتایا گیا کہ اس کام کے لئے ابھی وقت مناسب نہیں اور وہ ابھی انتظار کریں، اس حوالے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ کئی مرتبہ یہ شوشا چھوڑ چکا ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان اور افغانستان کیلئے نمائندہ خصوصی مارک گراسمین راوں ماہ کے آخر میں پاکستان کا دورہ کریں گے، لیکن اس کے ساتھ ہی دفتر خارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں ان خبروں کی نفی کر دی۔ ایک وقت تھا جب اسلام آباد کی فضائیں امریکی حکومتی عہدیداران کی خوشامد اور چاپلوسی کی صداؤں سے معمور تھیں لیکن اب دارالحکومت کا موسم بہت تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ 

یہ امریکہ ہی تھا جسے افغانستان میں پاکستان نے مدد کی اور افغان جنگ میں اپنی زمینی اور فضائی حدود دے دیں، ایک فون کال پر "میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں" کا راگ الاپنے والا فوجی ڈکٹیٹر ڈھیر ہو گیا، اور ملک کو امریکی فوجی چھاونی بنا ڈالا، مگر آج وہی امریکہ ہے جسے نیٹو سپلائی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات اور اس پر پارلیمنٹ کے فیصلہ کا انتظار ہے۔ ہماری پارلیمانی تاریخ میں شاید ہی کبھی امریکہ نے ہمارے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا اتنی بے تابی اور بے صبری سے انتظار کیا ہو۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ پارلیمانی جائزے محض دکھاوا ہی ہوتے ہیں۔ اصل فیصلہ جی ایچ کیو اور حکومت کو ہی کرنا ہے، پارلیمنٹ تو صرف اس فیصلہ کی توثیق کرتی ہے۔
 
ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کئی آزاد فیصلے کیے گئے، اگر امریکہ کی جھولی میں گرنے کا فیصلہ کیا گیا تو وہ بھی اپنی مرضی اور آزادی سے کیا گیا۔ جنرل ضیاءالحق کو کس نے مجبور کیا تھا کہ وہ نام نہاد مجاہدین کی پشت پناہی کرے؟ یہ اُن کا اپنا ہی فیصلہ تھا، یہ اسی فوجی جنرل کا فیصلہ تھا کہ جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ آج دہشتگردی، کلاشنکوف کلچر اور منشیات کی لعنت نے پوری کو قوم کو جکڑا ہوا ہے۔
 
گیارہ ستمبر کے بعد ہم نے جو راہ اپنائی وہ مشرف کو ملنے والی کسی سنگین دھمکی کا نتیجہ نہ تھی۔ یہ فیصلہ بھی مشرف کا ہی تھا، کیونکہ وہ ایک فوجی جنرل تھا جو طاقت کے بل بوتے پر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا، لہٰذا اس نے آئین کو ردی کا ایک ٹکرا اور پارلیمنٹ کو محض ایک ربڑ سٹمپ قرار دے کر امریکی اتحادی بن بیٹھا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے کبھی پاکستان کو غلام سے بڑھ نہیں سمجھا۔ ہمیشہ آقا غلام جیسا رویہ روا رکھا گیا۔ ایک اور معاملہ جس پر پاکستان نے ثابت قدمی دکھاتے ہوئے آزادانہ فیصلہ کیا ہے، وہ ایران ہے۔ 

امریکی سیکرٹری خارجہ ہلیری کلنٹن نے یہی سمجھا کہ دھمکی کی کیا ضرورت ہے جب فون کال ہی کام کر جاتی ہے۔ اُنہوں نے پاکستان کو یاد دلانا ہی کافی سمجھا کہ ایران کے ساتھ تجارتی لین دین کے نتیجے میں پاکستان امریکی قانون کے مطابق مالی مسائل کا شکار ہو جائے گا، اور پاکستان جانتا ہے کہ اسے اس کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس پر پاکستان کی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے فوراً پریس کانفرنس کرتے ہوئے جواب دیا کہ پاکستان اپنے مفاد کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ پر اپنے مفاد کو مقدم جانا جائے گا۔ 

ایک اور بات اہم ہے کہ جب امریکہ اور اسرائیل ایران کو جنگ کی دھمکی دے رہے ہیں اور اسرائیل امریکہ پر زور دے رہا ہے کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر دے، پاکستان گیس معاہدے سے پیچھے ہٹتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ یہ کہنا بھی مبالغہ آرائی ہو گی کہ پاکستان اپنے مفاد کو نظر انداز کر رہا ہے۔ اب یہ بات امریکیوں پر آشکار ہو چکی ہے کہ اسلام آباد پر اُن کی گرفت خاصی کمزور پڑ چکی ہے، یہ اچھا شگون ہے۔ پاکستانیوں میں یہ احساس شدت پکڑ رہا تھا کہ امریکی ہمیں لائق ِ توجہ ہرگز نہیں گردانتے۔ امریکیوں کیلئے اہم اُن کے مفادات ہوتے ہیں۔ اب امریکہ پر تنقید کرنے سے پاکستانی حب الوطنی پر لگے بہت سے داغ دور ہوتے جا رہے ہیں، اب یہ نسبتاً زیادہ پرسکون ملک بنتا جا رہا ہے۔ اللہ کرے یہ تا دیر ایسا ہی رہے اور پاکستانی قیادت اپنے مفادات کے پیش نظر فیصلوں پر قائم رہے اور انہیں آگے بڑھائے۔ 

پاکستان کو نیٹو سپلائی لائن بحال کرنے سے پہلے بہت سوچ بچار کرنا پڑ رہی ہے، اس بحالی کے ممکنہ مثبت اور منفی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ہو گا، عوامی رائے تو یہی ہے کہ یہ سپلائی ہمیشہ کیلئے بند رہے مگر حکمران کیا فیصلہ کرتے ہیں اگلے تین روز میں واضح ہو جائے گا۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس آج سے شروع ہو چکا ہے، اس اجلاس کا مقصد پاک امریکہ تعلقات، نیٹو سپلائی کی بحالی پر پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر بحث اور آخر میں کمیٹی کی 35 سفارشات کو قرارداد کی صورت میں پیش کیا جائے گا، اس اجلاس کی کارروائی دیکھنے کیلئے امریکہ اور یورپی یونین سمیت کئی ممالک کے سفراء نے درخواست دی جسے منظور کر لیا گیا اور دعوت نامے بھی جاری کردیئے گئے۔
 
تاہم کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان سفیروں کا کارروائی کا معائنہ کرنا کسی مقصد سے خالی نہیں، خاص کر امریکہ اس کارروائی سے اندازہ لگانا چاہتا ہے کہ کونسی پارٹی نیٹو سپلائی اور پاک امریکہ تعلقات پر کیا مؤقف اختیار کرتی ہے، امریکہ اسی کو بیناد بنا کر مستقبل میں سیاسی قیادتوں سے نیا رابطہ استوار کرے گا۔ اس وقت پوری قوم کی نگاہ پارلیمنٹ پر لگی ہوئی ہے کہ ایوان میں بیٹھے ہوئے عوامی نمائندے کس حد تک عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں یا محض دکھاوے کیلئے بیان بازی کی جا رہی ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ماضی اور حال کے پاکستان میں بہت فرق ہو گا۔   
خبر کا کوڈ : 147102
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش