0
Saturday 24 Mar 2012 23:11

گلوبل مارچ ٹو یروشلم فلسطین کی آزادی اور بیداری اُمت کا نیا سنگ میل

گلوبل مارچ ٹو یروشلم فلسطین کی آزادی اور بیداری اُمت کا نیا سنگ میل
تحریر : محمد احمد ترازی
mahmedtarazi@gmail.com 
  
”ہم وہ صبح دیکھنے جا رہے ہیں کہ جب دنیا کے آزاد انسان فلسطینی پرچم تھامے اردن، مصر، لبنان، تیونس اور طرابلس میں نمودار ہوں گے۔“ پہلے گلوبل مارچ ٹو یروشلم کے موقع پر کہا گیا فلسطینی رہنماء اسماعیل حانیہ کا یہ تاریخی جملہ وقت کے بدلتے دھارے کی نشاندہی کر رہا ہے، واقعی حالات بدل رہے ہیں، مظلوم فلسطینیوں کی قربانیاں رنگ لا رہی ہیں، اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی ضمیر بیدار ہو رہا ہے اور آج دنیا کے کونے کونے سے فلسطینیوں کے حق میں بلند ہوتی ہوئی آوازیں اُن کی تاریخ ساز جدوجہد کا اعتراف کر رہی ہیں۔

فلسطینی ہر سال 30 مارچ کو یوم الارض مناتے ہیں، وہ 30 مارچ 1976ء کو ڈھائے جانے والے اُس قیامت خیز واقعہ کی یاد تازہ کرتے ہیں جس میں اسرائیلی فوجی درندوں نے پرامن مظاہرین پر حملہ کرکے سینکڑوں افراد کو زخمی و شہید، ہزاروں کو پابند سلاسل اور بے شمار فلسطینیوں کو اُن کی آبائی سرزمین سے زبردستی بے دخل کر دیا تھا، اُس روح فرسا واقعے کی یاد تازہ کرنے کیلئے فلسطینی چاہے وہ غزہ کے باسی ہوں یا مغربی کنارے کے رہائشی، لبنان کے مہاجر ہوں یا شام میں بسنے والے، ہر سال آزادی کے اِن شہداء کی یاد کو تازہ کرنے اور اسرائیلی ظلم وبربریت سے پردہ اٹھانے کے لئے یروشلم اور القدس کی سرحدوں پر جمع ہوتے ہیں اور اسرائیلی جارح افواج کے مظالم پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں، لیکن گذشتہ سال سے اِس احتجاج میں اب عالمی برادری بھی شامل ہو رہی ہے، گلوبل مارچ ٹو یروشلم اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

گذشتہ سال جب اِس مارچ کا تصور پیش کیا گیا تو اِس نظریئے کو دنیا بھر میں اِس قدر پذیرائی حاصل ہوئی کہ آج یہ نظریہ ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے اور دنیا کے متعدد ممالک سے تعلق رکھنے والے مختلف اقوام و مذہب کے لوگ اِس کاروان میں جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں، درحقیقت اِس مارچ کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ دنیا بھر کے باضمیر مسلمانوں، عیسائیوں، یہودیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو مجتمع کر کے عالمی ضمیر کو جگایا جائے اور اُسے یہ باور کرایا جائے کہ کہ نسل پرست صہیونی ریاست کی یروشلم اور اُس کے باسیوں کے خلاف اقدامات اور پالیسیاں فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ انسانیت کے خلاف بھی سنگین جرائم ہیں، اِس لیے دنیا اسرائیل کی جانب سے یروشلم اور دیگر فلسطینی علاقوں پر قبضے اور عالمی قوانین کی پامالی کے خاتمے کی کوششوں میں فلسطینیوں کا ساتھ دے۔ دراصل گلوبل مارچ ٹو یروشلم کے منتظمین اِس مارچ کے ذریعے فلسطینی تحریک مزاحمت کو ایک نیا رخ دینا چاہتے ہیں، جس میں دنیا بھرکے لاکھوں مظاہرین بلاامتیاز رنگ و نسل اور مذہب ایک ایسی فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتے نظر آئیں جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔

چنانچہ اِس مقصد کیلئے ہر سال 30 مارچ کو فلسطین میں احتجاجی ریلیاں اور مارچ منعقد کئے جاتے ہیں، تاکہ مسئلہ ارض فلسطین کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور اِس دیرینہ مسئلے کا پائیدار حل تلاش کیا جا سکے، 30 مارچ کو ہونے والے گلوبل مارچ ٹو یروشلم کا مقصد بھی یہی ہے کہ فلسطینی بھائیوں کو صہیونی ظلم و ستم سے نجات دلانے کیلئے پرامن احتجاج کیا جائے، چنانچہ اِس سال پوری دنیا نے اِس مسئلے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ظالم و غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے مظالم کا پردہ فاش کرنے کے لئے دنیا بھر میں ریلیاں نکالنے اور مارچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اِس مقصد کیلئے عالمی مارچ برائے آزادی القدس میں دنیا بھر سے مختلف رنگ و نسل اور زبان و مذہب کے تقریباً 10 لاکھ افراد فلسطین کی آزادی کیلئے 30 مارچ کو مقبوضہ فلسطین کی چار سرحدوں مصر، لبنان، شام اور اردن کی جانب سے بیت المقدس کی جانب پرامن احتجاجی مارچ کریں گے، اِسی روز دنیا بھر میں امریکی و اسرائیلی سفارتخانوں کے سامنے بھی پرامن احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔

اِس مقصد کیلئے 15 ایشیائی ممالک کا پہلا قافلہ جس میں پاکستان، انڈیا، ایران، بحرین، ملائشیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، تاجکستان، ازبکستان، ترکی، سعودی عرب، جاپان اور آسٹریلیا کی اہم سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات شامل ہیں، بھارت سے روانہ ہو کر براستہ پاکستان، ایران، ترکی، اردن اور لبنان کی جانب روانہ ہو چکا، جبکہ دوسرا قافلہ جس میں مختلف ممالک بشمول امریکہ اور مشرق وسطٰی کے ممالک کے لوگوں کے نمائندہ وفود شامل ہیں، افریقہ سے اپنے سفر کا آغاز کر چکا ہے، اِسی قسم کے قافلے دیگر چار براعظموں سے یروشلم کی جانب رواں دواں ہیں، اِس مارچ کو امریکہ، برطانیہ، جرمنی، اٹلی کے علاوہ دیگر مغربی ممالک میں بھی خاصی پذیرائی ملی ہے، اطلاعات یہ بھی ہیں کہ یورپی ممالک سے ایک بہت بڑا قافلہ اردن کی جانب روانہ ہونے والا ہے، دوسری طرف برطانیہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے 30 مارچ کو اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے مظاہرے کا اعلان بھی کیا ہے، جبکہ تنظیم آزادی فلسطین کے تحت قافلوں کے شرکاء کا فلسطین پہنچنے پر شاندار خیر مقدم کیا جائے گا۔

دوسری طرف اسرائیل اِس پرامن قافلے کو روکنے کی کوشش میں مصروف ہے، اُس نے بیت المقدس میں انفرادی حیثیت میں آنے کی ممانعت کرتے ہوئے 50 افراد کے وفد پر پابندی عائد کر رکھی ہے، صیہونی حکومت اِس مارچ سے اِس قدر خوفزدہ ہے کہ اُس نے مارچ کے خلاف باقاعدہ کئی محاذ قائم کر دیئے ہیں، جس میں سائبر وار سب سے اہم ہے، اسرائیلیوں نے مارچ ٹو یروشلم کے نام سے کئی ویب سائٹس بنائی ہیں، جس کے ذریعے وہ دنیا کی گلوبل مارچ ٹو یروشلم سے بڑھتی ہوئی ہمدردی کو کم اور اِس سے منتفر کرنا چاہتا ہے، لیکن تمام تر اسرائیلی مخالفتوں اور اقدامات کے باوجود اِس وقت پاکستان سے روانہ ہونے والا گلوبل مارچ ٹو یروشلم کا پہلا قافلہ ایران سے ہوتا ہوا شام پہنچ چکا، جہاں سے اُس کی اگلی منزل لبنان ہو گی۔

 خیال رہے کہ گلوبل مارچ ٹو یروشلم میں شرکت کیلئے سب سے پہلا قافلہ 10 مارچ کو انڈیا سے روانہ ہوا تھا، جس میں بھارت کے علاوہ انڈونیشیا، ملائیشیا اور فلپائن کے سینکڑوں مندوبین شامل ہیں، یہ قافلہ واہگہ باڈر کے راستے لاہور سے ملتان، سکھر اور حیدرآباد ہوتا ہوا کراچی پہنچا تو اِس کا شاندار استقبال کیا گیا، اِس موقع پر پاکستان کی معروف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین سمیت فلسطین سفیر ڈاکٹر ہازم ابو شناب بھی انہیں خوش آمدید کہنے والوں میں شامل تھے، کراچی سے اِس قافلے کے میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتوں کے وفود کے ساتھ جمعیت علمائے پاکستان کا بھی ایک آٹھ رکنی وفد علامہ سید عقیل انجم، قاضی احمد نورانی، حسنات احمد قادری اور طارق مغل کی قیادت میں 14مارچ کو مزار قائد پر حاضری دینے کے بعد ایران روانہ ہو چکا ہے۔

ایران روانگی سے قبل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کی دعوت پر پاکستان میں فلسطینی سفیر ڈاکٹر ہازم ابو شناب نے ایشیائی ممالک کے مندوبین برائے گلوبل مارچ ٹو یروشلم کے شرکاء سے خصوصی ملاقات کی، اِس موقع پر اُن کا کہنا تھا کہ میرے خاندان کی چار نسلیں فلسطین سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی ہیں، ہم آج تک بے وطن ہیں، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اپنے وطن میں رہ پائیں نہ کہ مہاجرین کی زندگی گزاریں، اُن کا کہنا تھا کہ گلوبل مارچ ٹو یروشلم کی کوشش ایک ایسی نوبل تحریک ہے جس کے بعد اُمید ہے کہ فلسطین بہت جلد غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے قبضے سے آزاد ہو جائے گا، انہوں نے اِس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ فلسطینی کسی صورت اسرائیل جیسی غیر قانونی اور غاصب ریاست کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے، اِس موقع پر انہوں نے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کی جانب سے فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے کی جانے والی کوششوں کو بھی زبر دست خراج تحسین پیش کیا۔

قارئین محترم! آپ جانتے ہیں کہ فلسطینی سر زمین 1948ء سے اسرائیلی قبضہ میں ہے جبکہ بیت المقدس 1967ء سے اسرائیلی شکنجے میں جکڑا ہوا ہے، جبکہ عالمی استعمار امریکہ، اسرائیل کی پشت پناہی میں مصروف ہے، جب بھی یہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھایا جاتا ہے، اسرائیلی سرپرست امریکہ ویٹو کر کے دبا دیتا ہے، امریکی حمایت نے فلسطینیوں کا خون، زمین، عزت و آبرو اور مستقبل صیہونی بھیڑیوں کے لئے حلال قرار دی ہے، جس کی وجہ سے آئے روز انسانی تذلیل کا تماشہ لبنان، اردن اور فلسطین میں صابرہ، شتیلہ اور غزہ کی صورت میں دہرایا جاتا ہے، اسرائیلی فوج اور انتظامیہ کھلے عام بین الاقوامی قوانین کو پامالی کرتی ہے، مگر کوئی اُسے لگام دینے والا نہیں تھا، کوئی اُس کے ہاتھ روکنے والا نہیں، لہٰذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ دنیا بھر کے تمام مذہبی،سیاسی،ثقافتی اور انسانی حقوق کے ماننے والے متحد ہو کر مشترکہ جدوجہد کرتے ہوئے بیت المقدس کی آزادی کے لئے کام کریں اور گلوبل مارچ ٹو یروشلم کے ذریعے پوری دنیا کو بیدار کریں، تاکہ بیت المقدس صیہونی غاصبانہ تسلط سے نجات حاصل کر سکے۔

اِس تناظر میں گلوبل مارچ ٹو یروشلم اُمید کی روشن کرن ہے، جس کے ذریعے _پوری دنیا میں بیداری کا عمل شروع ہو چکا ہے، آج اسماعیل حانیہ کی کہی ہوئی بات سچ ثابت ہو رہی ہے، اب امریکہ اور اسرائیل سمیت دنیا کی کوئی ظالم و جابر طاقت زیادہ دیر فلسطینیوں کے آواز کو دبا نہیں سکتی، آج دنیا بھر کے آزاد حریت پسند فلسطینی پرچم تھامے اُن کے ساتھ ہم آواز ہیں اور وہ دن دور نہیں جب گلوبل مارچ ٹو یروشلم مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے اور فلسطین کی آزادی اور اُمت مسلمہ کی بیداری کا نیا سنگ میل ثابت ہو گا، 30 مارچ 2012ء کو فلسطین کی چاروں سرحدوں پر ہونے والا یہ عظیم گلوبل مارچ ٹو یروشلم کسی ایک خطہ کا نہیں بلکہ دنیا بھر کے اُن حریت پسندوں مارچ ہے، جو فلسطینیوں کے 36 ویں یوم الارض کے موقع پر دنیا کے سامنے مسئلہ فلسطین کی اہمیت اجاگر کرنے اور ایک غاصب صیہونی ریاست کے انسانیت سوز مظالم کو عریاں کرنے کیلئے گلوبل مارچ کا یہ ترانہ گاتے ہوئے گامزن ہونگے۔

”قدس ہمیں اپنی آنکھوں میں موجود دلفریب مسکراہٹ سے پکار رہا ہے۔ اُس نے اپنے ہاتھ دنیا بھر کے آزاد انسانوں کی جانب بڑھا دیئے ہیں اور ہمارے قلوب کو اخلاص سے پرُ کر دیا ہے۔ اے قدس! دنیا بھر سے حریت پسند انسان تیری جانب بڑھ رہے ہیں اور تیری آنکھوں کی حسین مسکراہٹ نے انہیں نتائج سے بے پرواہ کر دیا ہے۔ اے قدس! ہم تیری سرحدوں پر جمع ہو رہے ہیں۔ اے قدس! وہ لوگ جنہوں نے تیری توہین کی، کبھی بھی امن سے نہ رہیں۔ تیری جانب عظیم سفر کے ذریعے تمام ادیان نے ہم کو متحد کر دیا، تیرے حسن نے ہمیں آزاد عزم اور ایمان کے ساتھ تیری سرحدوں پر جمع ہونے پر مجبور کر دیا۔ اے سنہری ریت والی سرزمین.... ہم تیری قید اور تکلیفوں کو نہیں بھولے۔ تیری محبت کتنے ہی دلوں میں بستی ہے، جو سینکڑوں میل کا سفر کر کے تیری جانب آئے ہیں، تاکہ تجھ سے قریب ہو سکیں اور ان کو اِس اَمر کے محال ہونے کی کوئی پروا نہیں۔“
خبر کا کوڈ : 147867
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش