0
Tuesday 27 Mar 2012 23:22

گلوبل مارچ ٹو یروشلم کےخلاف ایک سازش

گلوبل مارچ ٹو یروشلم کےخلاف ایک سازش
تحریر:سید اسد عباس تقوی 

گلوبل مارچ کے شرکاء کا قدس کی جانب والہانہ سفر تو اپنی جگہ دنیا بھر میں بسنے والے فلسطینی اپنی گزشتہ 64 سالہ تحریک آزادی کے اس نقطہ عروج پر جبکہ اقوام عالم کے لاکھوں انسان ان کے ہم آواز ہو چکے ہیں اپنی منزل کو قریب تر دیکھ رہے ہیں۔ فلسطینی سرزمین پر فعال حماس، فتح اور الجہاد کے علاوہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی فلسطینی تنظیمیں گلوبل مارچ کے اس عظیم موقع کی منتظر ہیں۔ وہ صبح کیسی صبح ہو گی کہ جب اسرائیل کی سرحدیں دنیا بھر سے آئے ہوئے قدس کے دیوانوں سے اور غاصب اسرائیل کے زیر تسلط علاقو ں کے شہر، گاﺅں، بازار اور گلیاں فلسطینی نوجوانوں کی پر جوش اور باعزم صداﺅں سے گونج رہے ہوں گے۔

گلوبل مارچ ٹو یروشلم کے شرکاء تو شاید یروشلم سے کہیں دور پڑاﺅ ڈال کر فلسطینیوں کے حقوق کی آواز اٹھائیں تاہم وہ فلسطینی جن کا سب کچھ ان کی چھنی ہوئی سرزمین ہے، وہ فلسطینی جو دنیا کے ہر شہر میں جانے کا حق تو رکھتے ہیں لیکن اپنے اجداد کی سرزمین کی خوشبو بھی انھیں نصیب نہیں، وہ فلسطینی جنھوں نے اپنے پیاروں کو اسرائیلی گولیوں اور بمباری کا نشانہ بنتے دیکھا ہے، وہ فلسطینی جو گزشتہ 64 سالوں سے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں اس موقع کو کیسے ضائع کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب اسرائیلی سیکورٹی اداروں نے بھی اس کاروان آزادی سے نمٹنے کے لیے تمام تر انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔ اسرائیلی پولیس فورس کے ایک افسر کے مطابق ملک بھر میں سیکورٹی کے انتظامات کو حتمی شکل دی جا چکی ہے۔ اس مقصد کے لیے پولیس فورس کے دستوں کو خصوصی تربیت بھی دی گئی ہے۔ اسرائیلی سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے ” یہ پہلی دفعہ نہیں کہ ہمیں اس قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔ ہم اس سے قبل 11مئی 2011ء کو  یوم النکبہ کے دن اسی قسم کی صورتحال سے نبرد آزما ہو چکے ہیں ( یاد رہے کہ 11مئی 2011 کو یوم النکبہ کی مناسبت سے شام، لبنان اور اردن میں آباد فلسطینی مہاجرین نے اسرائیلی سرحدوں پر جمع ہو کر عالمی برادری کے سامنے اپنا احتجاج قلمبند کروایا اور وطن واپسی کے بنیادی انسانی حق کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر اسرائیلی سیکورٹی اداروں کی براہ راست فائرنگ سے 13 افراد شہید ہوئے)۔ 
اسرائیلی افسر کا کہنا تھا کہ اردن اور مصر کی حکومتوں نے تو اپنی سرحدوں کو پر امن رکھنے کی یقین دہانی کروائی ہے تاہم لبنان کی سرحد کے بارے میں ابھی کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔ غزہ میں تو پہلے ہی تیل کی سپلائی روک دی گئی ہے جس کے سبب غزہ کا واحد پاور پلانٹ بند ہو چکا ہے۔ رواں سال مارچ کے اوائل میں اسرائیلی جنگی جہازوں کے حملوں میں شہید ہونے والے حماس اور الجہاد کے راہنما ﺅں کے لاشے بھی غزہ کے باسیوں کے لیے ایک پیغام تھے کہ اسرائیل حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرے گا۔

خون کا بہنا تو حتمی ہے ، ظالم اپنے ظلم کو آزمائے گا اور مظلوم ہمیشہ کی مانند جگر کو تاہم اس بربریت کے بعد اسرائیل جو ایران پر حملے کے معاملے میں پہلے ہی تنہائی کا شکار ہے ایک اور بے وقوفی کا مرتکب ہو گا۔ اب کی بار اسرائیلی جارحیت اس قدر آشکار اور واضح ہو گی کہ اسرائیل کی ہمنوا عالمی طاقتیں اور مغربی میڈیا اس پر پردہ ڈالنا بھی چاہے تو سوشل میڈیا اسے تشت از بام کر کے رکھ دے گا۔ اس نازک موقع پر سعودیہ کے مفتی اعظم اور امام کعبہ کا بیان قلمبند کیے بغیر کوئی چارہ نہیں جو فلسطینیوں کی حمایت میں تو کچھ کہ نہ سکے بیان دیا بھی تو کیا؟ ”جزیرہ عرب میں موجود تمام چرچوں کو تباہ کر دیا جانا چاہیے“۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ”رسول اکرم ص نے فرمایا تھا کہ جزیرہ عرب میں صرف ایک ہی دین ہو گا“۔ مفتی اعظم نے یہ بیان ایک کویتی وفد کے مسلم ممالک میں چرچوں کی تعمیر کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں دیا؟۔
 
یاد رہے کہ کویت کے ایک رکن اسمبلی نے گزشتہ ماہ کویت کی سرزمین پر نئے چرچوں کی تعمیر روکنے کے حوالے سے ایک بل پیش کیا جو ابھی تک قانون کا درجہ حاصل نہیں کر سکا۔ مذکورہ کویتی وفد مفتی اعظم سے اسی سلسلے میں وضاحت کے لیے سعودیہ گیا۔

آج جبکہ تمام الہی مذاہب کے پیروکاربیت المقدس کی پاکیزہ فضاﺅں کے طفیل ایک ہی عنوان پر جمع ہونے جا رہے ہیں۔ اس قدر نفرت انگیز بیان کو کیا نام دیا جائے۔ دشمن تو اس قسم کے مواقع کی تاک میں رہتا ہے۔ آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہوگی کہ مفتی اعظم کا یہ بیان میں نے اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ میں،گلوبل مارچ ٹو یروشلم سے مربوط خبروں میں پڑھا۔ یقینا یروشلم پوسٹ کی اس خبر پر اندھا دھند اعتماد کرنا ممکن نہ تھا۔ یروشلم پوسٹ کی اس عبارت Destroy all the Churches in Arabian Peninsula کو جب گوگل کے سپرد کیا تو دنیا بھر کے معتبر اخبارات اور نیوز چینلز پر اس خبرکی تفصیلات پڑھ کر یقین نہیں آتا تھا۔ ذہن میں فورا سوال پیدا ہوا کہ وہ عیسائی، ہندو اور یہودی جو بیت المقدس کی آزادی اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں گلوبل مارچ ٹو یروشلم میں شریک ہونے جا رہے ہیں، پر یہ فتوی سننے کے بعد کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

مسیحی معاشروں کے مذہبی مراکز میں جیسے جیسے یہ بیان پہنچ رہا ہے اپنا کام دکھا رہا ہے۔ لبنان، اردن، شام، کوریا، آسٹریا، روس، جرمنی، اٹلی سمیت یورپ میں جہاں جہاں یہ خبر پہنچ رہی ہے کے عیسائی بشپس اس بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بادشاہ کی معلومات کے بغیر مفتی اعظم اتنا اہم بیان کیسے جاری کر سکتے ہیں۔

امام کعبہ جنھیں عالم انسانیت کے لیے اسلامی تعلیمات کا نمونہ ہونا چاہیے تھا اور جن کے قول و فعل سے عالم اسلام سمیت دنیا بھر میں حق کی طاقتوں کو تقویت ملنی چاہیے تھی، نے اس انتہائی نازک موقع پر جبکہ دنیا کا ہر شخص اس بات سے آگاہ ہے کہ ابراھیمی ادیان کے پیروکار بیت المقدس کے تقدس، احترام اور مشترکہ وراثت کی بنیاد پر یکجا ہو کر قابض گروہ کے خلاف احتجاج کرنے جا رہے ہیں، یہ بیان صادر فرما کر نہ صرف ایک مذہبی گروہ کے دینی جذبات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ ان کا یہ بیان روح گلوبل مارچ ٹو یروشلم کے بھی سراسر خلاف ہے۔ آپ کے اس بیان نے دشمن کے اس پراپیگنڈہ کو سچ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی کہ مسلمانوں کا گلوبل مارچ ٹو یروشلم میں شرکت کا مقصد یروشلم کو مسلمان فلسطینی ریاست کا صدر مقام قرار دلوانا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مسلمان ایک تنگ نظر گروہ ہے جو کسی بھی دوسرے دین کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ اگر یہ بات کوئی عام مسلمان یا چھوٹا موٹا سیاسی لیڈر کہتا تو شاید اتنا افسوس نہ ہوتا۔ 

دکھ تو اس امر کا ہے کہ یہ بات کہنے والے عبد العزیزعبد اللہ الشیخ، امام کعبہ بھی ہیں اور سعودیہ کے مفتی اعظم بھی۔ حج کعبہ کو جانے والے مسلمان انہی کی اقتداء میں اپنی اہم ترین عبادات سر انجام دیتے ہیں اور عالم اسلام میں انہی کو قضاوت کے اعلی ترین منصب کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ انہی کا فہم اسلام، اسلام سمجھا جاتا ہے اور انہی سے دین کے مشکل مسائل میں راہنمائی کی توقع کی جاتی ہے۔
مصنف : سید اسد عباس تقوی
خبر کا کوڈ : 148591
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش