0
Monday 2 Apr 2012 13:09

شنگھائی کوآپریشن آرگنارئزیشن (SCO) اور پاکستان

شنگھائی کوآپریشن آرگنارئزیشن (SCO) اور پاکستان
تحریر: جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم

سویت یونین کے زوال پذیر ہو کر ہوا میں معلق ہو جانے اور نتیجتاً سرد جنگ کے خاتمے نے امریکی روائتی رعونت میں درندگی کا رنگ بھی بھر لیا، جس کے فوراً بعد نوے کی دہائی کے اوائل میں ہی پہلی گلف جنگ کی شکل میں مسلمانوں کا بے مقصد قتل عام شروع ہو گیا جو امریکہ، اقوام متحدہ اور مغربی میڈیا کے شیطانی اتحاد ثلاثہ کی طرف سے ایک ننگی جارحیت کا ارتکاب تھا، جس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا، چونکہ اب انسانی حقوق کے علمبردار اور اعلٰی امریکی اقتدار کا ڈھنڈورا پیٹنے والے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اصلی چہرے سب کے سامنے تھے۔ سٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی کے حامل جدید ترین کیمروں کے Cross Wire عراقی ہوائی اڈوں پر موجود ان شیلٹرز پر رکھے جاتے جن کے اندر اور باہر افراتفری میں بھاگتے دورٹے نہتے عراقی دیکھے جا سکتے ہیں اور پھر لیزر گائیڈ میزائل فائر کر کے سی این این اور بی بی سی کے ٹی وی نیٹ ورکس انسانی لاشوں کے پرخچے اڑتے دکھاتے۔ فضا سے گن شپ ہیلی کاپٹرز مقامی صحافیوں اور بے گناہ عراقی مسلمانوں کو بغیر اسلحہ کے بازاروں اور گلیوں میں چلتے پھرتے دیکھ کر بھی ان پر گولیوں کے برسٹ مارتے اور ان کو کیڑوں کی طرح ہلاک کرتے، جس کو پوری دنیا دیکھتی۔
 
اس پس منظر میں 26 اپریل 1996ء کو چین کے شہر شنگھائی میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں چین اور روس کے علاوہ قزاقستان، کرغیزستان اور تاجکستان نے بھی شرکت کی اور اس فورم کا نام شنگھائی فائیو رکھا گیا۔ اس کے بعد 15 جون 2001ء کو جب اس میں ازبکستان بھی شامل ہو گیا تو اس اتحاد کے نام کو بدل کر شنگھائی کو آپریشن آرگنایشن یا SCO رکھ دیا گیا اور پاکستان، ایران اور ہندوستان اور منگولیا کو بھی ابزرورز کی حیثیت میں SCO میں بیٹھنے کی اجازت مل گئی۔ ا س کے بعد SCO کی باقاعدہ کانفرنسیں ہوتی رہیں، جس میں سکیورٹی، ملٹری ٹریڈ، تجارت، ڈیفنس، امور خارجہ، معیشت، تہذیب، بینکنگ اور دوسرے مسائل پر گفتگو ہوتی رہی۔ انتہا پسندی اور دہشتگردی کے علاوہ SCO کا دھیان سوشل ڈویلپمنٹ پر بھی ہے۔
 
مغربی میڈیا یہ کہتا ہے کہ SCO کا قیام دراصل NATO اور خصوصاً امریکہ کی وسطی ایشا میں منہ زوری کو لگام دینے کیلئے ہے۔ ایران اس فورم سے بحیثیت ابزرور بھی امریکہ پر تنقید کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے خود بھی 2006ء میں SCO میں ابزرور سٹیٹس حاصل کرنے کی درخواست دی تھی جو نامنظور ہو گئی۔ سیلاب کے آگے ایک اس ماحول میں جبکہ دنیا کا مالیاتی سنٹر آف گریویٹی مغرب سے مشرق کی طرف شفٹ ہو رہا ہے SCO نیٹو کی من مانیوں کے سیلاب کے آگے بند بن کر ابھر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ SCO کے جیو پولیٹیکل پہلوؤں پر بڑے تبصرے ہو رہے ہیں۔
 
جرنل آف انٹرنیشنل افیئرز میں میتھیو برومر نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ مستقبل میں SCOمشرق وسطیٰ کی طرف بھی پھیل سکتی ہے۔ میتھیو کے خیال میں SCO اور ایران کا اتحاد بھی بہت پاورفل ہو گا۔ ایرانی مصنف گولپیرا نے سوویت قائد برزنیف کی اس تھیوری کا حوالہ دیا ہے جس میں اس نے کہا تھا ’’دنیا کو کنٹرول کرنے کیلئے Eurasian Landmass یعنی یورپ اور ایشا کو اپنے زیراثر رکھنا بہت ضروری ہے اور یوریشیا کا کنٹرول اس وقت تک حاصل کرنا ممکن نہیں جب تک وسطی ایشیا آپ کے زیراثر نہ ہو‘‘۔ قزاقستان، کر غیزستان، تاجکستان اور ازبکستان جیسی چار اہم وسطی ایشائی ریاستوں کی بنیادی رکنیت کے ساتھ SCO کا قیام کرتے وقت روس اور چین کے دماغ میں یقیناً برزنیف کی یہی فلاسفی کار فرما تھی اور یہ ضروری بھی تھا، چونکہ دنیا موجودہ ورلڈ آرڈر سے مطمئن نہیں چونکہ اب’’جس کے لاٹھی اس کی بھینس‘‘ والا فلسفہ کارفرما ہے۔ 

کہا یہ جا رہا ہے کہ SCO کے قیام سے اب شائد ایک ایسا ورلڈ آرڈر سامنے آئے، جس سے چھوٹے ممالک کی عزت و آبرو اور سلامتی پر مغربی طاقتیں موجودہ انداز میں بے جگری سے ڈاکے نہ ڈال سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ نئے ورلڈ آرڈر کو جسٹ ورلڈ کہا جائے گا۔ اب تو حال یہ ہے کہ سارے’’یورو۔ اٹلانٹک‘‘ریجن میں دنیا کی آبادی کا صرف 12فیصد رہتا ہے اور یہ ممالک طاقت کے بل بوتے پر باقی 88فیصد دنیا پر اپنا پارلیمانی جمہوری نظام، اپنا معاشی نظام اور اپنی نام نہاد تہذیب کو مسلط کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ چین کو بھی اس میں شک نہیں کہ امریکہ اب اس کیخلاف گھیرا تنگ کرنے کی ایک ایسی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کا نام ہے:
Strategy of enciclement and suffocalion 
امریکہ کی جاپان اور جنوبی کوریا میں موجودگی، تھائی لینڈ اور فلپائن سے تعلقات میں وسعت، ہندوستان کے ساتھ ایٹمی انرجی کے معاہدے اور کیپسین سمندر کی گیس اور تیل پر نظر چین انتہائی شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ خصوصاً ایسے حالات میں جبکہ امریکہ نے چین کے جنوبی سمندر کے سامنے بحراوقیانوس میں بھی ایٹمی بحری فوج تعینات کی ہوئی ہے۔
 
ریجنل اکنامکس کوآیریشن کانفرنس آن افغانستان (RECCA) کا پانچواں اجلاس چند دن پہلے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں منعقد ہوا۔ اس میں ایران، پاکستان، افغانستان اور تاجکستان کے صدور کے علاوہ چالیس ممالک کے وزرائے خارجہ اور تقریباً 33 بین الاقوامی تنظیموں نے بھی شرکت کی۔
ا س میں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ افغانستان کی معاشی فلاح کا اس وقت تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، جب تک افغانستان ایک بین الاقوامی میدان جنگ بنا رہے گا، جہاں امریکہ سمیت تقریباً48 ممالک کی افواج موجود ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان اور خطے کے ممالک کی معاشی آسودگی کا دارومدار خطے میں امن پر ہے اور امن کیلئے امریکہ اور اتحادی افواج کا خطے سے انخلا ضروری ہے۔ 

اگر سوچا جائے تو SCO کے بھی یہی مقاصد ہیں اور RECCA کا میزبان ملک ازبکستان SCO کا فاؤنڈر ممبر اور ایران اور پاکستان فی الحال ابزرور اور مستقبل کے متوقع مستقل ارکان ہیں چونکہ ہندوستان کے ساتھ اچھے دیرینہ تعلقات کے باوجود روس بھی اب چین کی طرح اس بات کے حق میں ہے کہ پاکستان کو SCO کا مستقل رکن بنا لیا جائے۔ پیوٹن نے اس بات کا عندیہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو دیا تھا اور اب پیوٹن کے تیسری بار صدر بننے سے اس بات کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ ایران کیSCO کی مستقل رکنیت کی راہ میں فی الحال اس کا ایٹمی پروگرام حائل ہے، جس دن ایران نے سلامتی کونسل اور بین الاقوامی ایٹمی ایجنسیوں کو یہ باور کروا لیا کہ اس کا نیوکلئیر پروگرام صرف پرامن مقاصد کیلئے اس کے SCO کے مستقل رکن بننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں رہے گی اور یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے ایک بہت بڑا دھکا سمجھا جائے گا۔
 
ادھر جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں ایٹم پر دنیا کی چوٹی کی کانفرنس بھی کچھ حاصل کئے بغیر ختم ہو گی ہے نقاد اس کو Talking Shop کہہ رہے ہیں، جہاں پچاس ممالک کے سربراہ تو آئے، لیکن زبانی جمع تفریق کرکے اُٹھ گئے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے امریکہ کی سربراہی میں بین الاقوامی تھانیداروں کی ٹیم مخلص نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس چوٹی کی کانفرنس میں ایران اور شمالی کوریا کو سرے سے شمولیت کی دعوت ہی نہیں دی گئی، چونکہ امریکہ اور مغرب کی اپنی سوچ کیخلاف کچھ سننے کا حوصلہ ہی نہیں۔ 

اس کانفر نس میں انیرچڈ یورنیم کے ذخائر پر کنٹرول کرنے کی بات ہوئی، ایٹمی سکیورٹی کو بہتر بنانے کا ذکر بھی ہوا۔ جاپان نے شمالی کوریا کے اگلے ماہ میزائل کے تجربے کے منصوبے پر تنقید، ارجنٹائن نے برطانیہ پر جنوبی بحرالکاہل میں ایٹمی سب میرین بھیجنے کا الزام لگایا، لیکن کسی نے بھی اسرائیل کی خفیہ ایٹمی صلاحیت، ہندوستان کی امن کے پردے کے پیچھے ویپن گریڈ یورنیم کی تیاری، دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے مکمل پاک کرنے کیلئے امریکی اور روسی ہتھیاروں کی اور ماضی میں امریکہ، روس، ہندوستان اور پچھلے سال مارچ میں ٹوکیو کے صرف 150 میل شمال مشرق میں فوکوشیما پلانٹ سے حادثاتی گیسز کے اخراج کی بات نہیں کی۔ ایسا حادثہ اگر پاکستان میں ہوتا تو پاکستان دشمن طاقتیں اور پاکستان میں موجود ان کے ہمدرد آسمان پر اٹھا لیتے اور اس کا سارا الزام حکومت وقت یا پارلیمنٹ پر نہیں بلکہ افواج پاکستان اور آئی ایس آئی پر آ جاتا۔
 
پاکستان کیلئے یہ ضروری ہے کہ موجودہ مشکل ترین اور ناخوشگوار بین الاقوامی فضا میں پاکستانی مفادات کا دفاع کرنے کیلئے پہلے موزوں، ذمہ دار اور اہل سیاسی قیادت سامنے لائے اور پھر بین الاقوامی سطح پر اپنی خارجہ پالیسی کو امریکی سرنگ سے باہر نکالے، اس سلسلے میں یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان پہلے قدم کے طور پر SCO کا مستقل رکن بننے کیلئے اپنی سفارتی مہم کو تیز کرے، چونکہ SCO ہی وہ فورم ہے جو بین الاقوامی پاور بیلنس کیلئے نیٹو اور امریکہ کو لگام دے سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 149721
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش