0
Wednesday 4 Apr 2012 19:42

ملی بیداری و تحرک وقت کی ضرورت

ملی بیداری و تحرک وقت کی ضرورت
تحریر: آئی ایچ ناصر 
اس وقت ملک میں جاری شیعان حیدر کرار کی ٹارگٹ کلنگ کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے، ہم ہر روز احتجاج کر رہے ہیں، ہر روز کسی نہ کسی شہر میں آگ و خون کا کھیل کھیلا جا رہا ہے، جس طرف بھی نگاہ اٹھتی ہے معصوم انسانوں کو خون میں لت پت دیکھا جا سکتا ہے۔ پارا چنار، گلگت، ہنگو، ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ، پشاور، کراچی، مستونگ اور کئی دیگر شہروں میں قتل وغارت گری کا راج دکھائی دیتا ہے۔ شیعان حیدر کرار گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں، قاتل گروہ کو مکمل آزادی ہے، انکا کوئی پرسانِ حال نہیں، انکے درد کا درمان کرنے والا کوئی نہیں۔ جو لوگ ایک عرصہ سے اہل تشیع کے وو ٹ لے کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں انکو ذرا سی بھی فکر نہیں۔
 
آپ اندازہ لگائیں کہ کراچی میں ایک سیاسی جماعت کا ایک کارکن بھائی سمیت مارا گیا تو اس جماعت نے ایک طرف تو کراچی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور دوسری طرف ایک دن کی ہڑتال میں میں پندرہ بیگناہ شہریوں کو موت کی وادی میں سلا دیا گیا، بیسیوں گاڑیاں جلا دی گئیں، اور نہ جانے کتنا مالی نقصان کیا گیا، اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا گیا، جبکہ وہی جماعت اس شہر میں اہل تشیع کے ووٹ لیتی ہے، مگر روزانہ بے دریغ قتل ہونے والے معصوم شیعان علی کے خون کا کوئی حساب نہیں ہوتا، نہ تو ہڑتال کی کال اور نہ ہی یوم سوگ، نہ میڈیا اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کا اظہار تعزیت، اور تو اور عدلیہ کو بھی سانپ سونگھ جاتا ہے۔

شیعان حیدر کرار کے ساتھ ہر کوئی منافقت، تعصب اور غیر مساوی سلوک سے پیش آ رہا ہے۔ معصوم اہل تشیع کے قتل عام پر عدلیہ کی پر اسرار خاموشی پر بے شمار سوال اٹھ رہے ہیں۔ آخر ہمیں اس ملک کے شہری اور وفادار کیوں نہیں سمجھا جا رہا؟ ہم نے اس مملکت کے قیام سے لے کر استحکام اور بقا و سلامتی کیلئے جس قدر قربانیاں دی ہیں، شائد ہی کسی اور مکتب یا فرقہ نے دی ہوں۔ مگر ہمیں مایوسی کے علاوہ کیا ملا۔ اس ملک کے اداروں نے شیعان حیدر کرار کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی ٹھان لی ہے، جب ہی تو دہشتگردوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، اسمبلی میں بیٹھے گھوگھو گھوڑے اور نمائندے نہ جانے کس منہ سے آئندہ الیکشن میں کروڑوں شیعان کرار کے پاس جائیں گے۔؟
 تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پہ چلے گا تمھارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر۔۔۔کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا۔۔میں نہیں مانتا
 

اس مایوسی اور بددلی کی فضا میں امید کی ایک ہی کرن پھوٹتی نظر آئی ہے وہ کراچی، خانپور، گلگت، کوئٹہ، سکردو اور بعض دیگر علاقوں میں دہشتگردی کے سانحات کے بعد شہداء کے جلوس ہائے جنازہ، چہلم اور مجالس ترحیم و تکریم ہیں، جن میں بلا مبالغہ لاکھوں لوگوں نے شرکت کر کے ملت کے قائدین اور صاحبانِ فکر کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اگر وہ اس ملت کی رہنمائی کیلئے آگے بڑھیں تو قوم ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول کیلئے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔
 
ہمارے خیال میں کراچی کے نشتر پارک میں 25 مارچ کو عظیم الشان قرآن و اہلبیت ع کانفرنس کا انعقاد ملت کے حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کا نقطہء آغاز ہے، اس سطح کے پروگرام تمام بڑے شہروں میں منعقد کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ان کے ذریعے ملی بیداری اور قومی تحرک و یکجہتی کے مظاہرے دیکھنے کو ملیں اور دشمنان تشیع، نااہل حکمرانوں، سیاسی جماعتوں اور ملت کے ووٹ کو اپنا حق سمجھنے والوں کو بھی خبر ہو جائے کہ اب وہ دن گئے جب ان کے ووٹ کی پرچی سے تم منتخب ہو کر انہی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے تھے۔

کسی ملت کی ترقی و پیشرفت اس کی سیاسی میدان میں مضبوطی اور کامیابیوں پر منحصر ہے، ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اس میداں میں بوجوہ آگے نہیں بڑھ سکے۔ اگر قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی کے دور میں شروع کردہ سیاسی سفر آگے کی طرف بڑھتا رہتا تو آج ملت یتیمی کی کیفیت سے دوچار نہ ہوتی اور ہم اپنے ملی حقوق کی نگہبانی کسی اور کو نہ دیتے۔ اگرچہ خاصی تاخیر ہو چکی ہے، مگر قوموں پہ عروج و زوال آتے رہتے ہیں، اب بھی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ آج بھی ملت کو متحد کیا جاسکتا ہے، آج بھی ملت کو قومی پلیٹ فارم دیا جا سکتا ہے۔ آج بھی طاغوت پہ لرزہ طاری کیا جا سکتا ہے، آج بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جا سکتا ہے۔
 
ہم اس آرٹیکل کے ذریعے ملت کے تمام طبقات بشمول علماء، عمائدین، ذاکرین، خطباء، طلباء، مبلغین، بانیان مجاس و جلوس، ماتمی دستوں اور کسی بھی شعبہ سے وابستہ ملی درد کے حاملان سے گذارش کریں گے کہ وہ اپنی وحدت کو قائم رکھیں، کسی بھی مسئلہ میں قومی وقار اور توقیر کا سودا نہ ہونے دیں اور ملی مفادات پر شخصی ترجیحات کو غالب نہ ہونے دیں، ملی وحدت بہرحال عزیز رہنی چاہیئے۔ ملی وحدت کے ذریعے ہی ہم دشمن کے ارادوں کو خاک میں ملا سکتے ہیں اور اس کی گہری سازشوں کو ناکامی سے دوچار کر سکتے ہیں۔ 

بلاشبہ یہ دور بیحد نازک ہے اور ہمیں بہ طور ملت انتہائی سمجھداری و زیرکی اور سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہے۔ شہدائے ملت کا مقدس لہو یقیناً ہم سے یہی تقاضا کر رہا ہے، جس طرح حضرت امام زمانہ ع کے دور حکومت میں تمام مظلومین یکجان و اکٹھے ہونگے، اسی طرح آج ہمیں متحد، منظم اور یکجان ہونا ہو گا، تاکہ آپ ع کے دشمنوں کے دانت کھٹے کئے جا سکیں اور ظہور قریب تر ہو، ہم بھی اپنی آنکھوں کو دیدار حضرت ع سے روشن اور منور کر سکیں۔ ہم بھی مظلوموں کی حکمرانی کا دور دیکھ سکیں۔
خبر کا کوڈ : 150398
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش