0
Monday 16 Apr 2012 12:13

1+5 گروپ کے موقف میں تبدیلی، حربہ یا حکمت عملی؟

1+5 گروپ کے موقف میں تبدیلی، حربہ یا حکمت عملی؟
تحریر: مہدی محمدی
2003 سے شروع ہونے والے ایران اور مغربی دنیا کے درمیان جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات کی پوری تاریخ میں شاید پہلی بار مغرب نے استنبول میں انجام پانے والے مذاکرات کے نئے دور کے آغاز پر ایسا موقف اختیار کیا ہے جسے وہ ہمیشہ سے اپنی ریڈ لائن کے طور پر بیان کیا کرتے آئے ہیں۔ اگرچہ اس بات کی واضح علامات موجود نہیں کہ مغربی دنیا کی اسٹریٹجک تشخیص، فیصلوں اور رویے میں سنجیدہ تبدیلی معرض وجود میں آ چکی ہو لیکن جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ مغربی دنیا کا لب و لہجہ کافی حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ وہ ریڈ لائن جو گذشتہ ایک عشرے سے مغربی دنیا کی جانب سے بیان کی جاتی تھی اور اس پر شدت سے تاکید کی جاتی تھی آج اسکی جگہ انتہائی محتاطانہ بیانات نے لے لی ہے۔ آج امریکی حکام بہت آسانی سے "انرچمنٹ" اور "افزودگی" کو ایران کا مسلمہ حق قرار دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ ایران اور مغرب کے درمیان جوہری مذاکرات کی تاریخ سے آگاہ افراد اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج تک مغربی حکام کی جانب سے یورینیم کی افزودگی کو ایران کیلئے ایک شجرہ ممنوعہ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔
اس کالم میں کوشش کی گئی ہے کہ استنبول میں انجام پانے والے ایران اور مغربی حکام کے درمیان جوہری مذاکرات کے نتائج کے بارے میں کسی قسم کا اظہار نظر کئے بغیر اس بات پر روشنی ڈالی جائے کہ کیا چیز 1+5 گروپ کے موقف میں ظاہری یا حقیقی طور پر تبدیلی کا باعث بنی ہے، اس تبدیلی کی کیا وجہ ہے اور یہ تبدیلی کس قدر اہمیت کی حامل ہے؟
حالیہ مذاکرات کے شروع ہونے سے تقریبا دو ہفتے قبل مختلف مغربی ذرائع خاص طور پر دو اہم امریکی اخبار یعنی واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز نے امریکی اعلی حکام سے نقل کرتے ہوئے کچھ اس قسم کی معلومات منظر عام پر لائیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق امریکی موقف میں اسٹریٹجک تبدیلی آ چکی ہے۔ اس بات کی وضاحت کیلئے کہ ہم نے امریکی موقف میں تبدیلی کو اسٹریٹجک تبدیلی کا نام کیوں دیا ہے، ماضی کی جانب ایک نظر دوڑانا ضروری ہے۔
1. اس سے پہلے جب بھی امریکی حکام ایران کی جانب سے اعتماد کی بحالی کی بات کرتے تھے تو انکے ذہن میں اسکے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا کہ ایران ہر قسم کی یورینیم کی افزودگی کو فی الفور ترک کر دے۔ مغربی حکام کی نظر میں اعتماد کی بحالی صرف اسی صورت میں ممکن تھی کہ ایران یورینیم کی افزودگی کو ختم کر دے اور صرف یہی وہ اقدام تھا کو ایران کے جوہری پروگرام کے پرامن ہونے کی ضمانت فراہم کر سکتا تھا۔ دوسرے الفاظ میں جب مغربی حکام ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں بات کرتے تھے تو وہ درحقیقت اسکے سوا کچھ نہیں کہتے تھے کہ صرف ایک قسم کا جوہری پروگرام ایسا ہے جسے پرامن مقاصد کے حصول کیلئے قرار دیا جا سکتا ہے اور وہ "یورینیم انرچمنٹ" سے عاری جوہری پروگرام ہے۔ لہذا مغربی حکام کے نزدیک "پرامن مقاصد کیلئے یورینیم انرچمنٹ" جیسا مفہوم بنیادی طور پر گفتگو کے دائرے سے خارج سمجھا جاتا تھا۔ لیکن آج مغربی حکام اور حتی ISIS جیسا انتہاپسند ادارہ جو ایران کے جوہری پروگرام کے ٹیکنیکل پہلووں سے متعلق سی آئی اے کا ریسرچ ونگ تصور کیا جاتا ہے، بھی واضح طور پر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ایران کی جانب سے 3 سے 5۔5 فیصد تک یورینیم کی افزودگی قابل قبول ہے اور ہمیں اپنی کوششوں کو اس بات پر مرکوز کرنا چاہئے کہ ایران کو یورینیم کی اعلی درجہ تک افزودگی سے روکا جائے۔ لہذا "ایران کے یورینیم افزودگی کے حق کے انکار" کا زمانہ عملی طور پر اختتام پذیر ہو چکا ہے۔
2. 1+5 گروپ کے لب و لہجے میں جو دوسری بنیادی تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے وہ یہ کہ یہ گروپ خود کو مذاکرات کے ایک نئے انداز سے مطابقت دے رہا ہے جسے "دوطرفہ اقدامات" کی منطق کا نام دیا جا سکتا ہے۔
آج سے پہلے قصہ یہ تھا کہ مغربی حکام ایران سے مطالبہ کرتے تھے کہ وہ بعض ذمہ داریوں کو قبول کرے اور انہیں پورا کرنے کیلئے مناسب اقدامات انجام دے اور اپنی جانب سے دوطرفہ اعتماد کی بحالی کیلئے کسی قسم کی ذمہ داری کو قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ گویا یہ صرف ایران کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے ایسے جوہری پروگرام سے متعلق مغربی ممالک کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرے جسکے پرامن مقاصد سے منحرف ہونے کے کمترین شواہد بھی موجود نہیں تھے۔ جبکہ 1+5 گروپ اور خاص طور پر امریکی حکومت ہمیشہ ایک تھانیدار کی حیثیت رکھتے تھے جنہیں سب سے احتساب کا حق حاصل تھا۔ لیکن اگر ہم گذشتہ ایک دو ہفتوں کے دوران مغربی حکام کی جانب سے دیئے گئے بیانات کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ ان میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اعتماد کی بحالی کیلئے ایران کی جانب سے یکطرفہ کوششوں پر زور کو مکمل طور پر ترک کر دیا گیا ہے اور 1+5 گروپ اس حقیقت کو تسلیم کر چکا ہے کہ اعتماد کی بحالی کیلئے ایران کی جانب سے اٹھائے جانے والے ہر قدم کے بدلے انہیں بھی ایک قدم آگے آنا ہو گا اور اعتمادسازی کا یہ پروسس تدریجی طور پر مرحلہ وار اور قدم بقدم انجام پائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے چند روز قبل جی ایٹ کے اجلاس میں کہا ہے کہ مغربی دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ ایران بھی ہم سے بعض مطالبات مطرح کرے گا لہذا ہم یہ مطالبات سننے کیلئے تیار ہیں۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھی جی ایٹ اجلاس میں اپنی شرکت سے واپسی پر امریکی حکام سے اپنی ملاقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کرنے والی تمام پارٹیز اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ مذاکرات کا ایک مرحلہ وار، تدریجی اور آہستہ سلسلہ شروع کیا جائے جس میں ایران بھی قدم بقدم آگے بڑھے اور دوسری پارٹی بھی مثبت اقدامات انجام دے۔ جی ایٹ اجلاس کے بیانئے میں بھی کہا گیا ہے کہ یہ گروہ ایران کے مقابلے میں تدریجی، مرحلہ وار اور قدم بقدم رویے کی حمایت کرتا ہے۔
مذاکرات میں مرحلہ وار حکمت عملی اختیار کرنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ مغرب اس حقیقت کو درک کر چکا ہے کہ ایران سے اعتماد کی بحالی کیلئے یکطرفہ کوششیں کرنے پر مبنی انکا مطالبہ انتہائی بیہودہ ہے لہذا مغربی حکام نے بھی اپنے ماضی کے موقف میں نرمی پیدا کر کے ایران کے ساتھ باہمی اعتماد کی بحالی کی سمت میں ایک مثبت قدم اٹھایا ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مرحلہ وار اسٹریٹجی ایک روسی حکمت عملی ہے تو وہ انتہائی غلطی کا شکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسکا روس سے کوئی تعلق نہیں اور اگر تھوڑا بہت تعلق ہے بھی سہی تو وہ اس لئے کہ روس وہ پہلا ملک تھا جس نے اس اسٹریٹجی کی بنیاد پر منصوبہ بندی انجام دی، البتہ اسکا منصوبہ کبھی بھی اپنے مقصد تک نہ پہنچ سکا۔
مغربی ممالک کی جانب سے "کچھ لو کچھ دو" کی پالیسی کو قبول کر لینا ہی بذات خود انکی عقب نشینی کی علامت ہے اور یہ کہ 1+5 گروپ یہ سمجھ چکا ہے کہ ایران کو چھوٹے موٹے امتیازات سے نواز کر اس سے بڑے بڑے مطالبات کرنے کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آ سکتے۔
3. تیسری اہم تبدیلی یہ ہے کہ 1+5 گروپ واضح طور پر اس بات کا خواہاں ہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات ہر صورت میں جاری رہنے چاہئیں چاہے ان مذاکرات میں کم ترین پیشرفت بھی انجام نہ پا رہی ہو۔ اگر گذشتہ چند ماہ کے دوران مغربی حکام کی جانب سے دیئے گئے بیانات کا مرکزی نکتہ بیان کرنا چاہیں تو وہ یہ ہو گا کہ مغرب ایران کے ساتھ مذاکرات جاری رہنے کا خواہاں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی ایران کے ساتھ مذاکرات کا پہلا دور اختتام پذیر نہیں ہوا تھا کہ مغربی حکام اور ذرائع ابلاغ نے دوسرے مرحلے کے یقینی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ جو بات انتہائی واضح ہے وہ یہ کہ مغربی ممالک اس سے ہٹ کر کہ ایران کے ساتھ مذاکرات میں کیا انجام پاتا ہے ان مذاکرات کو جاری رکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ مغربی حکام اس ضرورت کا واضح طور پر اعلان بھی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آج سے قبل مغرب کی جانب سے ایسا رویہ دیکھنے کو نہیں ملتا تھا۔ ماضی میں اکثر دیکھا جاتا تھا کہ مغربی ممالک مذاکرات کو جاری رکھے جانے کے امکان کی موجودگی اور دونوں پارٹیز کی مرضی کا راہ حل مذاکرات کی میز پر موجود ہونے کے باوجود نہ صرف گفتگو کو جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار نہیں کرتے تھے بلکہ بغیر کسی وجہ کے مذاکرات کو نامعلوم مدت تک لٹکاتے رہتے تھے۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مغربی ممالک کے رویے میں ان تبدیلیوں کی اصل وجہ انکے ذہن میں موجود حقائق کے بارے میں تجزیات اور تشخیص ہے۔ اولا یہ کہ ایران کا اپنے موقف پر ثابت قدم رہنا اور اپنے مسلمہ حقوق پر کسی قسم کی سودے بازی سے واضح انکار کر دینا مغربی دنیا کیلئے انتہائی واضح حقیقت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ 1+5 گروپ کو یہ سمجھنے میں کافی وقت لگ گیا کہ ایران کے اسٹریٹجک فیصلے کسی قسم کے دباو کا شکار نہیں ہو سکتے لیکن اب ان کیلئے یہ حقیقت بہت حد تک واضح ہو چکی ہے۔ ایران کی جانب سے تقریبا ایک عشرے تک اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے رہنے نے مغربی ممالک کی ایران کے رویے سے متعلق انکی سوچ کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور اگر انکی سوچ تبدیل بھی نہ ہوئی ہو تو وہ کم از کم یہ سمجھ چکے ہیں کہ ایران میں حتمی فیصلہ کرنے والی قوت ایسی نہیں کہ اسے دباو اور دھمکیوں کے ذریعے ایک خاص فیصلہ کرنے پر مجبور کیا جا سکے یا اسے کوئی ایسا فیصلہ کرنے سے روکا جا سکے جسکا براہ راست تعلق انکے ملک کے مستقبل، ملک کی تقدیر، عزت اور ترقی سے ہے۔
مغربی ممالک کی جانب سے ایران کے ساتھ مذاکرات کو جاری رکھنے کی خواہش کی دوسری بنیادی وجہ 1+5 گروپ میں شامل مغربی ممالک کے اندرونی اختلافات ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جو اگر بیان بھی نہ کی جائے لیکن بیان کی جاتی ہے، ان ممالک کے روزمرہ بیانات سے واضح طور پر سمجھی جا سکتی ہے۔ تین بنیادی عوامل یعنی خطے میں ایران کی اسٹریٹجک پوزیشن جو خاص طور پر گذشتہ سال عرب ممالک میں اسلامی انقلابات کے بعد انتہائی اہمیت اختیار کر چکی ہے، ایران کی مستحکم قومی طاقت اور انتہائی عقلمند و ذہین قیادت، مغربی ممالک کے درمیان ایران کے خلاف مناسب ردعمل اختیار کرنے کی نوعیت کے بارے میں شدید اختلافات پیدا ہو جانے کا باعث بنے ہیں۔ اس وقت اس گروپ کیلئے سب سے زیادہ کٹھن اور مشکل کام یہ ہے کہ ان سے کہا جائے کہ ایران کے بارے میں ایک موقف اپنائیں۔ ان ممالک میں حتی ایران کی جوہری سرگرمیوں سے متعلق بھی مشترکہ موقف موجود نہیں اور جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ کی اسٹریٹجک اور انٹیلی جنس تشخیص حتی اسرائیل سے بھی دور ہوتی جا رہی ہے، روس اور چین تو دور کی بات ہے۔ لہذا اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ 1+5 گروپ ایران کے ساتھ مذاکرات کو طول دے کر آپس کے اختلافات کو حل کرنے کیلئے وقت خریدنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس گروپ میں شامل مغربی ممالک کی جانب سے اس بات پر اصرار کہ مذاکرات کے دوسرے دور کے بارے میں بھی ابھی سے موافقت کا اعلان کیا جائے کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ آپس میں بات چیت کیلئے زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ممالک اس بارے میں بھی مطمئن نہیں ہیں کہ مستقبل قریب میں ایران کے بارے میں ایک مشترکہ موقف اختیار کر پائیں گے یا نہیں۔
مغرب کی جانب سے ایران کے ساتھ مذاکرات کو جاری رکھنے پر اصرار کی تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ایران کے مقابلے میں انکے تمام ہتھکنڈے ناکام ہو چکے ہیں۔ انہوں نے ایران پر سیاسی دباو ڈالا، اقتصادی پابندیاں لگائیں اور اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن شکست کھائی۔ اب وہ اس بارے میں پریشان ہیں کہ ان تمام ہتھکنڈوں کو بروئے کار لانے کے بعد بھی اگر ایران اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا تو وہ کیا کریں گے؟ اس سوال کے جواب پر 1+5 گروپ کے ممالک کے اندر شدید اختلافات موجود ہیں لہذا وہ ایران کے ساتھ روبرو ہونے سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سوال کا جواب کہ آیا ایران کے مقابلے میں مغربی ممالک کے رویے میں یہ تبدیلی اور لچک کیا صرف ایک حربہ ہے یا حکمت عملی؟ وقت گزرنے اور عملی شواہد کا تجزیہ کرنے کے بعد امکان پذیر ہے۔
خبر کا کوڈ : 153369
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش