0
Friday 20 Apr 2012 23:20

برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
تحریر: تصور حسین شہزاد 

پاکستان کی سرزمین ایک بار پھر شیعہ مسلمانوں کے لئے کربلا بنا دی گئی ہے۔ کراچی ہو یا کوئٹہ، کوہستان ہو یا مستونگ، چلاس ہو یا گلگت، شیعہ مسلمان ہی عتاب کا شکار ہیں۔ جب بھی امریکہ سے کوئی بات منوانی ہوتی ہے یا ایران سے کوئی مفاد لینا ہوتا ہے پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف دہشتگردی کی یہ لہر کوئی نئی بات نہیں، اس میں پہلی بار شدت امریکہ کے قابل فخر ایجنٹ اور آلہ کار آمر صدر ضیاءالحق کے دور میں آئی جب ضیاءالحق کی آنکھیں امریکی ڈالروں کی چمک دمک میں چندھیا چکی تھیں۔ صدر ضیاء نے پورے ملک میں امریکہ کے لئے ’’مجاہدین‘‘ پیدا کرنے کی فیکٹریاں لگا رکھی تھیں اور انہیں عسکری تربیت دے کر افغانستان بھیجا جا رہا تھا۔ ضیاءالحق اور ایک حساس ادارے نے اس وقت واشنگٹن کو اپنا قبلہ بنایا ہوا تھا اور شب و روز سجدوں پہ سجدے کئے جا رہے تھے۔ ( آج بھی پاکستانی حکمرانوں کا قابلہ واشنگٹن ہی ہے)

اس وقت کچھ ایسی جماعتیں بھی معرض وجود میں آئیں، جن سے امریکہ دو کام لے رہا تھا۔ ایک تو روس کو افغانستان سے نکالا جا رہا تھا اور دوسرا کام شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کر کے انقلاب اسلامی ایران کا راستہ روکا جا رہا تھا۔ امریکہ سپر پاور کے زعم میں بدمست ہاتھی کی طرح ہر چیز کو روندتے ہوئے چلا آ رہا تھا، جب کہ پاکستان میں حساس ادارے کا سربراہ مخصوص مذہبی گروہوں کی پرورش میں اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ جو مجاہدین افغانستان سے لوٹ کر آتے، انہیں شیعہ کشی کا مشن سونپ دیا جاتا۔ اس دہائی میں پاکستان کا کوئی ایسا شہر نہیں تھا، جہاں شیعہ مسلمان شہید نہ کئے گئے ہوں یا ان کی مسجد یا امام بارگاہ کو نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔

سوال یہ ہے کہ شیعیان پاکستان کا جرم کیا تھا؟ شیعہ مسلمانوں کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے امریکہ کے لئے افغانستان میں آلہ کار بن کر ’’جہاد‘‘ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ حساس ادارے کے سربراہ کو یہ انکار بہت برا لگا، موصوف نے اسے اپنی شان میں گستاخی سے تعبیر کیا اور اپنے ادارے میں ایک خصوصی ونگ قائم کر دیا، جس کا کام ہی شیعہ کشی تھا اور یہ ونگ تاحال کام کر رہا ہے۔ دہشتگردوں کے ایک مخصوص ٹولے نے اس ونگ کے خصوصی’’تعاون‘‘ سے پاکستان بھر کے شیعہ ڈاکٹروں، انجینئرز، بیوروکریٹس، ماہرین تعلیم، وکلاء اور اعلٰی افسران کو چن چن کر شہید کیا۔
 
اسی حساس ادارے کے سربراہ نے اسوقت دفاع پاکستان کے نام سے ایک پلیٹ فارم بنایا جس کی ذمہ داری یا ٹھیکہ داری مولانا سمیع الحق کو دی گئی۔ مولانا سمیع الحق کے ساتھ جماعت اسلامی نے بھی بڑھ چڑھ کر اس ’’کارخیر‘‘میں حصہ لیا۔ اس کونسل شامل جماعتوں نے ماضی میں امریکہ سے اربوں ڈالرز اور بھاری اسلحہ وصول کیا۔ ڈالر ان دہشتگردوں اور حساس ادارے کے سربراہ اور کچھ دینی مدارس کے کام آئے اور اسلحہ اوجڑی کیمپ میں اپنے انجام کو پہنچ گیا۔

اب دفاع پاکستان کونسل کے نام سے وہی پرانے چہرے ایک بار پھر متحرک ہو گئے ہیں، پھر وہی لوگ اور وہی جماعتیں اس میں شامل ہیں۔ حساس ادارے کے وہ سربراہ اب تو ریٹائرڈ ہو چکا ہے، لیکن اس کونسل کے پلیٹ فارم کو دوبارہ متحرک کرنے میں پیش پیش ہے۔ اس کونسل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ امریکہ پر دباؤ کے لئے بنائی گئی ہے، جس کے دوچار کامیاب ترین جلسوں کے بعد امریکہ سے مقصد حاصل ہونے پر اس کو لپیٹ کر دوبارہ کسی کونے کھدرے میں رکھ دیا جائے گا اور مستقبل میں کہیں اس کی ضرورت پیش آئی تو اس میں دوبارہ ہوا بھر کر اس سے کام چلایا جائے گا۔
 
اس کونسل کے متحرک ہونے کے بعد پاکستان میں شیعہ مسلمانوں پر حملے ایک بار پھر شروع ہو گئے ہیں۔ خفیہ ادارہ ان کی مکمل سرپرستی کر رہا ہے۔ حساس ادارے کی سرپرستی اسلام آباد میں 27 مارچ کو دفاع پاکستان کونسل کے دھرنے کے وقت کھل کر سامنے آ گئی جب حافظ سعید اور مولانا احمد لدھیانوی پابندی کے باوجود اسلام آباد میں داخل ہو گئے اور رحمن ملک بھی وہاں بے بس دکھائی دینے لگا۔

حافظ سعید اور مولانا لدھیانوی کی جماعتوں کو پاکستان میں کالعدم قرار دیا جا چکا ہے، جبکہ اقوام متحدہ حافظ سعید کو عالمی دہشتگردوں میں شامل کر چکا ہے۔ ریلی کے روز حافظ سعید اور ان کے قافلے کو کسی روک ٹوک کے بغیر اسلام آباد میں داخل ہونے دیا گیا، جب کہ مولانا لدھیانوی کا قافلہ پیر ودھائی روڈ سے اسلام آباد میں داخل ہوا تو سسکتھ ایونیو پر موجود پولیس ناکہ پر انہیں روک لیا گیا۔ جب مولانا لدھیانوی کو بتایا گیا کہ وہ اسلام آباد میں داخل نہیں ہو سکتے تو انہوں نے پولیس کے احکامات کو رد کرتے ہوئے اپنے قافلے کے تمام ڈرائیورز کو کہا کہ وہ آگے بڑھیں۔
 
مولانا لدھیانوی کی گاڑی سب سے آگے تھی۔ ان کی گاڑی آگے بڑھنے لگی تو اسلام آباد پولیس نے بندوقیں تان لیں، اس پر مولانا کے ساتھ پنجاب پولیس کے کمانڈوز نے بھی بندوقیں سیدھی کر لیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی جان لیوا حادثہ رونما ہوتا، ایک سب انسپکٹر نے اعلٰی حکام کو صورتحال سے آگاہ کر دیا۔ اعلٰی حکام نے ہدایات جاری کر دیں کہ قافلے کو نہ روکا جائے اور اسلام آباد میں داخل ہونے دیا جائے۔

اس کے بعد مولانا احمد لدھیانوی آبپارہ کے قریب ایک مسجد میں پہنچے، جہاں سپاہ صحابہ کے درجنوں کارکن پہلے ہی موجود تھے۔ کچھ دیر مسجد میں گزارنے کے بعد مولانا لدھیانوی کارکنوں کے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک پہنچے، حالانکہ طے شدہ پروگرام کے مطابق تمام جلوسوں کو بلیو ایریا میں جمع ہونا تھا۔ جہاں سے دفاع پاکستان کونسل کی پوری قیادت نے ایک بڑی ریلی کی صورت میں ڈی چوک پہنچنا تھا۔

دھرنے میں شریک کارکنوں سے رہنماؤں کے خطابات کا سلسلہ جاری تھا کہ وہاں موجود ایس ایس پی اسلام آباد ملک یوسف کو آئی جی اسلام آباد کی جانب سے مولانا لدھیانوی کی گرفتاری کے احکامات ملے۔ دھرنا ختم ہونے پر مولانا لدھیانوی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لاہور کے لئے روانہ ہونے لگے تو پولیس کی بھاری نفری نے ان کا تعاقب کر کے انہیں 9th ایونیو پر روک کر مولانا کو تھانہ آئی نائن لے گئے، جہاں مولانا لدھیانوی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارسرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ انتظامیہ اور اعلٰی پولیس افسران بھی تھانے میں پہنچ گئے۔ مولانا لدھیانوی کو پولیس نے شخصی ضمانت پر رہائی کی پیش کش کی، مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ ملکی بقا کے لئے اپنے ملک میں کہیں بھی جا سکتے ہیں۔

رات گئے تک جب مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے تو وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک خود تھانے میں آ گئے، جہاں مولانا کے حمایت کے لئے اعجاز الحق اور مولانا فضل الرحمن خلیل پہلے ہی موجود تھے۔ رحمن ملک کی موجودگی میں نئے سرے سے مذاکرات شروع ہو گئے، مگر مولانا لدھیانوی اپنی ضد پر اڑے رہے۔ رحمن ملک نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ اگر آپ شخصی ضمانت پر رہائی حاصل کر لیں تو ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل رہ جائیں گے، کیونکہ آپ کی اسلام آباد آمد کو غیر ملکی سفارتخانوں نے بھی مانیٹر کیا ہے، اس طرح ہم پر الزام آئے گا کہ جیسے ہم نے آپ کو اسلام آباد آنے کی اجازت دی تھی۔ مولانا کا اصرار تھا کہ حکومت پر جو بھی الزام آئے انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں، وہ شخصی ضمانت پر رہا نہیں ہوں گے۔ جب مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تو رحمن ملک نے پولیس کو ہدایات جاری کر دیں کہ مولانا کو جانے دیا جائے اور مولانا کی گرفتاری کو تھانے کے روزنامچے میں ظاہر نہ کیا جائے۔ اس طرح مولانا لدھیانوی ’’باعزت بری‘‘ ہو کر اسلام آباد سے روانہ ہو گئے۔

حافظ سعید اور مولانا لدھیانوی کی اسلام آباد آمد طے شدہ تھی۔ حکومت دونوں رہنماؤں کی اسلام آباد آمد اور روانگی پر پردہ ڈالنا چاہتی تھی، لیکن اسلام آباد پولیس اور پنجاب پولیس کے کمانڈوز کے درمیاں بندوقیں تاننے کے واقعہ نے انتظامیہ کو ایکشن پر مجبور کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ نیٹو سپلائی کے لئے پاکستان اپنی پارگینگ پوزیشن کو بہتر بنانے کیلئے ایک مرتبہ پھر دینی اور جہادی حلقوں کا سہارا لے رہا ہے۔ اس کا مقصد امریکہ کو یہ باور کروانا ہے کہ جہادی و دینی حلقے پاک امریکہ تعلقات کی بحالی پر خوش نہیں، حکومت کو اس تعلق کی بحالی کی بھاری قیمت چکانا ہو گی، لہذا نہ صرف پاکستان کی نئی شرائط قبول کی جائیں بلکہ امداد بھی بحال کر دی جائے۔ اوباما انتظامیہ امداد بحالی کا عندیہ تو دے چکی ہے، لیکن یہ ڈرامہ ابھی ختم نہیں ہوا اس کے کچھ مناظر ابھی باقی ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 155050
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش