1
0
Sunday 22 Apr 2012 22:37

جنوبی سوڈان، براعظم افریقہ میں دوسرے اسرائیل کا قیام

جنوبی سوڈان، براعظم افریقہ میں دوسرے اسرائیل کا قیام
اسلام ٹائمز- سوڈان اور جنوبی سوڈان میں گذشتہ کئی ہفتے سے جاری میڈیا وار بالآخر خرطوم کی جانب سے جنوبی سوڈان کے بعض علاقوں پر بمباری کے بعد فوجی محاذ آرائی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ سوڈان کے اراکین پارلیمنٹ نے اپنے تازہ ترین اجلاس میں جنوبی سوڈان کو رسمی طور پر دشمن ملک قرار دے دیا ہے۔ اس اقدام کے بعد جوبا اور خرطوم کے درمیان نبیتو سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تیل کے ذخائر سے مالا مال علاقے ھجلیج کے بارے میں موجودہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر اس علاقے میں غیرقانونی طور پر افواج گھسانے کے الزامات عائد کرنا شروع کر دیئے۔ دونوں ممالک کا دعوی ہے کہ یہ علاقہ انکے ملک کا حصہ ہے۔
یہ مسئلہ جون 2011 میں اس وقت شروع ہوا جب جنوبی سوڈان نے اپنی خودمختاری کا اعلان کر دیا۔ اس وقت تک جوبا اور خرطوم مشترکہ سرحدوں کے تعین اور باغیوں کے بارے میں کسی مشترکہ فیصلے تک نہیں پہنچ پائے۔ قدرتی وسائل خاص طور پر تیل کے ذخائر سے مالامال علاقہ ھجلیج جو متنازعہ سرحدی علاقے پر واقع ہے 2009 میں ہیگ کی بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کے مطابق سوڈان کا حصہ ہے۔
اگر ھم سوڈان میں اختلافات کے مسئلے کا گہرائی سے جائزہ لینا چاہیں تو ہمیں ان مسائل کی وجوہات کو دو مختلف عرصوں کے دوران پرکھنا پڑے گا۔ البتہ یہ دونوں عرصے ایکدوسرے سے جدا نہیں بلکہ مل کر ہی ہمارے سوالات کا جواب دے پائیں گے۔ پہلا عرصہ 2011 میں سوڈان کے اندر جنم لینے والی خانہ جنگی ہے جسکے نتیجے میں سوڈان ٹوٹ کر دو حصوں میں بٹ گیا اور جنوبی سوڈان کے نام سے ایک نیا ملک دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آیا۔ سوڈان اور جنوبی سوڈان میں جو دشمنیان آج نظر آ رہی ہیں انکی بڑی وجہ اسی عرصے میں انجام پانے والے حوادث میں پوشیدہ ہے۔ دوسرا عرصہ افریقی ہارن میں گذشتہ پچاس سال کے دوران جنم لینے والے اتفاقات ہیں۔ پہلا عرصہ دوسرے عرصے سے جدا نہیں اور درحقیقت اس عرصے میں جنم لینے والے حوادث کی جڑیں دوسرے عرصے سے جا ملتی ہیں۔
2011 میں سوڈان کی حکومت نے ملک کے شمالی اور جنوبی حصوں کے درمیان دسیوں سال کی خانہ جنگی کے بعد آخرکار جنوبی سوڈان کی خودمختاری کو قبول کر لیا اور اس طرح دسمبر 2011 میں سوڈان کے جنوبی حصے میں ایک رفرنڈم برگزار ہونے کے بعد یہ حصہ ہمیشہ کیلئے سوڈان سے جدا ہو گیا۔ اس تقسیم سے متعلق کئی سوالات جیسے آیا سوڈانی حکومت کی جانب سے جنوبی سوڈان کی خودمختاری کو قبول کرنے اور ملک کو دو حصوں میں تقسیم ہونے دینے کا فیصلہ غلط تھا یا صحیح؟، سوڈان کے ٹوٹنے میں عالمی استعماری قوتوں اور صیہونیزم کا کیا کردار تھا؟، آیا سوڈان کی تقسیم کی وجہ حکومت کی غلط پالیسیاں تھیں یا باغیوں کی فوجی طاقت؟، آیا جنوبی سوڈان کے باغی جو بین الاقوامی اداروں کی حمایت سے بھی برخوردار تھے حق پر تھے؟، ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے کا مسئلہ کس حد تک اس تقسیم میں کارفرما تھا؟، اور ایسے ہی بہت سے دوسرے سوالات کا جواب افرقی ہارن میں گذشتہ پچاس سال کے دوران انجام پانے والے واقعات کا جائزہ لینے سے ہی مل سکتا ہے۔
سوڈان 1956 تک برطانوی استعمار کا حصہ تھا اور اسی سال برطانوی فوجیوں کے انخلاء کے بعد سوڈان ایک خودمختار ریاست کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ سوڈان کے شمالی اور جنوبی حصوں کے درمیان خانہ جنگی برطانیہ کی شہ پر جنوبی حصے کے باغیوں نے شروع کی۔ یہ خانہ جنگی تقریبا تیس سال تک جاری رہی جس میں لاکھوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
جناب عمر البشیر نے خانہ جنگی کے خاتمے کیلئے کینیا معاہدے پر دستخط کئے جس میں طے کیا گیا کہ 1985 سے لے کر 2011 تک جنگ بندی رہے گی اور اس دوران ملک کے قدرتی وسائل اور دولت کا 60 فیصد حصہ شمالی سوڈان جبکہ 40 فیصد حصہ جنوبی سوڈان کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ اس معاہدے کے بعد جنوبی سوڈان کے باغیوں کے سربراہ جان گارانگ نے صدارت کا عہدہ سنبھال لیا لیکن باغیوں کے حامی ممالک جیسے برطانیہ، امریکہ، اسرائیل اور علاقائی حامی جیسے یوگنڈا اور کینیا کی جانب سے اس معاہدے کی مخالفت کا نتیجہ جان گارانگ کے قتل کی صورت میں نکلا۔ وہ یوگنڈا کے صدر کے ایک ہیلی کاپٹر میں سفر کر رہے تھے کہ بظاہر اسے پیش آنے والے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔
جان گارانگ کی ہلاکت کے بعد سالاواکر کو جنوبی سوڈان کے باغیوں کا سربراہ مقرر کر دیا گیا جس نے خرطوم کے ساتھ اپنی جنگ کو جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ سوڈان آرمی باغیوں کے ساتھ لڑائی میں ایک دفعہ ایسے مرحلے پر پہنچ گئی کہ باغیوں کا خاتمہ قریب ہو گیا اور وہ یوگنڈا اور کینیا کے سرحدی علاقے توریت تک عقب نشینی کرنے پر مجبور ہو گئے اور انہیں جنگل میں پناہ لینا پڑی۔ لیکن اسکے بعد مغربی ممالک کی جانے سے باغیوں کی بھرپور حمایت اور سوڈان حکومت کے خلاف مغرب کی جانب سے شدید اقتصادی اور سیاسی دباو اور اسلامی ممالک حتی او آئی سی، عرب لیگ اور دوسری تنظیموں جیسے نان الائنمنٹ آرگنائزیشن کی جانب سے سوڈان کی مدد نہ کرنے کے باعث سوڈانی حکومت اس منحوس اتحاد کے سامنے تنہا رہ گئی اور باغی بہترین امریکی اور برطانوی اسلحہ سے لیس اور اقوام متحدہ کی حمایت سے برخوردار ہو کر ہاری ہوئی جنگ جیت گئے۔ آخرکار حسن عمر البشیر جنوبی سوڈان کی خودمختاری کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔
مغربی ممالک نے اپنے اس منحوس مقصد کے حصول کیلئے عمر البشیر کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے جرم میں گرفتار کر لینے کی دھمکیاں بھی دیں اور انہیں اس حد تک دباو کا شکار کیا کہ وہ ملک کی تقسیم پر راضی ہو گئے۔
جنوبی سوڈان کے باغیوں اور عمر البشیر کے درمیان نواشا معاہدہ انجام پانے کے نتیجے میں جنوبی سوڈان میں رفرنڈم کروایا گیا اور اس طرح جنوبی سوڈان شمالی سوڈان سے جدا ہو کر 193 ویں ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا۔ اس تقسیم کے نتیجے میں 6 لاکھ 20 ہزار مربع کلومیٹر یعنی سوڈان کا ایک چوتھائی حصہ 80 لاکھ کی آبادی کو دے دیا گیا۔ جنوبی سوڈان میں ملک بھر کے 85 فیصد تیل کے ذخائر یعنی 6 ارب بیرل موجود ہیں۔ لہذا سوڈان کے تیل کے ذخائر کا ایک بڑا حصہ عالمی استعماری طاقتوں اور اسرائیل کے حمایت یافتہ جنوبی سوڈان کے باغیوں کے ہاتھ لگ گیا۔
اسرائیل کی غاصب صیہونیستی رژیم سوڈان سے جنوبی سوڈان کی علیحدگی کا خیر مقدم کرنے والی پہلی ریاست تھی اور اسرائیل نے اس نئے ملک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت جلد اعلی سطح پر استوار کر لیا۔ اسرائیل کی وزارت خارجہ کے سابق ڈائریکٹر الون لیئل نے جنوبی سوڈان کی خودمختار کے بعد اپنی ایک تقریر میں یوں اعتراف کرتے ہوئے کہا:
"سوڈان ہمارا دشمن ملک تھا اور ہم نے جنوبی سوڈان کی حمایت کے ذریعے اس ملک کو تقسیم کرنے میں مدد فراہم کی اور آج ہم اپنی اس حمایت کا نتیجہ دیکھ رہے ہیں"۔
الون لیئل نے مزید اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کا ہدف کالے براعظم میں نفوذ پیدا کر کے مصر کے ساتھ تعلقات میں اس کارڈ کو استعمال کرنا ہے کیونکہ مصر دریاے نیل کو انتہائی اسٹریٹجک ایشو تصور کرتا ہے۔
اکثر سیاسی ماہرین جو سوڈان کی تقسیم میں اسرائیل کی شدید دلچسپی کے شاہد ہیں کا خیال ہے کہ اسرائیل نے براعظم افریقہ کیلئے لمبے خواب دیکھ رکھے ہیں۔ دوسری طرف اسلامی اور عرب ممالک اور ان سے وابستہ لمبی چوڑی تنظیموں نے نہ صرف اسرائیل کی جانب سے براعظم افریقہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی روز بروز بڑھتی ہوئی کوششوں پر کوئی مناسب ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے بلکہ خود کو مغربی ممالک کی جانب سے ڈکٹیٹ کئے گئے ایشوز جیسے شام کے مسئلے میں الجھا کر خارجہ پالیسی سے متعلق اپنی غفلت کو اوج پر پہنچا دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں جنوبی سوڈان عرب ممالک اور حکومتوں کی غفلت کی وجہ سے خودساختہ دشمن میں تبدیل ہو چکا ہے۔
آج اگر ہم دیکھتے ہیں کہ جنوبی سوڈان کی جانب سے تیل سے مالامال علاقے ھجلیج کے بعض حصے پر قبضہ شمالی سوڈان کے ساتھ جنگ پر منتج ہوتا ہے تو یہ وہی راستہ ہے جس پر اسرائیل کی منحوس رژیم اپنی پوری تاریخ کے دوران گامزن رہی ہے۔ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب نے براعظم افریقہ میں ایک نیا اسرائیل جنم دیا ہے اور اگر اسلامی و عرب ممالک کی غفلت اسی طرح جاری رہی تو وہ مزید خودساختہ دشمن بناتے چلے جائیں گے۔
منبع : روزنامه جمهوری اسلامی
خبر کا کوڈ : 155215
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

very good article must read for updating yourself about the sick enemy of islam
ہماری پیشکش