0
Thursday 26 Apr 2012 19:21

وزیراعظم گیلانی کو سزا

وزیراعظم گیلانی کو سزا
تحریر: طاہر یاسین طاہر

دنیا بھر میں قومیں تاریخ رقم کرتی ہیں مگر ہم قوم کے مروجہ معیار اور اسکی کسی متفقہ تعریف پر شاید ابھی پورا نہیں اتر رہے ہیں۔ ہم ایک ہجوم ہیں جو قوم بننے کی طرف پیش رفت کرتے نظر آتے ہیں مگر چند قدم ہی آگے بڑھتے ہیں کہ پھر اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس قومی یکجہتی اور یکسوئی کی ضرورت ہے ہم اس پر پورا اترتے نظر نہیں آ رہے۔ البتہ مختلف گروہوں کی شکل میں ہم ذاتی خواہشات کے اس قدر اسیر ہوئے کہ قومی وقار اور مفاد تک کو ہی بھول گئے۔
 
وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کو این آر او عملدرآمد کیس میں عدالتی حکم نامہ کی عدم تعمیل پر باقاعدہ سزا ہوئی۔ اس حوالے سے آئینی ماہرین کی مختلف آراء ہیں مگر ہم اس کیس کے مختصر پس منظر کی طرف جائیں تو حکومت کی طرف سے مضحکہ خیز غلطیاں بھی نظر آتی ہیں۔ سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں جب عدلیہ بحالی تحریک زوروں پر تھی تو این آر او نامی صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا تھا۔ جسکے تحت ایک خاص مدت کے دوران لوٹ مار کرنے والوں کو قومی تحفظ دیا گیا۔ یوں قومی مفاہمتی آرڈیننس کی آڑ لے کر کم و بیش 40 سیاستدانوں اور ایک ہزار کے لگ بھگ دیگر افراد نے اپنے جرم معاف کرالیے۔ بیورو کریٹس کی ایک بڑی تعداد سمیت پٹواریوں تک نے اسی قومی مفاہمتی آرڈیننس سے استفادہ کیا۔ 

ڈاکٹر مبشر حسن نے اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور یوں 16دسمبر 2009ء کو سپریم کورٹ نے این آر او کو معطل قرار دیا۔ این آر او معطلی کے بعد حکومت اور عدلیہ کے درمیان ایک طرح کی سرد جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ خیال رہے کہ سولہ دسمبر 2009ء کو سپریم کورٹ نے این آر او سے متعلق اپنے فیصلے میں صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے سے متعلق وفاقی حکومت کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے بارے میں ہدایات جاری کی تھیں۔ تاہم حکومت کا موقف ہے کہ صدر کو آئین کے تحت استثنٰی حاصل ہے، اس لئے اندرون ملک اور بیرون ملک مقدمات نہیں کھولے جاسکتے۔ 

عدالت بار بار کہتی رہی کہ حکومت صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے کے لئے سوئس حکام کو خط لکھے جبکہ حکومت بھی اپنے موقف پر ڈٹی رہی اور کہتی رہی کہ صدر کو اندرون ملک اور بیرون ملک مکمل استثنٰی حاصل ہے۔ یوں حکومت کی جانب سے این آر او عملدرآمد کیس پر عملدرآمد نہ ہونے کے حوالے سے 14 دسمبر 2011ء کو سپریم کورٹ نے صدر، وزیراعظم سمیت متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کئے تھے اور دو ہفتوں میں جواب طلب کیا تھا۔ 

اس سے پہلے وفاقی حکومت کی جانب سے این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی جسے 8 دسمبر 2011ء کو مسترد کر دیا گیا تھا اور عدالت نے اپنے سولہ دسمبر 2009ء کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا اور عدالت نے اپنے فیصلے میں قومی مفاہمتی آرڈیننس سے مستفید ہونے والے تمام افراد کے خلاف مقدمات کو 5ا کتوبر2007ء سے پہلے والی پوزیشن پر بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔ یاد رہے کہ سابق فوجی آمر صدر پرویز مشرف کے دور میں جاری ہونے والے اس آرڈیننس کے تحت صدر آصف علی زرداری سمیت ہزاروں افراد کے خلاف مقدمات ختم کر دیئے گئے تھے۔
 
امر واقعی یہ ہے کہ این آر او عملدرآمد کے حوالے سے عدالت عظمٰی نے حکومت او ر نیب کو 3جنوری 2012ء کی سماعت کے دوران آخری موقع دیا۔ 3 جنوری 2012ء کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم 5 رکنی بنچ نے این آر او عمل درآمد سے متعلقہ کیس کی سماعت کی تو دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر این آر او پر عمل درآمد شروع نہیں ہوا تو خواہ کوئی بھی شخص چاہئے جتنے بھی بڑے عہدے پر فائز ہو اسکے خلاف مناسب کارروائی ہو گی اور یوں ہم نے دیکھا کہ آج سپریم کورٹ کے 7 رکنی بنچ نے جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں وزیراعظم کو سزا سنائی دی۔
 
قبل ازیں سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 16جنوری کو وزیراعظم کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر کے انہیں 19جنوری 2012ء کو خود پیش ہونے کا حکم دیا۔ 17جنوری کو وزیراعظم نے پارلیمان سے خطاب میں اعلان کیا کہ وہ عدالت کا احترام کرتے ہیں۔ ازاں بعد انہوں نے بیرسٹر اعتزاز احسن سے ملاقات کی اور انہیں اپنا وکیل مقرر کر دیا۔ 19 جنوری 2012ء کو وزیر اعظم سید یوسف رضاگیلانی اپنے وکیل اعتزاز احسن کے ہمراہ خود گاڑی ڈرائیو کر کے عدالت پہنچے، 19 جنوری 2012ء کو جب وزیراعظم ازخود پیش ہوئے تو عدالت نے انہیں آئندہ سماعت پر خود پیش ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا اور سماعت 2 فروری 2012ءتک ملتوی کردی۔

یوں جب اس کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو 13 فروری 2012ء کو عدالت عظمٰی نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی پر باقاعدہ فرد جرم عائد کر دی۔ یوں این آر او عملدرآمد کیس مختلف مراحل سے گزرتا ہوا فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوا، اور اس طرح پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کو این آر او مقدمے میں عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے پر توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا۔ 

یوسف رضا گیلانی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلے وزیراعظم ہیں جن کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی کارروائی اس حتمی مرحلے تک پہنچی ہے۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف ایسے وزیراعظم ہیں جنہیں عدالت نے توہین عدالت کے مقدمات میں اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کئے تھے لیکن فرد جرم عائد نہیں کی گئی تھی۔ گرچہ وزیراعظم کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل کے خلاف کوئی بھی مدعی نہیں ہے اور فیئر ٹرائل سے متعلق آرٹیکل دس اے کے آئین کا حصہ بننے کے بعد جن ججز نے وزیراعظم کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا وہ اس مقدمے کی سماعت نہیں کر سکتے۔ لیکن ان کے دلائل وزیراعظم کو بری نہ کرا سکے اور انہیں بالآاخر سزا سنا دی گئی۔
 
وزیراعظم کو سزا کیسے ہوئی؟ اس حوالے سے کیس کا مختصر پس منظر دیکھنے کے بعد ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اب جبکہ وزیراعظم باقاعدہ سزا یافتہ ہو چکے ہیں تو کیا وہ اخلاقی و آئینی لحاظ سے اس عہدے پر مزید قائم رہ سکتے ہیں یا نہیں۔؟ اگرچہ جب فیصلہ سنایا گیا تو کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 63 جی کے تحت یہ سزا سنائی جا رہی ہے اور سید یوسف رضا گیلانی کو عدالت کے برخاست ہونے تک قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔ یوں 32 سیکنڈ کی قید کی سزا کے بعد عدالت نے وزیراعظم کی رہائی کا علیحدہ سے حکم دیا۔ 

یاد رہے کہ عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ وزیراعظم نے جان بوجھ کر عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا اور عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنا عدالت کا تمسخر اڑانے کے مترادف ہے۔ یوں وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی اب باقاعدہ سزا یافتہ وزیراعظم ہیں۔ ایسی صورتحال میں یقیناً بہت سی آئینی پیچیدگیاں بھی سامنے آئیں گی، جن پر آئینی ماہرین تسلسل کے ساتھ اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ بالخصوص آئین کے آرٹیکل 63جی کا بہت تذکرہ کیا جا رہا ہے، جسکے تحت وزیراعظم کو سزا دی گئی اور آئینی ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ مذکورہ آرٹیکل کے تحت سزا یافتہ ہونے کے بعد وزیراعظم پانچ سال کے لئے کسی بھی عوامی عہدہ کے لئے نا اہل ہو سکتے ہیں۔
 
خیال رہے کہ آئین کے 63جی آرٹیکل کے تحت سزا یافتہ شخص پارلیمان کا رکن نہیں رہ سکتا۔ یوں ایک طرف یہ بحث زور پکڑے گی کہ وزیراعظم پارلیمنٹ کے لئے اہل رہے یا نہیں تو دوسری جانب اٹارنی جنرل نے برملا فیصلے کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ وزیراعظم کو نااہل کرنے کا اختیار نہیں رکھتی، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپیکر نے اگر نوٹس نہ لیا تو معاملہ یہی ختم ہو جائے گا۔ 

دریں اثناء حکومت کا کہنا ہے کہ وہ سزا کے خلاف اپیل دائر کریں گے جبکہ وزیراعظم نے کہا کہ جب تک پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل ہے فرائض انجام دیتا رہوں گا۔ عدالت سے مجرم قرار پانے کے بعد وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت بھی کی اور یہ تاثر دیا کہ وہ اب بھی بااختیار وزیراعظم ہیں۔ عدالتی فیصلے پر اپوزیشن جماعت کے سربراہ میاں نواز شریف نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعظم عہدہ چھوڑ دیں۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ معاملے کے آئینی پہلو جو بھی ہیں، ماہرین اس پر اپنی آراء دیئے جا رہے ہیں، مگر اخلاقی طور پر دیکھا جائے تو کیا ایک سزا یافتہ وزیراعظم کو اب مزید اپنے عہدے پر رہنا چاہئے یا نہیں۔؟ ممکن ہے آئینی طور پر انہیں وزیراعظم رہنے کا تحفظ ہو۔ مگر قومیں اپنی اخلاقیات کی بنا پر بھی دنیا میں نام پیدا کرتی ہیں۔ ایک شخص کی کرپشن کو تحفظ دے کر وزیراعظم سیاسی فائدہ تو حاصل کر گئے، مگر آنے والی نسلوں کے لئے اخلاقی سبق نہ دے سکے۔ 
خبر کا کوڈ : 156661
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش