0
Friday 27 Apr 2012 19:12

بنوں جیل کا ٹوٹنا

بنوں جیل کا ٹوٹنا
تحریر: رشید احمد صدیقی
 
15 اپریل کو سنٹرل جیل بنوں پر 150 تا دو سو  افراد نے ہلہ بول دیا، حملہ آوروں کے پاس راکٹ لانچر اور دوسرا بھاری اسلحہ تھا۔ انھوں نے 341 سے زائد قیدیوں کو چھڑایا۔ ان میں جنرل مشرف پر حملہ کیس کا ملزم عدنان رشید بھی شامل تھا۔ فرار ہو نے والے دیگر قیدیوں میں 95 قتل کے مقدمات میں پابند سلاسل تھے۔ 145 عدالتی حوالات کے قیدی تھے۔ 21 عمر قید کی سزا بھگت رہے تھے۔ 30 انسداد منشیات کے قانون کے تحت سزا وار تھے جبکہ 24 سزائے موت کے منتظر تھے۔ کوئی 30 ایسے تھے جو بدنام زمانہ چالیس ایف سی آر کے مجرم تھے۔ 

صوبائی حکومت نے حسب معمول اس کو انٹیلی جنس ناکامی قرار دیا اور کہا کہ جیل کی حفاظت صوبائی حکومت کا کام نہیں۔ اگلے ہی روز آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر سے ایک بیان جاری ہوا جس میں انٹیلی جنس ناکامی کی سختی سے تردید کی گئی۔ بیان میں کہا گیا کہ پانچ جنوری 2012ء کو تمام متعلقہ اداروں کو ایک خط ارسال کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ طالبان کمانڈر عسکری سابق جی دار گروپ خیبر پختونخوا اور کوہاٹ کے علاقے میں بہت بڑا حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ خط میں یہ نشاندہی کی گئی تھی کہ ممکنہ اہداف میں لاچی پولیس سٹیشن، پی اے ایف بیس کوہاٹ، کوہاٹ کینٹ اور بنوں جیل سے دہشت گردوں کو چھڑانا شامل ہے۔ اس غرض کے لیے سخت اقدامات کی سفارشات کی گئی تھی۔ بدقسمتی سے بنوں جیل انتظامیہ نے انتباہ کو نظر انداز کر دیا۔ 

صوبائی حکومت کا موقف حسب معمول عجیب و غریب رہا۔ جیل کی حفاظت کیسے صوبائی حکومت کی ذمہ داری نہیں؟ جب کابینہ میں ایک طاقتور وزیر اس کے محکمہ کے انچارج ہیں۔ محکمہ جیل خانہ جات کا ایک انسپکٹر جنرل ہے، جس کے ماتحت بھاری بھر کم محکمہ ہے۔ زیادہ خطرے کی صورت میں فوج کو طلب کیا جاتا ہے لیکن یہ کام بھی صوبائی حکومت ہی کرتی ہے۔۔۔ یہ کارروائی خودکش حملہ تو نہیں تھا کہ عام شلوار قمیص میں ملبوس نوخیز نوجوان چپکے سے آتا ہے اور اپنے آپ کو اڑاتا ہے۔ اس میں تو چالیس گاڑیاں دو سو مسلح افراد کو لے کر شمالی وزیرستان کی جانب سے آئیں۔ دو گھنٹے آپریشن کیا۔ گیٹ توڑنے کے لیے چونکہ کوئی مزاحمت نہ تھی اس لیے اس میں چند ہی منٹ لگے لیکن ساڑھے تین سو افراد کے نکلنے میں دو گھنٹے تو لگنے ہی تھے۔

اس عرصہ میں پورے ضلع بنوں، کوہاٹ اور لکی مروت و ڈیرہ اسماعیل خان سے پولیس منگوائی جا سکتی تھی۔ حملہ آوروں کے راستوں کی ناکہ بندی کے لیے فوج سے درخواست کی جا سکتی تھی۔ حملہ آوروں کے جیل تک پہنچنے، کارروائی کرنے اور واپس جانے میں کم ازکم چار گھنٹے لگے ہوں گے۔ سنٹرل جیل کی حفاظت پر مامور بہادر پولیس جوانوں میں بھی کوئی ایک آدھ گولی تو چلاتا۔ ایک آدھ فرض کی ادائیگی میں شہادت کا جام پی کر امر ہوجاتا۔ حملہ آوروں کو مکمل فری ہینڈ دینا خیبر پختونخوا کے لوگوں کے لیے عجیب سال سوال ہے۔ 

ایک سال قبل قندہار میں اسی طرح کے حملے میں طالبان نے جیل توڑ کر پانچ سو قیدی چھڑا لیے تھے۔ بنوں جیل واقعہ کے بارے میں طالبان ترجمان نے کہا کہ اس پر ہمارے دو کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اس سے قبل کے واقعات کے بارے میں طالبان نے مالی تخمینے نہیں پیش کیے ہیں۔ 15 اپریل کا آپریشن ایسا تھا کہ آمدورفت اور فائرنگ و طعام کا خرچہ ملایا جائے تو دو لاکھ روپے سے زیادہ نہیں بنتا۔ باقی ایک کروڑ 98لاکھ روپے سرکاری لوگوں کو رشوت کے طور پر ملے ہوں گے کہ حملہ آوروں کا راستہ صاف رکھا جائے۔

اطلاعات میں تو فرار ہونے والوں میں خطرناک لوگوں کی تعداد زیادہ بتائی جاتی ہے لیکن آئی ایس آئی کی اطلاع کے مطابق صرف ایک عدنان رشید ایسا قیدی تھا جو جنرل مشرف حملہ کیس میں ملوث تھا۔ طالبان کے بیان کے مطابق ان کے پاس جیل کے مکمل نقشے اور تصاویر تھیں۔ 

طالبان کے اہم رہنماء حکومت کے پاس جیلوں میں ہیں دوسری جانب طالبان کے پاس بھی اہم شخصیات دو اور تین سال سے یرغمال ہیں۔ حکومت کی جانب سے ان لوگوں کی رہائی کے لیے کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی۔ ان کے جو مطالبات ہیں ان میں اہم طالبان کمانڈروں کی رہائی بھی شامل ہے۔ بنوں جیل ٹوٹ جانے کے بعد یہ افوہیں سننے میں آئیں کہ شائد اب اہم سرکاری شخصیات میں سے بعض کی رہائی عمل میں آجائے۔ اگر یہ سو فی صد افوا ہو تو بھی تشویش کی بات یہ ہے کہ اب سودا بازی کے ایسے طریقوں کی بات ہو رہی ہے۔ 

حکومت نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، معطلیاں بھی ہوئی ہیں لیکن اب تک جو انکوائریاں ہوئی ہیں ان کی روشنی میں کوئی کیسے توقع کرے کہ اس بار خاطرخواہ نتیجہ برآمد ہوگا۔ اس واقعہ کا ایک اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اس طرح کام کرنے والوں کے پاس نت نئے طریقے ہیں۔ حکومت کی جانب سے تو ان کی شکست اور کمر ٹوٹنے کے دعوے بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ ہر بار نئے روپ میں سامنے آتے ہیں اور عوام کی ریاستی رِٹ پر سے اعتماد کم سے کم تر ہوتا جا رہاہے۔ کسی کو کوئی حل نہیں سوجھتا اور ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ دہشت گردی اب کسی نئی روپ میں سامنے آئے گی۔ چنانچہ ہماری تجویز ہے کہ محض بیانات اور سیاسی نمبر بڑھانے کی حد تک پالیسیاں ترتیب دینے کی بجائے سنجیدگی کے ساتھ ثمر آور پالیسی بنائی جائیں اور مؤثر عمل درآمد کے ذریعے قوم کو اس دلدل سے نکالا جائے۔
خبر کا کوڈ : 156823
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش