0
Friday 27 Apr 2012 17:13

انصاف کی امید

انصاف کی امید
ایک قاری کا خط
zain1102002@yahoo.com

 کل جب بعد از ظہر یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ سپریم کورٹ نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کیس میں مجرم قرار دیتے ہوئے سزا (بےشک 30 سیکنڈ ہی کی صحیح) سنا دی، تو عدالتوں پر بداعتمادی کی گرد آلود فضا تھوڑی سے صاف دکھائی دینے لگی۔ کچھ دنوں پہلے بندے نے پارہ چنار کے مسئلے پر کئی مہینوں بلکہ کئی سالوں سے گھر نہ جانے والے بچوں اور جوانوں کے ایک احتجاج میں ایک کتبہ دیکھا تھا، جس پر تحریر تھا کہ چیف تو واپس آگیا مگر جسٹس کہیں دم توڑ گیا۔ 

آج ان بچوں کیلئے شاید یہ خوشخبری ہو کہ بھئی جسٹس بھی واپس آ گیا۔ انصاف کی امید کچھ بندھی ہے، کتنے عرصے سے پارہ چنار کے عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں مگر عدالتوں کے جج صاحبان سے لیکر وزراء، حکومتیں اور انسانی حقوق کے ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور کوئی جرات مند فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ ہزاروں طلبہ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں پہنچنے سے قاصر ہیں، جن کی زندگی کے قیمتی سال ضائع ہو رہے ہیں۔ خدا نہ کرے یہی جوان کل کسی بغاوت پر اتر آئیں، تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔؟
 
کل پھر یہی جج صاحبان ان کے خلاف فیصلے کرنے میں جلدی کریں گے، کل دیر ہے۔ اے صاحبان اقتدار! آج ہی خدا پر توکل کرتے ہوئے ان جوانوں کے مستقبل کو بچانے کے بارے میں جلدی کریں۔ آج سپریم کورٹ نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے تو ایسے قدم اب رکنے نہیں چاہئیں۔ ابھی کتنے ہی اور اہم کیسز ہیں، جن کے فیصلے کیلئے بھی شجاعانہ اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ اب جج صاحبان! آپ نے آگ سے کھیلنے کا سوچ ہی لیا ہے تو ان پھولوں جیسے جوانوں کے مستقبل کے بارے میں بھی انصاف اور شجاعت پر مبنی قدم اٹھائیں اور دوزخ کی آ گ سے بچنے کیلئے الہی فیصلہ کر ڈالئے، بس ذرا ہمت سے کام لینے کی ضرورت ہے، خدا بھی آپ کی مدد کرے گا۔ انشاءاللہ

پاکستان کا کون سا ایسا شہر ہے، جہاں شیعہ نسل کشی نہ کی جا رہی ہو۔؟ کس علاقے میں ٹارگٹ کلنگ نہیں ہو رہی؟ اور بے گناہ شیعہ مسلمانوں کو مارا نہیں جا رہا؟ کتنے بیگناہ شیعیان حیدر کرار اسیر ہیں، جن کے کیسز کی پیروی نہیں کی جا رہی؟۔۔۔ آج سپریم کورٹ ملک کے وزیراعظم کے خلاف فیصلہ سنا سکتی ہے تو ان دہشتگردوں کے خلاف فیصلہ کیوں نہیں سنا سکتی، جو عدالتوں میں صریحاً خود کو بیگناہوں کا قاتل کہتے ہیں اور صد حیف کہ انہیں انہی عدالتوں سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ اگر وزیراعظم کا فیصلہ سیاسی نہیں ہے، اور خالصتاً منصفانہ ہے تو ان کیسز کو بھی حل کریں، جن کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ یقین جانئے اس قسم کے کیسز کا فیصلہ کرنے سے عدالتوں کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہوگی اور عوام کو انصاف کی امید بھی دکھائی دینے لگے گی۔
خبر کا کوڈ : 156825
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش