1
0
Sunday 29 Apr 2012 09:53

شیعہ نسل کشی، بےنام جرم اور گمنام متاثرین

شیعہ نسل کشی، بےنام جرم اور گمنام متاثرین
تحریر: ڈاکٹر محمد تقی

جب لوگوں کی زندگیاں ایذاء رسانی اور ظلم و ستم کی بناء پر خطرات سے دو چار ہوں، تو اس وقت یہ ایک شدید اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو ان کی مدد کی جائے، اس کے لیے محض یہ کافی نہیں کہ آپ بُو کے خلاف کھڑکی کو بند کر لیں۔ (جونتھن گلویر)

لیکن جہاں تک شیعہ نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے، پاکستان میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی کھڑکیوں کو اس حوالے سے بند کیا ہوا ہے۔ میڈیا، مولوی حضرات، بیشتر سیاستدان اور خاص طور پر فوج، خاموشی کی اس سازش کے جرم میں شریک رہی ہے۔ دوسری طرف انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم کارکن کمزور ہیں، خطرے میں رہے ہیں، اور معنویاتی انداز میں اپنی صلاحیتیں صرف کرتے رہے ہیں، تاکہ شیعہ کی جو  منظم بیخ کنی کی جا رہی ہے اس مسئلہ کو پوری شدومد اور بامعنی انداز میں اٹھایا جائے۔ 

جہاں تک عام پاکستانی کا تعلق ہے تو اس کی سرد مہری جونتھن کے اقتباس کے دوسرے حصے سے ملتی جلتی ہے کہ ’’یہ تمام دنیا ایک خوفناک جگہ ہو سکتی ہے اگر اس پہلو سے متعلق کلی سچ ہے جو ہم سے متعلق ہے جس کو فورمین گیرس نے ’’باہمی بےقدری کا معاہدہ قرار دیا ہے۔‘‘ جس میں ہم دوسرے لوگوں کو بازیاب نہ کرانے کے اندیشہ پر چھوڑ دیں اور تایقین رکھیں کہ وہ بھی ہمارے ساتھ ہی کریں گے‘‘۔

اس خاموشی، بےپروائی اور سازباز کی انتہائی وجوہات یہی ہو سکتی ہیں اور اس طرح یہ بےعملی، جرم کرنے کی طرف سے خوف اور اس سیاسی حمایت کو حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے حالیہ قتل عام کے فوری بعد، پاکستان تحریک انصاف جو ایک ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت ہے، کی جانب سے شہر میں ایک بڑی ریلی کا انعقاد کیا گیا تھا۔ تحریک انصاف نے کوئٹہ کی شیعہ کمیونٹی کو مکمل طور پر افسردہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان شیعہ پر ظلم و ستم کی مذمت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ خان اس کے علاوہ ہزارہ شیعہ کی امام بارگاہ نچاری میں معمول کی تعزیت کے لیے بھی گئے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی فخریہ انداز میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ دفاع پاکستان کونسل ایک نجات یافتہ اتحاد ہے جو کہ کالعدم جہادی تنظیموں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کا مجموعہ ہے۔ جس میں سپاہ صحابہ پاکستان بھی ایک نئے نام کے ساتھ  شامل ہے۔ تحریک انصاف کے نائب صدر چوہدری اعجاز دفاع پاکستان کونسل کے جلسوں میں سپاہ صحابہ پاکستان، لشکر جھنگوی اور جماعت الدعوۃ کے رہنماؤں کے ساتھ کندھا جوڑے نظر آتے ہیں۔

اسی طرح عمران خان، مشرف کے ساتھی، جنرل (ر) علی جان اورکزئی، جس کو کرم ایجنسی میں شیعہ اپنے خلاف ہونے والے ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کا تخلیق کار تصور کرتے ہیں، اس کی واشگاف انداز میں تعریف کرتے ہیں۔ تحریک انصاف جہادیوں کے ساتھ رشتوں کو مضبوط کر رہی ہے اور کمزور انداز میں ان مظالم کی مذمت کر رہی ہے، یہ سب کچھ آئندہ انتخابات میں بھارت مخالف جہادی گروہوں سے انتخابی فوائد حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے، جو کہ اب اس صوبہ میں کنگ میکر کا روپ اختیار کر چکے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان مسلم لیگ نواز بھی پنجاب کے عسکری گروہوں کو خاموش حمایت فراہم کر کے مساوی متنازع اور گندا کردار ادا کر رہی ہے۔ نواز لیگ کے کیس میں یہ نظریاتی تبدیلی جو اس کی قیادت میں وقوع پذیر ہوئی ہے، یہ اس کے سعودی آقاؤں کے دباؤ یا ان کو خوش کرنے کی پالیسی کی وجہ سے ہے اور پنجاب میں جہادی قوتوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو تسلیم کرنے کی وجہ سے ہے، یا پھر خوف کے عنصر نے دل بدلنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، عسکریت پسند گروہوں اور ان کے رہنماؤں کے خلاف کارروائی نہ کرنا درحقیقت سپاہ صحابہ کے دہشت گرد لیڈروں کی قبروں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ سپاہ صحابہ/ لشکر جھنگوی کا دہشت گرد ریاض بسرا میاں نواز شریف کے خلاف جب وہ وزیراعظم تھے جنوری 1999ء میں اس وقت وہ بم حملہ کا ماسٹر مائنڈ تھا، اور دونوں کے درمیان ایک بازو جتنی دوری رہ گئی تھی۔ اوون بینیٹ جونز کی کتاب کی سرگزشت ’’ریاض بسرا نے پولیس کی صلاحیتوں کی اس وقت توہین کا اظہار کیا جب وہ میاں نواز شریف کی سیاسی سرجریوں ’’کھلی کچہری‘‘ میں بالکل قریب آ گیا تھا۔ وہ درخواست گزاروں کی لائن میں گھس گیا، جو وزیراعظم کو دیکھنا چاہتے تھے، بسرا نواز شریف کے بالکل عقب میں کھڑا ہو گیا اور اس نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ وہ اس موقع کی تصویر لے، تین دن بعد وزیراعظم ہاؤس کے سٹاف کو اس فوٹو گراف کا پرنٹ موصول ہوا۔ شریف اور بسرا کے چہرے محض چند فٹ کے فاصلے پر تھے اس تصویر کی تشہیر کی گئی جس کے نیچے لکھا گیا تھا کہ یہ اتنا آسان کام ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت، پنجاب ہائیکورٹ کے حکم پر بسرا کا جانشین ملک اسحاق جو اس وقت زیرحراست تھا اس کے خاندان کو ماہانہ وظیفہ دیتی رہی، یہ بھی ایک دلچسپ امر ہے کہ ملک اسحاق قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سالوں تک، بشمول دفاع پاکستان کی ریلیوں میں تحقیر کرتا رہا ہے۔

خوف جو میڈیا، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور سیاستدانوں کے ذہنوں میں بتدریج بیٹھ چکا ہے، تاہم یہ محض پنجابی طالبان جیسا کہ سپاہ صحابہ پاکستان، لشکر جھنگوی اور لشکر طیبہ وغیرہ کی بربریت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس بڑی آگہی سے ہے جو کہ خاص طور پر ہماری سیاسی طبقہ میں پائی جاتی ہے کہ ان گروہوں کو پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے موسٹ فیورٹ جہادی گروہوں کا اسٹیٹس دیا گیا ہے۔ جس طرح جلال الدین حقانی نیٹ ورک کو مغربی سرحدی علاقے میں دیا گیا ہے۔ بھارت مخالف یہ پنجابی جہادی گروہ ڈیپ اسٹیٹ کو چلانے والوں کی طرف سے بھرپور حمایت اور خاص سلوک حاصل کرتے ہیں جو کہ مکمل تحفظ اور پولیس کی حراست سے بازیابی اور اپنے آپریشن سرانجام دینے کی مکمل آزادی پر مبنی ہیں۔

ایران کا تعلق اور بیکار کی خیالی فرقہ وارانہ جنگ کا بار بار تذکرہ کرنا، اصل موضوع سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہے، اور یہ اصل موضوع پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ اور اس کے جہادی نیابت کاروں کا ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کو حتمی شکل دینے کا کا کام کرتے ہیں۔ اس وابستگی کا بیج قیام پاکستان کے وقت ہی بو دیا گیا تھا۔ اس تعلق کی افزائش میں بعد میں آنے والی مختلف فوجی حکومتیں اپنا اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ اسلام کی بنیاد پر جو قومی نظریہ یحییٰ خان کے عہد میں اختیار کیا گیا اور بعد میں ضیاءالحق کی اسلامائزیشن کی پالیسی میں اس کو عروج ملا۔ جنرل پرویز مشرف کی دوہری پالیسی کہ جہادیوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اور مغرب سے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا معاوضہ بھی وصول کیا جائے اور آخر کار جنرل کیانی کی بھارت پر مبنی پالیسی نے مذہبی انتہا پسندوں کو سرپرستی فراہم کیے رکھی جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔

نوبل انعام یافتہ الیگزینڈر سولزینٹیسن نے لکھا تھا کہ ’’شیکسپیئر کے بدکار کے تصورات اور روحانی طاقت درجنوں لاشوں کے سامنے کم نظر آتے ہیں کیونکہ ان کا کوئی نظریہ نہیں تھا‘‘۔ پاکستان کے اعلیٰ عسکری لیڈروں نے شعوری طور پر نظریہ اور خاص طور پر مذہبی نظریہ کو اختیار کیا تاکہ اپنے داخلی اور خارجی پالیسی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکے اور اس راستے پر چلتے ہوئے ایک ایسی انتہا پسند فکر اور تنظیموں کو مضبوط کیا گیا جن کی پیاس شیعہ افراد کے خون سے بجھنی تھی۔ ارون دتی رائے کی تشریح کے مطابق پاکستان شاید فرقہ وارانہ نسل کشی اور کسی فرقہ کو ختم کرنے کو اپنے لیے براہ راست خطرہ تصور کرتے ہیں۔ یہ اس بات سے غافل ہیں کہ تکفیر اور نازی ازم پر مبنی انتہا پسند نظریہ کسی ایک متاثر گروپ پر نہیں رکھتا یا اپنے آپ نہیں رکتا۔ عوام کی بے پرواہی، سیاسی عزم کا فقدان اور ریاست کا قصور واروں کو تحفظ فراہم کرنا، ایماندار مشاہدہ اور رپورٹنگ بےمثال اہمیت اور فوری ضرورت اختیار کر گیا ہے۔ اگر گیس چیمبرز میں پھینکے جانے والے یہودیوں کو جرمن اور پولینڈ کی حیثیت سے شناخت کر لیا جاتا تو دنیا کا ضمیر شاید کبھی بھی نہ جاگتا اور اسی طرح یہ بھی ناگزیر ہے کہ شیعہ متاثرین کی شناخت کی جائے اور ان کے دست نام لیے جائیں اور اسی طرح یہ بھی اہم ہے کہ قصور واروں کے نام بتائے جائیں جب ممکن ہو جب ذرائع ابلاغ ان مظالم کے بارے میں غلط اور گمراہ کن معلومات فراہم کرے تو یہ انسانی حقوق کے علمبرداروں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کو رپورٹ کریں کہ نہ تو یہ جرم بے نام ہے اور نہ ہی متاثرین بے چہرہ ہیں۔ یہ شیعہ کمیونٹی کی نسل کشی ہے ان کو وہ آخری طبقہ ہونا چاہیئے جو کھڑکیوں کو بند کرے۔

پروفیسر ہینری ہٹن باش کہتے کہ "نسل کشی اس مظہر کا نام ہے جس میں ایک گروپ کے وجود کو معدوم ہونے کا خطرہ درپیش ہو جاتا ہے"۔ جب 24 اگست 1941ء میں ونسٹن چرچل نے اپنی ایک تقریر میں سویت یونین کے مقبوضہ علاقوں کو نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں اور بالشویک یہودی لوگوں کے لیے قتل گاہ قرار دیا تھا۔ اس لحاظ اس اس کارنامے کے 'انتہائی بہیمانہ بربریت، ظلم وجبر اور جنونی قصائیت" قرار دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس قدر ظلم و بربریت پر بات کرنے والے فصیح و بلیغ چرچل اس قتل عام کو کوئی خاص نام دینے میں ناکام رہا تھا۔ جبکہ ان کو آخرکار کہنا پڑا" یہ ایسا جرم ہے جس کو کوئی نام نہیں دیا جا سکتا"۔ اس بات کو ایک سال ہونے کو آیا ہے جب ایک یہودی وکیل پروفیسر رافائیل لیمکن نے اس انسانیت کے خلاف جرم کو نسل کشی قرار دے دیا تھا جبکہ اس سے پہلے چرچل اسی بات کو پہلے گول مول کر چکے تھے۔


پاکستان میں شیعہ اور یہاں دوسرے کمزور گروپ اسی وقت سے سخت دباو میں ہیں جب سے سوویت یونین کے خلاف پاک  سعودی عرب اور امریکا کے اشتراک سے جہاد کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ برس ہا برس گزرنے کے بعد اس بہیمانہ جرم، گناہ اور ظلم و ستم نے اس حد تک پاکستانی معاشرے کو اپنے غلبے میں لے لیا ہوا ہے کہ اب پاکستان اس برائی کی مکمل طور پر لپیٹ میں آ چکا ہے۔ یہاں تک کہ آج وہ وقت آ گیا جب کوئٹہ میں شیعوں کا قتل عام کیا گیا، اس کے علاوہ کرم، گلگت بلتستان، کراچی اور پشاور میں شیعوں کی گردنیں کاٹی گئیں لیکن اس جرم کو کچھ نام نہیں دیا جا سکا ہے اور یہ میڈیا کا اصول رہا ہے کہ ایک مظلوم کمیونٹی پر ہونے والے ظلم و ستم اور قتل عام کو کچھ خاص لفاظی کے ساتھ چھپا کر بات کو آگے تک پہنچایا جاتا ہے۔

جرم کو باقاعدہ ایک شناخت نہ دینا ہی یہاں صرف ایک چیز نہیں اور میڈیا کے گروہوں نے باقاعدہ ایک نظام اپنایا ہوا ہے جس کے تحت مظلوم کی شناخت پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے، شاخت جس کا تعلق چاہے مذہب سے ہو، کسی لسانی جماعت سے ہو یا اس کا تعلق کسی دوسری شناخت سے ہو۔ ٹوئٹر پر حال ہی میں ایک نجی چینل کے معروف اینکر کے ساتھ ایک نوجوان ہزارہ لڑکے کے ساتھ چیٹ کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ "ہزارہ لوگوں کو شیعہ کہنے سے گریز کرنا چاہیئے، وہ پاکستانی مسلمان ہیں اور ان کا خون بھی اتنا ہی محترم ہے جتنا کسی دوسرے پاکستانی کا"۔ یہ بات بظاہر بڑی رحمدل شفیق دکھائی دے رہے ہیں اس کے علاوہ جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اس جرم کو بےنام قرار دینا اور مظلوموں کو کوئی شناخت نہ دینا یہ بھی رپورٹنگ کا ایک خاص حصہ ہے۔

یہاں آگے بڑھنے سے پہلے اس بات پر غور کرنا اہم ہے کہ اس میں کوئی شک کی اب کوئی گنجائش نہیں بچتی کہ کوئٹہ میں حال ہی ہونے والے قتل عام کو شیعوں کا قتل مانا گیا ہے جو لسانی طور پر ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے نام کچھ اس طرح سے ہیں، مسز بخت جمال، ظفر، عالم خان، غلام سخی، حفیظ اللہ، نذیرحسین، مبارک شاہ 29 مارچ 2012 کو سپنی روڈ پر یہ ہونے والا یہ حملہ تھا، اعجاز حسین اور علی اصغر جو 2 اپریل 2012 کو کیرانی روڈ حملے میں اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے جبکہ قربان علی، محمد ضیا، حمد حسین، شبیر، نادر علی، اور سعید احمد جو 9 اپریل 2012 کو پرنس روڈ پر حملے میں شہید کر دیئے گئے تھے اسی طرح محمد کو ستار روڈ پر اور مسز فاطمہ کو کاسی روڈ پر 13 اپریل کو قتل کر دیا گیا ایسے ہی عبداللہ، جمعہ علی، محمد علی، سید اصغر شاہ اور عید محمد کو 14 اپریل کو بریوری روڈ پر مار دیا گیا جبکہ 16 اپریل کو سلیمان علی کو کواری روڈ ہر قتل کر دیا گیا۔ لیکن  فہرست ابھی مکمل نہیں اور نہ ہی اس میں زخمیوں کا تذکرہ موجود ہے۔

یہی ٹوئٹر پر بات کرنے والے معزز اینکر صاحب ہزارہ لوگوں کے قتل کی ذمہ داری کو پاکستان ایران گیس پائپ لائن کے دشمنوں کے سر تھوپ دیتے ہیں۔ اس صورت میں نہ تو کوئی جرم کی پہچان ہی کر سکتا ہے اور نہ مظلوم کی شناخت ہو سکتی ہے اور نہ گنہگار کو جان سکتا ہے۔ اس لحاظ سے اس جرم کو روکنے کے لیے اگر کوئی روک کرنا بھی چاہے تو بہت تھوڑا کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے پروفیسر راجر سمتھ نے نسل کشی کی رد میں جو لکھا ہے تو دانشور بھی اس کو درست قرار دیتے ہیں، جو میڈیا اس حوالے سے رپورٹنگ کرتے ہوئے کچھ پس و پیش سے کام لے رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ "جہاں تک میڈیا کے پس و پیش کے حوالے دانشوروں کے نسل کشی سے انکار کے ایشو پر کردار کا تعلق ہے تو وہ یہ ہے کہ فیصلہ سازی کے لیے اس معاملے میں کچھ حقائق کو جھٹلانے کے مترادف بات کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے مطابق قاتل حقیقی انداز میں قاتل نہیں ہوتا اور مظلوم بھی درحقیقت قتل نہیں ہوتا ہے، بڑے پیمانے پر کیے گئے قتل عام کو مقابلے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے اور نہ یہ کسی مظہر کا عکاس ہی ہوتا ہے لیکن اس کے بعد جو بات اہم اور مناسب ہوتی ہے وہ یہی ہوتی ہے کہ اس سے درگزر کی جائے اور اس جانب سے توجہ ہٹا لی جائے کیونکہ اگر اس طرح کے معاملے کو ہوا دی جائے تو ایسی نفسیاتی پیچیدگی جنم لیتی ہے جو بلامقابلہ کسی نئی نسل کشی کو جنم دیتی ہے۔

میڈیا مظلوموں کو انکی پہچان کیوں نہیں دے رہا ہے ؟ اس کے علاوہ وہ اصل مجرموں کے رخ سے پردہ کیوں نہیں اٹھاتا ہے ؟ یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے آئے تھے۔ ان سوالوں کا جواب کوئی سادہ نہیں کیوں کہ اس کی جڑیں ان صحافیوں میں پیوست ہیں جو اس معاملے میں بہت کم جان پہچان رکھتے ہیں، اس کے علاوہ وہ ان مجرموں سے خوفزدہ بھی ہیں، یا پھر وہ بظاہر وہ اس معاملے میں بچنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم بہت سارے اہم شخص بھی یہاں موجود ہوتے ہیں جو واقعی نہیں جانتے کہ اصل حقائق کیا ہیں اور اس سارے معاملے کے پیچھے اصل مجرم کون ہیں۔ جبکہ ایک ایڈیٹر ہیں جو اپنے ایڈیٹوریل میں بڑی عمدگی سے متوازن لہجہ اپناتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ کوئٹہ میں قتل ہونے والے افراد 'ہزارہ' ہیں، جبکہ یہ اصطلاح جغرافیائی لحاظ سے افغانستان میں ایک مقام کے لیے استعمال کی جاتی ہے نہ کہ کسی خاص قوم کے لوگوں کے لیے۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت کہ پاکستانی زیادہ تر نہ ہونے کی حد تک بہت کم باہمی عمل میں کوئٹہ کے ہزارہ لوگوں کے ساتھ مشغول ہوتے ہیں۔ بلکہ ان ہزارہ لوگوں کو وہ کچھ پرتجسس انداز میں ہی لیتے ہیں۔ تاہم اینکر کے سابقہ بیان کو پرآشوب حیثیت میں دیکھیں تو حالات کے اس تناظر میں اس کی بات سچ دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی ریاست ایسے معاملات کو اپنی پیدائش سے ہی اپنائے ہوئے زندہ و جاوید بنا رہی ہے۔

دراصل حقیقت یہ ہے کہ یہ حالات اور ایسی صورتحال صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی منسلک نہیں۔ اسلامی قانون سازی میں مسلک کے اندر مسلک بنے ہوئے ہیں جن کے اندر خود بھی کئی ٹھوس بنیادوں پر اصولی اختلافات موجود ہیں۔ اس لحاظ سے ملک میں موجود ان لوگوں کے گروپوں کی حفاظت کے لیے ایسے معیار قائم کیے جاتے ہیں جو یا تو تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں یا مالی لحاظ سے بہت کم وسائل کے حامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کا آغاز ہو جانا اور اسکے علاوہ جنرل ضیا الحق میں ان مذہبی عناصر کا عسکریت پسندی کی جانب رخ کر لینا بھی واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں نے اس مظہر کو ریاستی سپورٹ دلانے کی کوشش کی تھی۔ اس طرح مذہب کو ریاستی پالیسی کا حصہ بنا دیا گیا۔ اور یوں مذہبی تشریحات اور توضیحات ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں کر رہا ہے اور آخر کار مسلح ہو کر مذہب کو عملی شکل میں رائج کرنے کی بھی ابتدا ہو گئی۔ اگر ملک میں مذہب کے ماڈل کو دیکھیں تو یہی رائج دکھائی دیتا ہے۔ کچھ تو شیعہ حضرات اس معاملے میں ایک طرف ہوتے ہیں تو دوسری طرف وہابی عسکریت پسندی بت بھی معاشرے میں جنم لے لیا اور یہ سب حالات پاکستانی سلامتی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آ گئے۔ جب پاکستان نے اس جہادی رنگ کو اپنا لیا تو کوئی سیاسی جماعت اس کے دور رس نتائج سے واقف نہیں ہو پائی تھی۔ لیکن عملی طور پر کچھ غیر ریاستی عناصر نے تشدد کو اپنا طرہ امتیاز بنا لیا۔ اس طرح یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ کون اچھا مسلمان ہے اور اس کے لیے اسے کیا کرنا چاہیے ہے ۔

اس سے پہلے کہ ان جمہوریت مخالف عناصر کو جلا پخشنے والے میڈیا کے کردار کو زیر بحث لایا جائے، اس کے علاوہ کارکنوں اور ان سیاستدانوں پر بھی بات کرنا ضروری ہے جو نسل کشی سے انکار کرنے کو کئی دوسرے انداز میں بیان میں لاتے ہیں۔ فرقہ وارانہ جنگ جوئی جیسی اصطلاحات کو بھی وہ استعمال میں لاتے ہیں۔ جب روانڈا میں نسل کشی کے بارے میں فرانس کے سابق صدر فرینکس مٹرنڈ سے پوچھا گیا تو اس کے رد عمل میں انہوں نے کہا کہ "نسل کشی یا نسل کشیوں کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے"۔ اصل میں مٹرنڈ ماحصل میں فرانس کے زمینی حقائق کو جھٹلا رہے تھے کیونکہ وہاں فرانس میں "دوہری نسل کشی تھیوری" کے لحاظ سے وہاں اس کے لیے سپورٹ موجود تھی۔ لہٰذا کہا گیا کہ تشدد باہمی عمل کا نتیجہ تھا۔
خبر کا کوڈ : 157206
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
شاندار آرٹیکل لکھا ہے آپ نے انتہایی محقیقانہ اور جامع آرٹیکل ہے
اس موضوع کے مزید پہلو کو اجاگر کرنا ضروری ہے خاص کر فرینڈلی دہشت گرد
اور ان کی سرپرستی
ہماری پیشکش