0
Tuesday 1 May 2012 07:53

امریکہ کے ساتھ تعلقات میں احتیاط لازمی ہے

امریکہ کے ساتھ تعلقات میں احتیاط لازمی ہے
حکومت پاکستان کے مسلسل احتجاج اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی متفقہ قرارداد کی پروا نہ کرتے ہوئے امریکہ نے اتوار کو شمالی وزیرستان کے اہم مرکز میران شاہ بازار میں ایک اور ڈرون حملہ کیا اور ایک گھر کو دو میزائلوں سے نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں گھر مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور چار افراد جاں بحق ہو گئے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ یہ مہمند ایجنسی میں سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی جنگی ہیلی کاپٹروں کی اشتعال انگیز کارروائی، جس میں 24 پاکستانی جوان شہید ہو گئے تھے، کے پس منظر میں پارلیمنٹ کی ان سفارشات کے بعد پہلا حملہ ہے، جن کا بنیادی نکتہ ہی یہ تھا کہ امریکہ پاکستان کی علاقائی خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بند کرے، اگرچہ ان سفارشات پر ابھی تک عملدرآمد شروع نہیں ہوا، مگر امریکی انتظامیہ زبانی طور پر اعلان کرتی رہی ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ کی خواہشات کا احترام کرتی ہے۔
 
سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد پاکستان نے افغانستان میں نیٹو فورسز کی سپلائی لائن روک دی تھی اور عدم تعاون کے بعض دوسرے اقدامات کا بھی اعلان کیا تھا، امریکہ نے اپنے مفاد میں تعلقات بحال کرنے کیلئے مختلف ذرائع استعمال کرنا شروع کئے، جسکے نتیجے میں دونوں ملکوں کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں، توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ باہمی مذاکرات سے پاک امریکہ تعلقات میں تناؤ کم ہو گا، خود پاکستان میں امریکہ کے سفیر نے بھی دو روز قبل تعلقات کی بحالی کی جانب مثبت پیشرفت کا اشارہ دیا تھا، مگر اتوار کو پیش آنے والے افسوسناک واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس حوالے سے امریکہ کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

افغانستان میں سرگرم امریکہ و نیٹو فورسز کی جانب سے 2004ء کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں تین سو سے زائد حملے ہو چکے ہیں، جن میں ہزاروں افراد مارے گئے، یہ صورتحال دہشتگردی کیخلاف جنگ میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں سے عملی تعاون کرنے اور کم و بیش چالیس ہزار شہریوں اور فوجیوں کی قربانی دینے والے ملک کی حیثیت سے پاکستان کیلئے ناقابل قبول ہے۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد توقع تھی کہ پاکستان کے 18 کروڑ عوام کے غم و غصے اور حکومتی اور پارلیمانی سطح پر شدید ردعمل کو دیکھتے ہوئے امریکہ اپنی حکمت عملی تبدیل کریگا اور جس طرح افغانستان میں ہونیوالے ایک واقعہ کے بعد کابل کی حکومت سے فوراً معافی مانگ لی تھی، پاکستان سے بھی معافی مانگے گا اور آئندہ اس قسم کی کارروائیاں موثر طور پر روکنے کا یقین دلائیگا، مگر اس نے نہ صرف معافی مانگنے بلکہ رسمی معذرت کرنے سے بھی انکار کر دیا، بلکہ پاکستان کی سرزمین کے اندر اپنی جارحیت کا دفاع کرنے لگا اس نے یہ عذرلنگ پیش کیا کہ پہل پاکستانی فوج نے کی تھی، جسکے جواب میں امریکی و نیٹو فورسز نے کارروائی کی۔ 

اس نے اس حوالے سے ان واقعاتی شہادتوں کو بھی درخوراعتنا نہ سمجھا جن سے ثابت ہوتا تھا کہ امریکی ہیلی کاپٹروں نے جان بوجھ کر حملہ کیا اور کارروائی اس وقت بھی نہ روکی، جب انہیں واضح انداز میں بتایا گیا کہ وہ پاک فوج کی چوکیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، پاکستان کے عوام پارلیمنٹ اور حکومت نے بجا طور پر اس اندوہناک سانحے اور مسلسل ڈرونز حملوں کے ذریعے پاکستان کی فضائی و زمینی حدود کی خلاف ورزی اور علاقائی خود مختاری کی پامالی کو مزید برداشت نہ کرنے کا اعلان کیا اور متنبہ کیا کہ آئندہ اس طرح کی کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جائیگی، مگر امریکی انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی یہ درست ہے کہ ڈرونز حملوں کا مقصد جن لوگوں کو ٹارگٹ بنانا ہے وہ خود پاکستانی فورسز کے نشانے پر بھی ہیں، لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ امریکی حملوں سے گناہگار کم اور بے گناہ لوگ زیادہ مارے جا رہے ہیں، اسلئے مقامی آبادی ان حملوں کو شدت پسندوں سے زیادہ اپنے خلاف سمجھتی ہے۔ 

ڈرونز آپریشن اگر انٹیلی جنس کی بنیاد پر صرف دہشتگردوں اور ان کے ٹھکانوں تک محدود ہوتا اور اس کی پیشگی اطلاع پاکستانی فورسز کو دی جاتی تو شاید اس کے خلاف اتنا شدید ردعمل نہ ہوتا، مگر چونکہ بے گناہ قبائلی زیادہ مارے جاتے ہیں، اس لئے قبائلیوں کے غیض و غصب کے شعلے پاکستان اور امریکہ کے خلاف بھڑک اٹھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ پاکستانی حکام کی منظوری سے ہو رہا ہے اس لئے ہر ڈرون حملے کے بعد پاکستان کے حساس علاقوں میں خودکش حملے شروع کر دیئے جاتے ہیں، اس طرح شدت پسندوں پر قابو پانا تو دور کی بات ہے عام قبائلیوں کا بھی انتقام کا جذبہ نت نئی صورتوں میں ظاہر ہو رہا ہے۔
 
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو فورسز نے قبائلی علاقوں میں ناروا کارروائیاں کر کے دہشتگردی کا دائرہ پاکستان کے اندر تک پہنچا دیا، اس سے افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کو تو کوئی مدد ملی یا نہیں ملی، پاکستان پردباؤ بڑھ گیا۔ ایک طرف خون آشام دہشتگردی نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، بے گناہ شہریوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں اور 70 ارب ڈالر سے زیادہ مالی نقصان ہو چکا ہے، تو دوسری طرف امریکہ ہماری مشکلات کم کرنے کی بجائے ان میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ نیٹو فورسز کو سازوسامان پہنچانے والے کنٹینروں اور ٹینکروں نے ہماری اربوں روپے کی سڑکیں ادھیڑ کر رکھ دی ہیں۔ امریکہ نے اس کے ازالے کے لئے ایک پیسہ بھی نہیں دیا۔ الٹا اس نے بھارت کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی دے کر توانائی کے شعبے میں اس کی بالادستی قائم کر دی، جبکہ پاکستان توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے اور اس کی معیشت ڈوب رہی ہے۔ 

اب جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افغانستان سے واپسی کا وقت قریب آرہا ہے تو انہوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے پاکستان پر دباؤ مزید بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ اس کا آغاز سانحہ ایبٹ آباد سے ہوا، پاکستان پر الزام لگایا گیا کہ اس نے یہاں اسامہ بن لادن کو چھپا رکھا تھا، حالانکہ اس حوالے سے کئی طرح کی باتیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ علاقے کے لوگوں کے بیانات کے حوالے سے ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ امریکی اسامہ کو افغانستان سے زندہ پکڑ کر لائے اور ایبٹ آباد میں مار دیا، تاکہ پاکستان کی ساکھ خراب کی جا سکے۔
 
اب امریکی انٹیلی جنس کے حکام دعویٰ کر رہے ہیں کہ القاعدہ کے نئے قائد ایمن الظواہری بھی پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں اور حکومت ان کی حفاظت کر رہی ہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ الظواہری کچھ عرصہ کراچی میں بھی مقیم رہے، جو پاکستانی حکام کی مدد کے بغیرممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکی حکام کھلے بندوں کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اجازت دے یا نہ دے، امریکہ ڈرونز حملے نہیں روکے گا۔ یہ دعوے اس امکان کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے بارے میں امریکہ کے پس پردہ عزائم کچھ اچھے نہیں۔ وہ اپنے مقاصد پورے کرنے کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے، اسی لئے وہ مختلف حیلے بہانوں سے پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی فیصلہ ساز قوتوں کو کسی دباؤ میں آئے بغیر ملک کی سلامتی اور علاقائی خودمختاری کے تحفظ کی ذمہ داریاں پورے عزم و حوصلے سے نبھانی ہوں گی۔ امریکہ کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ پاکستان کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری پارلیمنٹ کے فیصلوں کو نیت نیتی سے قبول کرے، یہ اس کے اپنے مفاد میں ہو گا۔ 
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 157965
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش