0
Tuesday 1 May 2012 18:39

نیٹو کی متوقع شکاگو کانفرنس اور پاکستان

نیٹو کی متوقع شکاگو کانفرنس اور پاکستان
 تحریر: جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
 

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر 1949ء میں NATO وجود میں آئی۔ اس وقت سے آج تک اِن کی چوبیس چوٹی کی کانفرنسیں ہو چکی ہیں۔ آخری چوٹی کی کانفرنس نومبر 2010ء میں ہوئی تھی اور اب پچیسویں کانفرنس 21-20 مئی کو امریکہ کے شہر شکاگو میں ہونے والی ہے۔ واشنگٹن سے باہر کسی امریکی شہر میں یہ پہلی نیٹو کانفرنس ہو گی۔ امریکہ سمیت اُنچاس ممالک کے قائدین دس سالوں تک افغانستان کی سنگلاخ پہاڑیوں سے بے سود ٹکریں مارنے کے بعد جب 20 مئی کو شکاگو میں نیٹو کانفرنس کے میز پر بیٹھیں گے تو ظاہر ہے اُن کے ذہنوں پر افغانی بھوت ہی سوار ہو گا اور سب سے زیادہ متفکر کانفرنس کی کرسی صدارت پر بیٹھا امریکی صدر اوباما ہو گا، جس کی گھبراہٹ کے پسینوں کی وجوہات کچھ یوں ہوں گی۔
 
(1) امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑنے کے باوجود افغان جنگ میں فتح کے دُور دُور تک نشانات نہیں بلکہ حالات دن بدن گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔ 2004ء کے سال میں اگر صرف 60 امریکی فوجی افغانستان میں ہلاک ہوئے تو 2005ء میں 131، 2006ء میں 191، 2007ء میں 232، 2008ء میں 295، 2009ء میں 521 اور 2010ء میں 711 نے بے سود جانیں قربان کیں۔ 2011ء میں نیٹو کی کل اموات 566 تھیں اور اب 2012ء کے پہلے تین ماہ میں 131 اتحادی سپاہی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس سے امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں، چونکہ یہ ایک بہت بڑا جانی نقصان ہے۔
 
(2) امریکی صدارتی انتخابات بالکل قریب ہیں اور اسی سال میں ہونے والے ہیں، جبکہ امریکی عوام کی بھاری اکثریت افغان جنگ کے خلاف ہے، لیکن ہندوستان اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ امریکہ مسلمانوں کی شہ رگ سے انگوٹھا نہ ہٹائے، تاکہ پاکستان اور ایران اتنے دباؤ میں رہیں کہ اُن کو کشمیریوں اور فلسطینیوں کی آزادی کی بات بھول جائے۔
 
(3) طالبان کے ساتھ قطر میں ہونے والے مذاکرات بھی بے نتیجہ رہے، چونکہ طالبان کرزئی حکومت کو ماننے کیلئے تیار نہیں اور ساتھ ہی پہلے اپنے قیدیوں کی رہائی کیلئے مطالبہ کر رہے ہیں، جو امریکی نہیں مان رہے۔
 
(4) طالبان کے افغانستان میں خودکش حملے بھی زوروں پر ہیں۔ 15 اپریل کا خودکش حملہ سب سے محفوظ افغانستان کے سب سے محفوظ شہر کابل میں سفارت خانوں اور اسمبلی کی عمارت پر ہوا۔ امریکہ کیلئے حیرانگی کی بات یہ ہے کہ افغان فوج کے سپاہی بھی امریکہ کے خلاف اس جنگ میں شریک ہیں اور پچھلے تین ماہ میں افغان فوجی 16 نیٹو کے سپاہیوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔
 
(5) اسٹریلین وزیراعظم Jullia Gillard کہتی ہیں کہ وہ اگلے سال کے وسط سے اپنے 1550 فوجیوں کو لڑاکا رول سے بدل کر صرف اتحادیوں کے سپورٹ رول میں لا رہی ہیں۔ فرانس کے متوقع نئے صدر فرانکوس ہالینڈو کہتے ہیں کہ 6 مئی کے انتخابات میں اگر وہ فرانس کے صدر منتخب ہو گئے تو اپنے3550 فوجیوں کو اس سال کے آخر تک ہی افغانستان سے واپس بلا لیں گے۔ یہ امریکہ کیلئے پریشان کن ہے۔
 
(6) افغان فوج کی تعداد کو اگر اخراجات کم کرنے کیلئے، امریکی منصوبے کے مطابق، 352000 سے کم کر کے 230000 کر دیا گیا اور اس سے یہ توقع کی گئی ہے کہ 2014ء کے بعد یہ فوج افغانستان کا نظم و نسق سنبھال سکے گی تو یہ احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے، چونکہ یہ فوج نظریاتی ہے نہ پیشہ ور، اس لئے اس میں Will to fight کا فقدان ہے۔ اس کے علاوہ اس میں 80 فیصدی سے زیادہ غیر پشتون ہیں، جس کی وجہ سے یہ فوج صحیح طرح نمائندہ بھی نہیں۔ اس کے علاوہ اس پر اٹھنے والا سالانہ خرچ جو تقریباً 7 ارب ڈالرز ہو گا، نیٹو ممالک دینے کو تیار نہیں چونکہ اُن کی اپنی معاشی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔
 
(7) امریکہ کی اب تک کی دہشتگردی کے خلاف پالیسی نے دہشتگردی کو کم کرنے کی بجائے اس کو فروغ دیا ہے۔ پاکستان سمیت خطے کے ممالک کو مطمئن کرنے کی بجائے ناراض کیا گیا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد، دتہ خیل، سلالہ اور ڈرون حملوں نے امریکی حکومت کے خلاف زبردست نفرت کے جذبات کو جنم دیا ہے۔ افغانیوں کو قتل کر کے اُن کے جسدِ خاکی کی بے حرمتی کی گئی۔ عورتوں کی عزت لوٹی اور قتل کیا۔ بگرام ہوائی اڈے پر قرآنِ کریم کے نسخوں کو نذر آتش کیا گیا۔ پاکستان کی پیٹھ میں بار بار چھڑا گھونپا گیا اور اب بھی بدقسمتی سے امریکہ مخلص نہیں۔ جس سے پاکستان، افغانستان بلکہ ساری مسلم دنیا میں امریکہ کے خلاف حقارت کے جذبات ہیں، جو پاک امریکہ تعلقات کی بہتری کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔
 
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان میں باہمی اعتماد کا زبردست فقدان ہے۔ اس کی بڑی وجہ امریکی دوغلی پالیسی کے علاوہ افغانستان کے حوالے سے دونوں ممالک کے متضاد مفادات ہیں۔ سویت یونین کے خاتمے کے بعد جب امریکہ دنیا کا بے تاج بادشاہ بن گیا تو اسکی آنکھوں کے آگے رعونت کی چربی کی ایک ایسی جھلی آئی، جس کی وجہ سے امریکہ زمینی حقائق کو صحیح طرح دیکھنے سے قاصر ہے اور ساتھ ہی وہ یہ چاہتا ہے کہ جب وہ کسی بھی چیز کی خواہش ظاہر کرے تو دنیا کے ممالک اپنی عزت و ناموس داؤ پر لگا کر بھی اس کی فوراً تکمیل کریں۔
 
قارئین، بش کا وہ فقرہ یاد کریں "Either you are with us or against us" اس امریکی ذہنیت کو سامنے رکھا جائے تو بات صاف ہو جاتی ہے۔ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کا دل ہے کہ مسلمانوں کے سر ہوں اور انہی کے جوتے بھی ہوں اور وہ اُن کی زور زور سے پٹائی کرئے اور کوئی اُف بھی نہ کرئے۔ اپنی اس بیمار ذہنی کیفیت سے اگر امریکہ چھٹکارہ حاصل کر لے تو پھر بڑی بڑی نیٹو کانفرسوں کے دربار لگانے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ 

اس خطے کے معاملات صرف اس خطے کے ممالک ہی حل کر سکتے ہیں۔ امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ وہ افغانستان کا میدان چھوڑ کر، خواہ شکست خوردہ ہو کر بھی بھاگے، تو پھر بھی افغانستان میں اس کی مرضی کی حکومت ہی بنے۔ اس کا دیا ہوا آئین قائم و دائم رہے، اس کی بنائی ہوئی افغان فوج کو کوئی نہ چھیڑے اور کچھ اہم ہوائی اڈے بھی اس کے قبضے میں رہیں، تاکہ وہ وسطی ایشائی ریاستوں، ایران، چین اور روس کو ڈرائے رکھے اور پاکستان اور افغانستان کی اپنے ڈرون حملوں سے پٹائی بھی جاری رکھے۔
 
پاکستان امریکہ کو نہایت اخلاص سے بتاتا ہے کہ 2014ء کے بعد افغانستان میں امریکہ کی مذکورہ بالا خواہشات میں سے کسی کی تکمیل بھی ممکن نہیں۔ افغانستان پاکستان کا پڑوسی مسلمان ملک ہے اور دونوں ممالک اپنی تاریخ اور جغرافیہ کے رشتے اگر توڑنا بھی چاہیں تو ایسا نہیں کر سکتے۔ ہم نے مل کر رہنا ہے، اس لئے پاکستان کی دیانت دارنہ رائے یہ ہے کہ پوسٹ امریکہ افغانستان بہت سی انگڑایوں کے بعد کسی پُرامن شکل میں شائد عشروں کے بعد ہی سامنے آئے گا، چونکہ جہاں ایک طرف بے گناہ افغان عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سے قبرستان بھر گئے ہیں اور زندہ پشتون آبادیاں غربت کی چکی میں پس رہی ہیں، وہاں دوسری طرف جنگجو سرداروں کا مالِ حرام اور ڈرگ منی کھا کر پیٹ پھٹنے والا ہے۔ 

اُن کے پاس ڈالرز ہی نہیں، اسلحہ بھی ہے اور اُن کو عیاشی کی زندگی کا چسکا بھی پڑ چکا ہے۔ اس لئے افغانستان میں جو ناانصافیوں کے بیج امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے بوئے ہیں اس کی فصل تو بدقسمتی سے ضرور اُگے گی، جس کو کاٹتے وقت کشت و خون ہو گا اور نقصان ہمارے افغان بھائیوں کا ہو گا۔ اس متوقع خانہ جنگی کے امکانات کو محدود کرنے کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ سب سے پہلے مجروح افغانیوں کو بیرونی گدوں کی نوکدار تیز چونچوں اور خونی پنجوں سے چھڑایا جائے اور امریکہ بین الاقوامی سطح پر اپنے مسلم کش پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور نہ صرف افغانستان سے نکل جائے بلکہ فلسطین کے مسئلہ پر اسرائیل کی پشت پناہی اور کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستان کی حوصلہ افزائی نہ کرے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ بُش اور اُوباما کی پالیسیوں نے عظیم امریکی قوم کے چہروں پر بدنامی کے جو داغ لگائے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کا چہرہ مسخ کر دیا ہے۔ بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑا کر کوئی بھی طاقت زیادہ دیر تک اپنا تسلط برقرار نہیں رکھ سکتی۔ ہٹلر بننے والے ہٹلر کے انجام کو بھی ضرور ذہن میں رکھیں۔ امریکہ یہ بھی سوچے کہ مُسلم دنیا میں انتہا پسندی کو جنم دینے میں امریکی حکومتوں کی مسلمان دشمن، جانبدارانہ اور غیر منصفانہ پالیسیوں کا کلیدی کردار ہے۔ 

جب آپ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اُڑا کر کسی کی پیٹھ دیوار سے لگا لیں گے تو وہ آپ کی پیٹی سے اُوپر اور پیٹی سے نیچے بھی آپ کو نہ صرف ضربیں لگانے کی کوشش کرے گا بلکہ آپ کے منہ پر تُھوکے گا بھی اور ایسی صُورت میں دہشتگردی کی سخت مخالف حکومتیں بھی بے بس ہوں گی۔
 
امریکہ کے خلاف موجودہ حقارت کو کم کرنے اور اُس کا پاکستان کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ پاکستان کو اعتماد میں لے کر امریکہ افغانستان سے نکل جائے، افغانیوں، کشمیریوں اور فلسطینی مسلمانوں کو انصاف ملے، مسلمانوں کی قتل و غارت ختم ہو، امریکہ خلیج فارس سے اپنی افواج واپس بلائے اور ایران کو جنگ کی دھمکیاں دینے کی بجائے اس سے معاملات پُرامن طریقے سے طے کرے۔ افغانستان سے ہندوستان سمیت ساری بیرونی جاسوس کمپنیوں کا انخلا ہو، افغانستان امن مذاکرات صرف اور صرف افغان مزاحمتی قوتوں سے ہوں، جس کیلئے پاکستان ایک بہت مفید کردار ادا کر سکتا ہے۔ 

ڈرون حملے بند ہوں، امریکہ ہمارے جانی نقصانات پر نہ صرف معافی مانگے بلکہ اُن امریکی فوجیوں پر جنگی جرائم کے مقدمے بھی چلائے جنہوں نے پچھلے دس سالوں میں بے گناہ پاکستانیوں، افغانیوں اور عراقیوں کو قتل کیا، مہذب قوموں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتی ہیں۔ پاکستان کے مالی نقصانات کا ازالہ ہو، 17 لاکھ غیر قانونی افغان مہاجرین اپنے وطن واپس لوٹیں، امریکہ پاکستان میں اپنے سفارت خانے کی ناقابل یقین توسیع کا کام روک دے۔ میری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ جب تک امریکہ اپنے طرزِ عمل میں بنیادی تبدیلیاں لانے کو تیار نہ ہو، اُس وقت تک پاکستان کو شکاگو میں ہونے والی نیٹو کانفرنس میں شمولیت کی حامی بھرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 158180
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش