0
Wednesday 16 May 2012 13:35

نیٹو سپلائی کی بحالی اور شکاگو کانفرنس

نیٹو سپلائی کی بحالی اور شکاگو کانفرنس
 تحریر: جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
 
7 اگست 1998ء کو جب کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر بموں سے حملے ہوئے تو اس کے جواب میں امریکی صدر بل کلنٹن نے اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دو مسلمان ممالک سوڈان اور افغانستان پر ہوائی حملوں کا منصوبہ بنا لیا اور 20 اگست کی شام کو 75 میزائل بحرِ احمر اور بحرِ عرب سے سوڈان اور افغانستان پر بیک وقت داغ ڈالے۔ اس وقت سوڈان میں شام کے ساڑھے سات اور افغانستان میں رات کے دس بجے تھے۔ اس حملے میں ایک اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی یہ تھی کہ بحرِ عرب سے فائر ہونے والے کروز میزائلوں کا ہوائی راستہ پاکستانی بلوچستان کے اوپر سے تھا، جس کی پاکستان سے کوئی اجازت نہ لی گئی بلکہ حملے سے چند منٹ پہلے ایک امریکی کمانڈر نے جو شام ہمارے آرمی چیف جناب جہانگیر کرامت کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا، بتایا کہ چند منٹوں بعد آپ کی ائیر سپیس سے ہمارے میزائل گزریں گے۔ اس کو حملہ نہ سمجھا جائے، یہ میزائل ہندوستانی نہیں بلکہ امریکن ہیں اور ان کے اہداف افغانستان میں موجود اسامہ بن لادن کے تربیتی کیمپ ہیں۔
 
امریکہ ان دو ممالک پر Self defence میں حملہ کر رہا ہے اس پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی حیرانگی کا اظہار کیا، چونکہ امریکہ خود ہی جیوری اور خود ہی جج بن رہا تھا۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ 1842ء میں جب برطانیہ کے فوجیوں نے ایک چھوٹے کینڈین بحری جہاز پر برطانیہ کی سمندری حدود سے باہر حملہ کر کے اس لئے تباہ کیا کہ وہ برطانیہ کے مفادات کے خلاف کام کر رہا تھا اور اس لئے برطانیہ اپنے Self Defence میں یہ کارروائی کرنے پر مجبور ہوا، تو اُس وقت امریکہ کے وزیر خارجہ ڈینیل ویبسٹر (Daniel Webster) نے برطانیہ کے موقف کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ ذاتی دفاع کا حق موجود ہے، لیکن یہ ایسے حالات میں ہوتا ہے جن میں:۔
"The necessity of that Self defence is instant, over whelming and leaving no choice of means and no moment for deliberation"
یعنی اگر آپ کے اوپر کوئی اتنا اچانک حملہ کرتا ہے کہ آپ نے ہر حالت میں اپنی جان کا دفاع کرنا ہے اور یہ انتہائی ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ اسی وقت فوراً اپنا ردِ عمل ظاہر کریں، آپ کے پاس سوچنے کا ٹائم ہے نہ یہ فیصلہ کرنے کا کہ آپ اپنے دفاع میں کیا استعمال کریں۔
 

اس موضوع پر اگست 1998ء میں ہی واشنگٹن اور لی یونیورسٹی سکول آف لا کے پروفیسر فریڈرک انل کرگس جو امریکن جرنل اور انٹرنیشنل لا کا ایڈیٹر بھی تھا، نے کہا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 51 ذاتی دفاع کا حق اس وقت دیتا ہے جب آپ پر کوئی ملک فوجی حملہ کر دے۔ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے آرٹیکل 2(4) میں یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ۔
"It Prohibits any threat or use of force against the territorial integrity or political independence of any state"
یعنی اقوامِ متحدہ کا چارٹر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی بھی ملک کی جغرافیائی یا سیاسی آزادی کے خلاف طاقت یا طاقت کے استعمال کی دھمکی دی جائے۔
 
ان بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں امریکہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی ملک پر اپنی مرضی سے حملہ آور ہو جائے، یا کسی ملک کی ہوائی پٹی کو بغیر اُس کی اجازت سے استعمال کر گذرے اور ڈرون حملے تو بالکل غیر قانونی اور صریحاً غیر اخلاقی ہیں۔ اگر دنیا کے کسی ملک کو بھی امریکی ایئر سپیس میں گھسنے یا امریکی سرزمین پر ڈرون حملے کرنی کی اجازت نہیں تو یہ قانون دنیا کے سارے چھوٹے بڑے ممالک پر لاگو ہے۔ مورخ جب تاریخ لکھے گا تو وہ امریکہ کے عراق، افغانستان، لیبیا اور پاکستان پر حملوں کو بین الاقوامی دہشتگردی ہی کہے گا۔
 
اتفاق کی بات یہ ہے کہ 26 نومبر 2011ء کے ہمارے سلالہ پوسٹ پر حملے سے ایک دن پہلے بھی ISAF کا جنرل جون ایلن ہمارے جی ایچ کیو میں موجود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام کہتے ہیں کہ امریکہ ہمیں دایاں ہاتھ دکھاتا ہے اور بائیں ہاتھ سے مارتا ہے۔ سلالہ پوسٹ پر حملے کے بعد حکومت پاکستان نے نیٹو سپلائی بند کر دی اور پھر پارلیمنٹ نے اپنے مشترکہ اجلاس کے بعد سپلائی کی بحالی کیلئے ڈرون حملوں کے خاتمے سمیت کچھ شرائط رکھیں، جو بالکل جائز تھیں۔ اب اگر وہ شرائط امریکہ نے منظور کر لی ہیں تو قوم کو بتایا جائے اور سپلائی ایک مخصوص مدت کیلئے بحال کر دی جائے، لیکن اگر امریکہ نے آپ کے مطالبات کو پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے اور خصوصاً ڈرون حملوں کو جنہیں پاکستان اپنی قومی سلامتی پر حملہ تصور کرتا ہے۔ امریکہ قانوناً اور اخلاقاً جائز سمجھتا ہے بلکہ آئندہ بھی ایسا کرنے کی دھمکی دے رہا ہے تو پھر حکومت کے پاس صرف دو راستے ہیں ایک یہ کہ امریکہ سے اپنے وہ مطالبات منوائے، جس کو پارلیمنٹ اپنی قومی سلامتی کیلئے ضروری سمجھتی ہے، یا فوراً مستعفی ہو کر انتخابات ہونے دے، تاکہ آنے والی حکومت اس معاملے کو حل کرئے۔ 

مطالبات کی منظوری اور مستقبل کیلئے ایک تحریری پاک امریکہ معاہدہ کے بغیر نیٹو کی سپلائی لائن کو کھولنا قومی مفاد میں نہیں۔ شکاگو کانفرنس میں صدر مملکت ضرور جائیں، لیکن مکمل تیاری کے ساتھ۔ صدر کیلئے ایک بہت جامعہ تقریر تیار کی جائے، جس کے اندر وزارتِ خارجہ کے تجربہ کار سفارت کاروں، افواج پاکستان کے ماہرین اور بین الاقوامی قوانین کو سمجھنے والے قانون دانوں کی پیشہ ورانہ رائے شامل ہو۔ اس کے علاوہ وزراتِ خزانہ دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں شامل ہونے کی وجہ سے پاکستان کے مالی نقصانات کا بالکل صحیح اندازہ بھی اس تقریر میں شامل کرے اور یہ واضح طور پر بتا یا جائے کہ اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ، امریکہ اور بین الاقوامی برادری کتنے ارب ڈالرز کی مقروض ہے۔ 

یہ تقریر اتنی موثر ہو کہ وہاں پر موجود بین الاقوامی مبصرین کے ذہن میں اس بات پر کوئی شک نہ رہے کہ پاکستان دہشتگردی کی لعنت کو پاکستان کیلئے بھی برا سمجھتا ہے، جس طرح 80 فیصدی افغانستان پر نیٹو کا کوئی کنٹرول نہیں، پاکستان کی قبائل پٹی میں ایسے علاقے ہیں، جہاں سے پاکستان نے غیر ملکیوں کو نکالنا ہے اور دہشتگردوں کو ختم کرنا ہے، لیکن یہ پاکستان اپنے مفاد میں اپنی سیاسی، اور اگر ضرورت پڑی تو، عسکری طاقت سے کرے گا۔ دہشتگردوں کے اڈے افغانستان کے صوبوں نورستان اور کنٹر میں بھی موجود ہیں، جہاں سے پاکستان پر حملے ہوتے ہیں، جن کو امریکہ ختم کرے۔ 

تقریر میں واضح الفاظ میں یہ بتایا جائے کہ پاکستانی قوم ڈرون حملوں کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی سمجھتی ہے اور عوام کو اس میں شک نہیں کہ امریکہ سلالہ پوسٹ پر حملہ آور ہو کر جارحیت کا مرتکب ہوا۔ ریمنڈ ڈیوس معاملے اور ایبٹ آباد اپریشن نے پاک امریکہ تعلقات کے کفن میں آخری کیل لگائے۔ پاکستان دہشتگردی کو ختم کرنے کیلئے بین الاقوامی اداروں اور نیٹو سمیت دوسرے سارے ممالک کے ساتھ تعاون کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہے، لیکن پاکستان مفادات کو داؤ پر نہیں لگا یا جا سکتا۔ 7 نومبر 2011ء کی Activist Post میں دس وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ جن کی بنا پر امریکہ کوMost Brutal Empire in History کہا گیا ہے۔ ان وجوہات کا ذکر اگلے کالم میں کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 162433
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش