QR CodeQR Code

ملی یکجہتی کونسل کا احیاء

22 May 2012 18:34

اسلام ٹائمز: موجودہ سیاسی میدان میں اگرچہ مذہبی جماعتیں زیادہ موثر نہ ہوں، تاہم مذہبی ہم آہنگی کے لیے وہ مل جل کر اب بھی بہت بڑا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ کچھ عرصے سے پاکستان میں بعض ایسے واقعات پھر سے رونما ہونے لگے ہیں کہ جن کی وجہ سے درد رکھنے والے اہل دین کو تشویش ہے کہ اگر ان کی روک تھام نہ کی گئی تو اس سے پاکستان کے استحکام کو ہی خطرہ لاحق نہ ہوگا بلکہ دین اسلام کے تشخص کو بھی عالمی سطح پر زیادہ نقصان پہنچے گا۔ کراچی، کوئٹہ، چلاس اور کوہستان وغیرہ میں ہونے والے اندوہناک واقعات اس کی غمناک مثال ہیں۔


تحریر: ثاقب اکبر 
 
ماضی قریب میں ”ملی یکجہتی کونسل“ کا پاکستان کے مختلف دینی مسالک کے مابین ہم آہنگی اور یکجہتی پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار رہا ہے۔ اس کے پہلے صدر مولانا شاہ احمد نورانی تھے۔ یہ وہ دور تھا جب وطن عزیز میں فرقہ وارانہ تشدد اور قتل و غارت کا بازار بہت گرم تھا۔ بعدازاں وہ جماعتیں جو اس کونسل میں شامل تھیں ان میں سے بیشتر نے مل کر ”متحدہ مجلس عمل“ قائم کر لی۔
ایم ایم اے بنیادی طور پر ایک انتخابی اتحاد تھا جبکہ ملی یکجہتی کونسل دراصل ایک غیر انتخابی مذہبی اتحاد کا نام تھا۔ تاہم ایم ایم اے نے بھی مذہبی ہم آہنگی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ 

پاکستان کے عوام کی ایک قابل ذکر تعداد نے بھی مذہبی جماعتوں کے اس اتحاد پر اعتماد کا اظہار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں یہ اتحاد دوسرے بڑے سیاسی گروہ کی حیثیت سے منظر عام پر آیا۔ یہ فوجی آمریت کا دور تھا۔ فوجی آمروں کے اپنے مفادات اور ترجیحات ہوتی ہیں۔ ایم ایم اے کا مذہبی کردار تو خاصا موثر رہا، لیکن سیاسی حوالے سے اگرچہ موجودہ خیبر پختونخوا میں اس کی بلاشرکت غیرے حکومت قائم رہی اور بعض حوالوں سے اس نے اچھی مثالیں بھی قائم کیں، تاہم مرکز میں چونکہ فوجی آمریت کا دم چھلہ بننے والوں کی حکومت تھی، اس لیے صوبائی سطح پر کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہ تھا۔ یہ اتحاد بعدازاں پہلے کی سی صورت میں قائم نہ رہ سکا، اس میں موجود دوسری بڑی تنظیم جماعت اسلامی نے 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا، جس کے نتیجے میں نئے انتخابات میں مذہبی جماعتیں قابل ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔
 
موجودہ سیاسی میدان میں اگرچہ مذہبی جماعتیں زیادہ موثر نہ ہوں، تاہم مذہبی ہم آہنگی کے لیے وہ مل جل کر اب بھی بہت بڑا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ کچھ عرصے سے پاکستان میں بعض ایسے واقعات پھر سے رونما ہونے لگے ہیں کہ جن کی وجہ سے درد رکھنے والے اہل دین کو تشویش ہے کہ اگر ان کی روک تھام نہ کی گئی تو اس سے پاکستان کے استحکام کو ہی خطرہ لاحق نہ ہوگا بلکہ دین اسلام کے تشخص کو بھی عالمی سطح پر زیادہ نقصان پہنچے گا۔ کراچی، کوئٹہ، چلاس اور کوہستان وغیرہ میں ہونے والے اندوہناک واقعات اس کی غمناک مثال ہیں۔

اس پس منظر میں بعض اہل سوز نے یہ ضرورت محسوس کی کہ اہل دین و مذہب کو پھر سے سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور ملک میں مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے تدابیر کرنا چاہیے۔ 21 مئی 2012ء کو میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں منعقدہ ”اتحاد امت اور اسلامی یکجہتی“ کانفرنس اسی غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ اس میں ملک کے تمام اسلامی مکاتب فکر کے ذمہ دار نمائندوں نے شرکت کی۔ اس کا دعوت نامہ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد کی طرف سے جاری کیا گیا تھا اور یہ کانفرنس جماعت اسلامی پاکستان ہی کے زیراہتمام منعقد ہوئی۔
 
کانفرنس میں امیر جماعت اسلامی سید منور حسن، شیعہ علمائے کونسل کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی، جماعت اسلامی کے قیم لیاقت حسین بلوچ، مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد امین شہیدی، جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر عبدالرشید ترابی، تنظیم العارفین کے سیکرٹری جنرل صاحبزادہ سلطان احمد علی، رابطة المدارس کے سربراہ مولانا عبدالمالک، جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم، جماعت اسلامی ہی کے راہنما سراج الحق، جماعت الدعوہ کے پروفیسر مولانا عبدالرحمن مکی، تنظیم اسلامی کے سربراہ حافظ محمد عاکف سعید، وفاق المدارس شیعہ کے نائب صدر قاضی نیاز حسین نقوی، منہاج القرآن علماء کونسل کے علامہ علی غضنفر کراروی، جامعہ مدینة العلم کے ڈاکٹر سید محمد نجفی۔
 
وفاق المدارس العربیہ کے جنرل سیکرٹری قاری محمد حنیف طیب، مولانا نذیر احمد فاروقی، تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلٰی رحیق عباسی، مولانا ملک عبدالرﺅف، مولانا ابو شریف، جمعیت اہل حدیث کے ناظم اعلٰی علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی راہنما حافظ حسین احمد، پیر ہارون گیلانی، مولانا محمد طیب طاہری، پیر عبدالرحیم نقشبندی، حزب الدعوة کے محمد یحییٰ مجاہد، مولانا محمد خان لغاری، صاحبزادہ محمود الحسن نقشبندی، مولانا مظہر بخاری اور راقم کے علاوہ متعدد مذہبی قائدین اور شخصیات نے شرکت کی۔
 
جیساکہ مندرجہ بالا ناموں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کانفرنس میں تمام اسلامی مسالک کے راہنما شریک ہوئے۔ کانفرنس میں سب مقررین نے مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد پر زور دیا۔ سب نے تکفیری رویے کی کھل کی مذمت کی۔ تمام مقررین کا نظریہ تھا کہ انتہا پسندی اور دہشتگردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ سب کی رائے تھی کہ مختلف اسلامی مسالک کے افراد کو قتل کرنے والے گروہوں اور افراد کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
 
اس موقع پر مشترکہ اعلامیے کی تیاری کے لیے ایک آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں راقم کے علاوہ مندرجہ ذیل شخصیات شامل تھیں:
1۔ حافظ حسین احمد 
2۔ پروفیسر محمد ابراہیم
3۔ پیر عبدالشکور نقشبندی
 4۔ صاحبزادہ محمود الحسن نقشبندی
5۔ محمد یحییٰ مجاہد
 6۔ صاحبزادہ سلطان احمد
8۔ محمد خان لغاری
 
اعلامیہ کے حوالے سے اراکین کے مابین تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ مختلف مواقع پر راہنمائی اور مدد کے لیے جناب قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور علامہ سید ساجد علی نقوی کو مختصر وقت کے لیے کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ تبادلہ خیال کے بعد اتفاق رائے سے اعلامیہ کے لیے مندرجہ ذیل عبارت کی منظوری دی گئی:
”اتحاد امت اور اسلامی یکجہتی کونسل“ کے زیرعنوان آج مورخہ 21 مئی 2012ء بروز سوموار میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں منعقد ہونے والی پاکستان کے مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کی مشترکہ کانفرنس نے مندرجہ ذیل اعلامیہ پر اتفاق کیا ہے:
 
متحدہ مجلس عمل کے انتخابی پلیٹ فارم اور دفاع پاکستان کونسل کی موجودگی اور افادیت کا اعتراف کرتے ہوئے ”ملی یکجہتی کونسل“ کی بحالی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس کے حوالے سے دیگر معاملات طے کرنے کے لیے جناب قاضی حسین احمد کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ کمیٹی کے اراکین کا فیصلہ جناب قاضی حسین احمد دیگر قائدین اور تنظیموں سے مشاورت کے بعد کریں گے۔
 
اس عبارت کا پس منظر جاننے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ بعض حلقوں کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ یکجہتی کے حوالے سے مذکورہ کانفرنس کا مقصد ایم ایم اے یا دفاعِ پاکستان کونسل کا متبادل سامنے لانا ہے۔ اگرچہ قاضی حسین احمد نے جو اس کانفرنس کے میزبان تھے، اپنے ابتدائی خطاب میں ہی اس غلط فہمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم بعض شخصیات کے نزدیک عوامی سطح پر غلط فہمی کے ازالے کے لیے ضروری تھا کہ اس سلسلے میں جاری کیے جانے والے اعلامیے میں بھی کچھ عبارت شامل کر لی جائے۔ دیگر قائدین نے اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرتے ہوئے اس تقاضے کو قبول کر لیا۔
 
مذکورہ اعلامیہ بعدازاں شرکائے کانفرنس کے سامنے پڑھا گیا اور سب نے اتفاق رائے سے اس کی منظوری دی۔ اس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے مزید گفتگو کرتے ہوئے ملی یکجہتی کونسل کے نو منتخب مرکزی صدر جناب قاضی حسین احمد نے بعض اہم اعلانات کیے۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی کونسل اور دیگر اداروں کی تشکیل کے لیے پندرہ روز کے اندر اندر ایک اور اجلاس بلایا جائے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یکجہتی کونسل کا ایک سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا، جس میں مرکزی کابینہ کے نمائندوں کے علاوہ کونسل کے چار کمیشنز کے نمائندے بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔ قاضی حسین احمد صاحب نے بتایا کہ یہ چار کمیشنز اس طرح سے ہیں:
 
مصالحتی کمیشن: جو باہمی نزاعات کو بروقت طے کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے گا۔
ii۔ علمی کمیشن: جو علمی طور پر مختلف مسلکوں کو قریب لانے کے لیے مسلسل تحقیق اور باہمی روابط بڑھانے کی کوشش کرتا رہے گا۔
iii۔ خطبات جمعہ میں رہنمائی کرنے کے لیے کمیشن: جو قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں حالات حاضرہ پر تبصرہ اور عوام کے اخلاقی، معاشی اور معاشرتی مسائل میں ان کی رہنمائی کے لیے مشترک نکات طے کرکے خطابات جمعہ میں علمی گہرائی اور یک رنگی پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔
iv۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کمیشن: یہ کمیشن اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مطالبات کے حق میں ایک پرامن آئینی جدوجہد کو منظم کرے گا، تاکہ حکومت کو ان سفارشات پر عملدرآمد کے لیے آمادہ کیا جاسکے۔
 
راقم کی رائے میں ملی یکجہتی کونسل کا احیاء نہ فقط ایک مثبت قدم ہے بلکہ توقع ہے کہ اس کونسل کا آئندہ کردار گذشتہ کی نسبت زیادہ ٹھوس، ہمہ گیر اور موثر ہوگا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اب کونسل کے سامنے ماضی کے تجربات بھی ہیں جن سے وہ مثبت طور پر استفادہ کرسکے گی۔ ثانیاً جناب قاضی حسین احمد کے کندھے پر اب جماعت کی امارت کی ذمہ داریاں بھی نہیں ہیں، وہ اب بہتر طور پر اس کونسل کے لیے وقت دے سکیں گے۔ ثالثاً جناب قاضی حسین احمد ہی کے بقول کونسل کے لیے باقاعدہ سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا جو کل وقتی اسی حوالے سے اپنی خدمات انجام دے گا، جبکہ قبل ازیں کونسل کا کوئی مستقل دفتر نہ تھا۔
 
جناب قاضی حسین احمد نے راقم سے ایک ملاقات میں بتایا کہ چند اہم مذہبی اداروں اور تنظیموں کے جو اکابر 21 مئی کے اجلاس میں بوجوہ شریک نہیں ہوسکے، آئندہ اجلاس میں انھیں بھی شرکت کی دعوت دی جائے گی۔ یقیناً اس صورت میں ملی یکجہتی کونسل اور بھی زیادہ اعتماد سے مسلمانوں کے مابین ہم آہنگی اور اسلامی اقدار کے احیاء اور فروغ میں اپنا کردار ادا کر سکے گی۔ آخر میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملی یکجہتی کونسل ایک انتخابی اتحاد نہیں ہے بلکہ ایک دینی اتحاد ہے۔ اگرچہ یہ بات بھی اجلاس کے دوران واضح کر دی گئی تھی کہ دینی اتحاد کا یہ مطلب نہیں کہ کونسل دین اسلام کے سیاسی غلبے کی جدوجہد سے الگ رہے گی اور اس کا اظہار مذکورہ بالا چوتھے کمیشن کے مقاصد میں کر دیا گیا ہے۔


خبر کا کوڈ: 164366

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/164366/ملی-یکجہتی-کونسل-کا-احیاء

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org