0
Monday 28 May 2012 23:52

آئی ایس او کا ملی کردار

آئی ایس او کا ملی کردار
تحریر: ابن آدم راجپوت

امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ایسا نام ہے جو کہیں لکھا نظر آ جائے یا اس کا پرچم لہراتا دیکھ لیا جائے تو پاکستان میں متحرک الٰہی نوجوانوں کا رواں دواں قافلہ ذہن میں آتا ہے۔ جنہوں نے پچپنے میں ہی بلوغت کا اظہار کیا اور بزرگوں کی رہنمائی اور معاونت کا کارنامہ سرانجام دیا۔ 22 مئی 1972ء کو قائم ہونے والی آئی ایس او ابتدائی طور پر لاہور کے تعلیمی اداروں میں مختلف ناموں سے کام کرنے والی شیعہ طلبہ تنظیموں کے ادغام سے تشکیل پائی۔ جن میں امامیہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن، شیعہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن اور جمعیت طلبہ اثنا عشریہ نمایاں ہیں۔

آئی ایس او کے ابتدائی عہدیدار بھی انہیں تنظیموں کے سرکردہ رہنماوں میں سے تھے۔ جنہوں نے علمائے کرام کی قیادت میں شخصی تربیت کے ذریعے معاشرہ سازی اور ملی حقوق کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے تعلیمی اداروں میں شیعہ طلبا کے حقوق اور انہیں قرآن حکیم کی تعلیمات اور اہل بیت علیھم السلام کی حیات طیبہ کی پیروی میں زندگیاں گذارنے کے مواقع فراہم کرنے اور انہیں اس طرف مائل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔

شروع سے ہی تنظیم کو شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی جیسے متحرک کارکن مل گئے۔ جنہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک اس تنظیم اور ملی امور کی انجام دہی میں دن رات ایک کر دیا۔ پھر یہ تنظیم پاکستان کے کونے کونے میں پھیل گئی۔ جب ضیاالحق کے مارشل کے دوران اسلام کے نام پر قانون سازی کر کے ایک خاص مسلک کی فکر کو پورے پاکستان پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو اسی تنظیم کے صالح نوجوان فوجی آمر کے پلید عزائم میں رکاوٹ بنے۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان مفتی جعفر حسین مرحوم کی قیادت میں پارلیمنٹ ہاوس کا گھیراو کر کے حکومت کو شیعہ مطالبات منظور کرانے میں آئی ایس او پیش پیش رہی۔

یہ آئی ایس او ہی کا طرہ امتیاز ہے کہ ضلع جہلم کے شہر دینہ میں ایجنسیوں کی معاونت سے مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد سامنے لائی جانے والی قیادت کو مسترد کرتے ہوئے بھکر میں علمائے کرام کے حقیقی اجتماع کے ذریعے شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی قیادت منتخب ہوئی تو انہیں ملک بھر میں متعارف کروانے اور کامیاب کروانے میں آئی ایس او نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ پھر آئی ایس او نے شہید الحسینی کی 5 اگست 1988ء کو شہادت کے بعد علامہ ساجد علی نقوی کی قیادت کو بھی ملک بھر میں متعارف کروایا اور تحریک جعفریہ کو مضبوط بنایا۔

1995ء میں قومی بحران پیدا ہوا تو آئی ایس او نے علامہ فاضل حسین موسوی کی قیادت میں تشکیل پانے والی تحریک جعفریہ کا ساتھ دیا۔ لیکن وہ خود امریکہ سے مستقل طور پر واپس نہ آسکے تو آئی ایس او نے سینیٹر علامہ عابد حسین الحسینی کی قیادت میں مجلس شوریٰ وحدت پاکستان کا ساتھ دیا۔ پھر حالات نے پلٹا کھایا تو آئی ایس او کے سینئیر برادران نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی تشکیل، دستور اور تنظیم سازی میں کلیدی کردار ادا کیا اور قیادت علماء کے سپرد کر دی۔ اب یہ جماعت اپنے عروج کو چھور ہی ہے۔ اس کے جلسے اور جلوس منظم اور بھرپور ہو رہے ہیں، جس سے قومی تحرک پیدا ہوا ہے۔

اسی طرح دہشتگردی کا شکار پاراچنار، گلگت، ڈیرہ اسمٰعیل خان، کراچی، خانپور، چکوال یا دنیا کے کسی بھی کونے میں ظلم ہو، امت مسلمہ کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ مظاہرے کر کے آئی ایس او نے ملی بیداری کا ثبوت دیا ہے۔ حالانکہ ایک رائے موجود ہے کہ طلبہ تنظیم کو صرف تعلیمی اداروں تک محدود ہو کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنی چاہیں، لیکن اس تنظیم کے وسیع نیٹ ورک اور تسبیح کے دانوں کی طرح باہم مربوط علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے محب نوجوان ہر نازک موقع پر ملی غیرت و حمیت کا ثبوت دیتے ہیں۔ اسی لئے قوم ان نوجوانوں کی نہ صرف مالی بلکہ اخلاقی اور سیاسی امداد کرتی اور ان کے مظاہروں اور جلوسوں میں بھی شریک ہوتی ہے۔

اب جبکہ آئی ایس او بلوغت کو پہنچ چکی ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اس کے تعلیمی، تربیتی اور مالی شعبہ جات کو باقاعدہ طور پر مستقل بنیادوں پر کھڑا کرنے میں اس تنظیم سے فارغ ہو کر عملی زندگی میں قدم رکھنے والے افراد تعاون کریں۔ لیکن اس کی ابتدا خود تنظیم کے موجودہ عہدیداروں اور اداروں ہی کو کرنا ہوگی کہ وہ کس حد تک اور کن شعبہ جات میں تعاون چاہتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 166397
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش