2
0
Tuesday 29 May 2012 09:25

ایک ہوں مسلم

ایک ہوں مسلم
تحریر: سید اسد عباس تقوی

گزشتہ دنوں پشاور کے نشتر ہال میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس”عالم اسلام: روشن مستقبل کی نوید“ میں شرکت کا موقع ملا۔ بحیثیت مبصر جو چیزیں میرے فہم و ادراک میں آئیں پیش قارئین ہیں۔ یہ کانفرنس بنیادی طور پر عالم اسلام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور ان تبدیلیوں کے تناظر میں پاکستان کے سیاسی و معاشرتی حالات پر غور وفکر کے لیے منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس میں پاکستان بھر کی اسلام پسند قوتوں کی نمائندہ شخصیات نے شرکت کی۔ مرکزی خطابات میں جناب قاضی حسین احمد، جناب صاحبزادہ ابوالخیر زبیر، جناب سید ساجد علی نقوی، جناب امین شہیدی، جناب ڈاکٹر ابتسام الہی ظہیر، جناب ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، جنرل (ر) حمید گل وغیرہ کے خطابات قابل ذکر ہیں۔ دیگر مقررین میں بھی اسی طرح ملک کی اہم سیاسی، سماجی، مذہبی اور علمی شخصیات شامل تھیں۔

کانفرنس کے تمام مقررین نے عالم اسلام کو درپیش مشکلات کا مفصل تجزیہ کیا اور اسلامی بیداری کے تازہ جھونکوں کو نہ فقط مسلمان ممالک بلکہ تمام انسانیت کے لیے خوش آئند قرار دیا۔ تمام مقررین کا اس بات پر اتفاق تھا کہ عالم اسلام کا مستقبل نہ صرف تابناک ہے بلکہ اس کے اندر یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ وہ دیگر اقوام کی قیادت کا فریضہ سرانجام دے۔ تمام مقررین نے اس سلسلے میں اپنی اپنی معروضات سامعین کے سامنے پیش کیں۔ ایک اہم بات جو تقریباً سبھی مقررین کے خطابات میں پائی جاتی تھی اتحاد بین المسلمین کی خواہش تھی، تقریباً سبھی مقررین کا اس امر میں اتفاق تھا کہ مسلمان مسالک کو مسلکی اختلافات کو بالائے رکھتے ہوئے وقت کی ضرورت کے تحت متحد ہو کر اپنے مشترکہ دشمن سے مقابلے کے لیے میدان عمل میں اترنا چاہیے۔ 

اس سلسلے میں جنرل (ر) حمید گل کا موقف تھا کہ جب تک آپ دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں کے سامنے اسلامی حکومت کا رول ماڈل پیش نہیں کریں گے اس وقت تک آپ دنیا کی قیادت کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔ قاضی حسین احمد نے اس امر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کسی قوم یا ملک کی بربادی نہیں چاہتا، اس کا ہدف تمام انسانیت کی فلاح ہے۔ ہم امریکی عوام یا ہندوستانیوں کے دشمن نہیں بلکہ ہر اس قوت کے دشمن ہیں جو اسلام کی حقیقی تعلیمات کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑی ہے۔

مجلس وحدت کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل جناب امین شہیدی نے اس حوالے سے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں برائی کی اصل جڑ کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ ہم جب تک ثانوی چیزوں کی جانب متوجہ رہیں گے اس وقت تک ملک میں عادلانہ نظام حکومت قائم کرنے سے قاصر رہیں گے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایران کے انقلاب اسلامی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینی رہ نے ملک میں پھیلی ہوئی بے حیائی، عریانیت کے بجائے ان تمام برائیوں کی اصل یعنی شاہ کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور جب جڑ کٹ گئی تو اس کی شاخیں اور پتے یعنی معاشرے میں پھیلی ہوئی لادینیت، عریانیت اور فحاشی کا بھی قلع قمع ہو گیا۔

کانفرنس میں کی گئی دیگر اہم باتوں میں جناب قاضی حسین احمد کے خطاب کا آخری حصہ بھی تھا جس میں انھوں نے کانفرنس میں شریک تمام مکاتب فکر کے علماء کی اتحاد امت کے حوالے سے خواہشات اور گزارشات کو بہت سراہا، تاہم ان سے یہ بھی گزارش کی کہ جب وہ اپنی نجی محافل میں جائیں تو ان خواہشات اور گزارشات کو اپنے مدنظر رکھیں اور اپنے پیروکاروں کو انہی نیک جذبات کی تعلیم دیں۔ قاضی صاحب نے ملی یکجہتی کونسل کے دوبارہ فعال کیے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی دینی قوتوں کو چاہیے کہ مل کر اسلامی نظام کے نفاذ کی کوشش کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلکی اختلافات جن کی حیثیت ساتویں یا آٹھویں درجے کی ہے، کو بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کیا جانا چاہیے۔ کوئی ہاتھ کھول کا نماز پڑھے یا باندھ کر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قاضی صاحب کا کہنا تھا کہ مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی خاص مسلک کی تبلیغ کرے۔ مسلمان کا تو فرض ہے کہ وہ غیراللہ کے سامنے جھکنے والوں کو ایک اللہ کے سامنے جھکنے کی دعوت دے۔

قاضی صاحب کی صورت میں فی الحقیقت مجھے پاکستان کی امت مسلمہ کا وہ قائد نظر آیا جو ملت کے مسائل کا ادراک رکھتے ہوئے ایک پدر بزرگ کی مانند ان کے حل کی جانب متوجہ ہے۔ وہ اپنے نوجوان بیٹوں کے اختلافات سے بھی آگاہ ہے اور ان کے مشترکہ دشمن کی خواہشات کو بھی جانتا ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اب یہ پیر آگاہ چاہتا ہے کہ ہمارے مسالک کے مذہبی نوجوان اپنے ثانوی اختلافات کو پس پشت ڈال کر فلاح انسانیت کے لیے کام کریں اور دین الہی کی حقیقی تعلیمات کو دنیا تک پہنچائیں۔ وہ جانتا ہے صدیوں کی نفرتیں اتنی آسانی سے نہیں بھلائی جا سکتیں، تاہم اسے یقین ہے کہ مشترکات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے سامنے اختلافات کی کوئی حیثیت نہیں۔
 
ایک بات جو کانفرنس کے دوران بار بار میرے پردہ ذہن پر دستک دیتی رہی یہ تھی، کہ ہم اسلام کو لبرل ازم، سرمایہ دارنہ نظام حکومت اور اشتراکیت کے مقابلے میں بطور متبادل نظام پیش کرنے کا دعوی تو کر رہے ہیں لیکن کیا ہم اس قابل ہیں کہ ایسا کر سکیں؟ کیا اتحاد بین المسلمین ہی ہمارا واحد مسئلہ ہے۔؟ ان سوالات کا جواب مجھے سید قطب شہید کی کتاب معالم فی الطریق کے مقدمے میں کچھ یوں ملا:

مغربی تہذیب کی زبوں حالی سے یہ مراد نہیں کہ یہ تہذیب مادی، اقتصادی، سائنسی یا عسکری لحاظ سے تنزل کا شکار ہے، بلکہ تہذیب کی زبوں حالی سے مراد ان حیات بخش اقدار سے محرومی ہے جو انسانی معاشرے کی قیادت کے لیے ناگزیر ہیں۔ مغرب کو اپنے اس افلاس کا بخوبی احساس ہے، یہی سبب ہے کہ وہ اس پیاس کو بجھانے کے لیے مشرق میں روحانی و نظریاتی خوشہ چینی پر مجبور نظر آتا ہے۔ پس انسانیت کو آج ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو مغربی ترقی کو قائم رکھتے ہوئے اسے ایسے طریقہ زندگی سے روشناس کرائے جو فطرت سے ہم آہنگ، مثبت، تعمیری اور حقیقت پسندانہ ہو۔ میری نظر میں یہ حقیقی انسانی اقدار فقط اسلام کے پاس ہیں۔

سید قطب کی نظر میں عالم اسلام کو انسانیت کی قیادت کرنے کے لیے ایک معاشرے یا رول ماڈل کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ لوگوں نے کبھی کسی ایسے نظریے پر کان دھرے ہوں، جس کی معاشرے کے اندر کوئی جیتی جاگتی تصویر موجود نہ ہو۔ سید قطب کی نظر میں امت اسلامیہ کا وجود کافی عرصے سے معدوم ہو چکا ہے، چونکہ امت مسلمہ کسی ملک کا نام نہیں، جہاں اسلامی نظام نافذ رہا ہو، اور نہ ہی یہ کسی قوم کا نام ہے جو تاریخی طور پر مسلمان ہوں، بلکہ یہ اس انسانی جماعت کا نام ہے جس کے طور طریقے، افکار و نظریات، قوانین و ضوابط، اقدار و معیارات، رد و قبول غرض کہ ہر چیز کے سوتے اسلامی نظام کے منبع سے پھوٹتے ہوں۔

سید قطب امت کی امامت کے لیے ناگزیر صلاحیات کے ضمن میں لکھتے ہیں: کہ امت مسلمہ آج اس بات پر قادر نہیں کہ مادی میدان میں مغرب سے آگے بڑھ سکے۔ ان کے خیال میں ایسا کرنا ضروری بھی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا کی امامت کے لیے کسی ایسی صلاحیت کی ضرورت ہے جو تہذیب حاضر کے پاس موجود نہیں۔ سید قطب کی نظر میں یہ صلاحیت عقیدہ و نظریہ ہے جو مادی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانی فطرت کی دوسری جہت یعنی روحانیت کی ضروریات کو بھی پورا کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ ضروری ہے کہ یہ عقیدہ و نظریہ ایک معاشرے کی صورت اختیار کرے یا باالفاظ دیگر ایک مسلم معاشرہ اسی عقیدہ و نظریہ کا علمبردار ہو۔
 
اس تناظر میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عالم اسلام کی وہ قوتیں جو اسلام کو ایک عقیدہ و نظریہ کے ساتھ، عملی نظام حیات سمجھتی ہیں کو، اپنے مسلکی و گروہی اختلافات فراموش کرتے ہوئے اقوام کی امامت کا فرض ادا کرنے کے لیے یکجان ہو جانا چاہیے۔ بقول اقبال
غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا
خبر کا کوڈ : 166482
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Agha Sajid ka zikar na kar k un ki pas e parda kawishoon k saath ziyadti ki jo is conf k hawalay say unhoon nay ki or qazi hussain ahmed k saath besh baha nishistaoon main hamari qayadat nay un ko is nazar-e-andaaz o afkar say roshnaas karaya us ka zikar na karna ziyadti hai. us skaks nay wahdat k liya ko apnoon or ghairoon k sitam sahay us ko sansor nahi kiya ja sakta is media k door main.
Pakistan
Jis nay sadarti khitab kiya us ka koi zikar nahi brother-e-aziz kiyon ?
ہماری پیشکش