0
Thursday 31 May 2012 11:37

مغربی ممالک کے نمائندوں سے ڈاکٹر جلیلی کا غیر متوقع سوال

مغربی ممالک کے نمائندوں سے ڈاکٹر جلیلی کا غیر متوقع سوال

اسلام ٹائمز- "خواتین و حضرات، آیا آپ جانتے ہیں کہ آج کون سا دن ہے؟" یہ وہ سوال تھا جو 5+1 گروپ کے ساتھ ایران کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر جلیلی نے بغداد مذاکرات کی ایک میٹنگ کے آغاز میں مغربی ممالک کے نمائندوں سے پوچھا۔ یہ ایک غیرمتوقع سوال تھا اور مغربی ممالک کے نمائندوں نے جو مذاکرات کے اصلی موضوعات کے ساتھ اس سوال کے تعلق سے لاعلم تھے انتہائی تعجب سے جواب دیا "آج بدھ 23 مئی 2012 کا دن ہے"۔ ڈاکٹر جلیلی نے کہا "اور 3 خرداد، یعنی ایگزیکٹ وہی دن جس دن تیس سال قبل ہم نے خرم شہر کو صدام حسین کے زمانے میں عراق کے چنگل سے آزاد کروایا تھا"۔ اسکے بعد انہوں نے تفصیل سے بیان کیا کہ کس طرح 5+1 گروپ کے ممالک اور اس دور کی دنیا کی دوسری چھوٹی اور بڑی طاقتیں اپنی تمام تر جنگی صلاحیتوں اور مشینری کے ساتھ صدام حسین کی حمایت میں مصروف تھیں، جرمنی کے لیوپارڈ ٹینک، برطانیہ کے چفٹن، فرانس کے اگزو تھری میزائل، میراج جنگی طیارے اور سپراٹینڈرڈ، روس کے میگ جنگی طیارے اور اسکڈ بی میزائل، جرمنی اور برطانیہ کے کیمیکل بم، امریکہ کے سائڈ بائنڈر میزائل اور اواکس جاسوسی طیارے، سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات کے ڈالرز وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ صدام حسین کے اختیار میں تھے اور ہم اپنے مرحوم پیشوا امام خمینی رہ کے بقول بالکل اکیلے رہ گئے تھے، لیکن آپ لوگوں نے دیکھا کہ ہم نے وہ انتہائی مشکل وقت بھی کامیابی سے گزارا اور آج صدام کہاں ہے؟ اور ہم کس جگہ کھڑے ہیں؟۔ آج خرم شہر کی مقتدرانہ آزادی کے دن جبکہ عراق کی حکومت اسکے مظلوم عوام اور ہمارے اسٹریٹجک دوستوں کے ہاتھ میں واپس آ چکی ہے، صدام حسین کے محل صدارت میں ہم آپ سے مذاکرات کر رہے ہیں"۔
ڈاکٹر جلیلی نے مزید کہا "ان دنوں جب دنیا کی تمام طاقتیں ایک طرف اور اسلامی جمہوریہ ایران ایک طرف کھڑا تھا، ہم مغربی غنڈوں اور خطے میں انکے مشرقی حامیوں کے سامنے نہیں جھکے تھے، لہذا آپ لوگوں کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ آج جب ہم طاقتور ہو چکے ہیں آپ لوگوں کو بھتہ دیں گے اور آپ لوگوں کے غیرقانونی اور ناجائز مطالبات کو قبول کر لیں گے"۔
برطانیہ کے معروف فلاسفر برٹرنڈ رسل کہتے ہیں "مجھے ایسے افراد کی حماقت سے تعجب ہوتا ہے جو اپنے سامنے دسیوں راستوں میں سے صرف وہ راستہ اختیار کرتے ہیں جسکے بے نتیجہ ہونے کو وہ کئی بار آزما چکے ہیں، نہیں معلوم وہ اپنی غلطیوں کو دہرانے پر مصر کیوں ہیں؟"۔
اسی طرح جرمنی کے معروف ڈرامہ نگار اور شاعر برتھولت برشت اپنے ایک ڈرامے کے مین کردار کے بقول کہتے ہیں "انتہائی شرمناک ہے، کیوں اب تک نہیں سمجھے کہ آپ ایک شخص سے تو ہمیشہ جھوٹ بول سکتے ہیں اور سب افراد سے ایک بار تو جھوٹ بول سکتے ہیں لیکن ہر گز سب افراد سے ہمیشہ جھوٹ نہیں بول سکتے"۔
اسلامی جمہوریہ ایران اور 5+1 گروپ اور اس سے قبل جرمنی، فرانس اور برطانیہ پر مشتمل یورپی ٹرائیکا کے درمیان نیوکلیئر مذاکرات اگرچہ دس سال سے جاری ہیں لیکن اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ ایران نے تہران میں اکتوبر 2003 کو برگزار ہونے والے اجلاس سے لے کر اگست 2005 تک اپنی تمام تر نیوکلیئر سرگرمیوں کو رضاکارانہ طور پر معطل کر دیا تھا تاکہ طرف مقابل کا اعتماد حاصل کیا جا سکے لیکن مغربی ممالک نے بے حاصل میٹنگز اور اجلاس کے ذریعے اس فرصت کو ضائع کر دیا۔ پہلے مرحلے میں جب ایران کی تمام تر نیوکلیئر سرگرمیاں رکی ہوئی تھیں تو مغربی ممالک کی جانب سے وقت کا ضیاع ایران کے نقصان میں تھا۔ لیکن اگست 2005 کے بعد جب ایران نے اصفہان میں موجود یو ایف سی فیکٹری کو چلا دیا، تو مغربی قوتوں کی جانب سے دھمکیوں کے باوجود حالات ایران کے حق میں بہتر ہو گئے۔ اس مرحلے میں جو اگست 2005 سے شروع ہوا اور ابھی تک جاری ہے، وقت کا ضیاع ایران کے مدمقابل مغربی قوتوں کے نقصان میں ثابت ہوا ہے۔ کیونکہ ایران نے سلامتی کونسل کی غیرقانونی قراردادوں اور امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے یکطرفہ پابندیوں کی پرواہ کئے بغیر نہ فقط اپنی نیوکلیئر سرگرمیوں کو بین الاقوامی ایٹمی تونائی ایجنسی کی براہ راست نگرانی کے تحت جاری رکھا بلکہ ایسی حیرت آور کامیابیاں بھی حاصل کیں جو ایران کی مدمقابل مغربی قوتوں کیلئے ناقابل یقین ہیں۔
امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے جب یہ دیکھا کہ ایران کے خلاف پابندیاں بے اثر ہیں یا اگر انکا کوئی اثر بھی ہے تو وہ انتہائی کم ہے اور دوسری طرف انہوں نے خود کو خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک، مغربی ممالک میں سنگین معاشی بحران، مشرق وسطی اور شمال افریقہ میں اپنے اسٹریٹجک حامیوں کی سرنگونی، عراق اور افغانستان میں فوجی شکست، ۳۳ روزہ اور ۲۲ روزہ جنگوں میں اسرائیل جو خطے میں مغربی فوجی اڈے کی حیثیت رکھتا ہے کی عبرتناک شکست اور دوسری شدید مشکلات سے روبرو پایا تو انتہائی مجبوری اور لاچاری کے عالم میں ایران سے گذشتہ ۱۵ ماہ سے توقف کا شکار مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن مغربی قوتیں اپنی توقع کے برخلاف اور شاید ایک حد تک اسکی پیش بینی کرتے ہوئے، استنبول اور بغداد میں برگزار ہونے ولی دو مذاکراتی نشستوں میں ایک ایسی فولادی دیوار سے روبرو ہوئے جو ایران کی مذاکراتی ٹیم نے اپنی مسلمان اور انقلابی قوم کی نمائندگی میں انکے سامنے تعمیر کر رکھی تھی۔
استنبول اور بغداد میں انجام پانے والی ان دو مذاکراتی نشستوں کا سرسری جائزہ لینے اور مغربی دنیا کو درپیش شدید اقتصادی بحران اور خطے کے حالات پر ایک نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ بغیر کسی گزافہ گویی اور مبالغہ آرائی کے ایران کو اس دس سالہ نیوکلیئر پروگرام سے متعلق مذاکراتی چیلنج پر خاصی برتری حاصل ہو چکی ہے۔
لہذا ہم آسانی سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اس وقت ایران سے مذاکرات مغربی ممالک کی ضرورت ہے اور وہ اپنی اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ایران کو مراعات دینے پر مجبور ہیں۔ یہ وہ نتیجہ ہے جسکا دشمن بھی انکار نہیں کرتے۔ یہ حقیقت اب بہت واضح ہو چکی ہے اور ان مذاکرات پر ایران کی برتری اسلامی جمہوریہ ایران کے روشن مستقبل کی نوید دلاتا ہے۔ یہ برتری ایران کی گذشتہ دس سال کے دوران شدید اور عقلمندانہ مزاحمت اور ثابت قدمی کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی کوشش ہے کہ وہ اپنی لرزان پوزیشن کو بعض ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے مضبوط بنائیں۔ ان ہتھکنڈوں میں ایران کے اندرونی اور بیرونی معاملات شامل ہیں۔
ان دوطرفہ ہتھکنڈوں کا ایک حصہ امریکی اور اسرائیلی حکام کی جانب سے اپنی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے ایران کے خلاف دھمکیوں پر مشتمل ہے۔ دوسری طرف امریکہ ایران کے اندر موجود اپنے ففتھ کالم کی مدد سے اقتصادی اور سیاسی مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران کے خلاف دھمکیوں کے بے اثر اور فضول ہونے کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور اسکے بارے میں مستند رپورٹس بھی پیش کی جا چکی ہیں۔ ایران کے اندر ہم ایک پراسرار موومنٹ جو ایک حد تک جانی پہچانی بھی ہے کے شاہد ہیں جو مربوطہ مسئولین کی کم توجہی اور غفلت کی وجہ سے سرگرم عمل ہے۔ اس موومنٹ کے افراد اپنے بیرونی آقاوں کے اشاروں پر ایک طرف تو اس کوشش میں مصروف ہیں کہ ملک کی معاشی صورتحال کو ایران اور 5+1 گروپ کے درمیان مذاکرات کے نتائج سے مربوط ظاہر کریں اور دوسری طرف جین شارپ اور بروس جنکینز کے بقول جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب "انٹی کاوپ" میں لکھا ہے، اپنے اس تصور کو حقیقی ظاہر کرنے کیلئے سرگرم عمل ہو جائیں اگرچہ یہ فعالیت انتہائی کمزور حد تک ہی کیوں نہ ہو۔ یہ پراسرار موومنٹ، جو ناشناختہ بھی نہیں ہے، ایک مافیا کی مدد سے عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں کو ایک دم سے اوپر لے جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے ایران کے خلاف قرارداد نمبر 1929 کے صدور کے بعد واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ یہ قرارداد ایران کے ساتھ دوسرے ممالک کی تجارت پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتی۔ اسی طرح امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے وال اسٹریٹ جورنل کے نمائندے کی جانب سے واشنگٹن پوسٹ کی اس رائے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ "میں مانتی ہوں کہ آج کی دنیا میں اور عالمی منڈی میں ایسے ملک کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنا جو سالانہ کئی سو ارب ڈالر کی تجارت کر رہا ہو آسان کام نہیں، لیکن سلامتی کونسل کی یہ قرارداد ایرانی عوام کی نظر میں ملک کے معاشی مستقبل کے تصور پر اثرانداز ہو سکتی ہے اور اس طرح ایرانی مسئولین کو بین الاقوامی اصولوں کا تابع ہونے پر مجبور کر سکتی ہے"۔

خبر کا کوڈ : 166526
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش