0
Friday 1 Jun 2012 13:50

امام خمینی، 14صدیوں بعد اسلامی تعلیمات کا کرشمہ

امام خمینی، 14صدیوں بعد اسلامی تعلیمات کا کرشمہ
تحریر: ثاقب اکبر

3 جون کو امام خمینی رہ کی تینتیسویں برسی منائی جا رہی ہے۔ تینتیس برس قبل جو ”پیر“ ہم سے رخصت ہوا، نہ صحنِ دل سے جا سکا اور نہ عرصہ سیاست سے۔ امام خمینی رہ کا وجود ایک تحریک اور جذبے کی صورت میں آج بھی وسعت پذیر ہے۔ ان کانام انقلاب در انقلاب کے لیے ایک انگیخت بن چکا ہے۔ ان کی بصیرت ہر روز نئے پرت ہٹنے سے مزید نورافگن ہوئے چلی جاتی ہے۔ روحانیت وعرفان کی دنیا کے شناور بھی زیر لب بالائے لب ان کے لیے زمزمہ سنج رہتے ہیں:
آنکھوں سے دُور ہو جا کے بھی دل سے نہ جا سکا
 
1978ء کی بات ہے، ایران میں تحریک زوروں پر تھی، قربانیوں کے سلسلے جاری تھے۔ مریدان باصفا کی مراد پیرس کے مضافات میں تھی۔ استاد مرتضیٰ مطہری اپنے استاد مہربان و دل کشاد سے ملاقات کے لیے ایک وفد کے ہمراہ پیرس گئے تھے۔ واپس آئے تو لوگوں کے سوالات کی بوچھاڑ تھی۔ ایک جواب میں کہنے لگے:
”میں اس سے مل کر آیا ہوں کہ وہ جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان رکھتا ہے۔“
واقعاً ”خمینی“ کی جگہ ”ایمان کی قوت کا ایک مظہر“ لکھ دیا جائے تو صد در صد درست ہوگا۔ ”خمینی“ عصر حاضر میں قوت ایمان کے ایک مظہر کا نام ہے۔ اللہ، رسول اور قرآن پر ایمان، وہی ایمان جو دل کی دنیا بدل دیتا ہے اور جب دل کی دنیا بدلتی ہے تو ”مومن“ ایک دنیا کو بدلنے کی توانائی حاصل کر لیتا ہے۔
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
 
اور مسلمان جو ایمان کی فضا سے گزر کر عشق و عرفان کی فضا سے آشنا ہوتا ہے تو کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ اسلام اور ایمان معجزے دکھاتا ہے۔ ماضی میں بھی دکھاتا رہا ہے اور آج بھی دکھا رہا ہے۔ سچ ہے ماضی میں ایسے پیکر زیادہ ڈھلتے دکھائی دیتے تھے لیکن گیتی ایمان بانجھ نہیں ہو گئی، اب بھی اعلٰی درجے کے باایمان سپوت عرصہ ظہور میں قدم رکھتے ہیں۔ پیک وحی کے پیغام کی صداقت انہی سپوتوں کے وجود سے تصدیق اور پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے۔
وَالسّٰبِقُو±نَ السّٰبِقُو±نَO اُو±لٰٓئِکَ ال±مُقَرَّبُو±نَ O فِی± جَنّٰتِ النَّعِی±مِ O ثُلَّةµ مِّنَ ال±اَوَّلِی±نَ O وَقَلِی±لµ مِّنَ ال±اٰخِرِی±نَO (واقعہ:۰۱تا۴۱)
اور سبقت لے جانے والے جو سبقت لے جانے والے ہیں، وہی جو بارگاہِ الٰہی میں قربت حاصل کرنے والے ہیں، نعمتوں بھرے باغات میں ہیں، ان میں سے ایک گروہ اولین میں سے ہے اور کچھ تعداد میں آخرین میں بھی۔
 
امام خمینی رہ کو دنیا زیادہ تر ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی، اولین رہبر اور مرشد اول کے عنوان سے جانتی ہے۔ یہ عنوان بھی درست ہے، لیکن عرفان خمینی کے لیے نہایت ناکافی ہے۔ امام سید روح اللہ الموسوی الخمینی کو جاننے پہچاننے کے لیے کچھ کوشش کی ضرورت ہے۔ ”عنقائے مضمون“ اتنی آسانی سے ہاتھ نہیں آتا۔ شہید سید مصطفٰی الموسوی کا یہ فرزند بہت سے پہلو رکھتا ہے۔ شہیدوں کے ذکر سے معمور فضا میں پروان چڑھنے والا انسان مادی زندگی کی حرص آلود فضا میں پرورش پانے والوں کی طرح نہیں ہوسکتا۔ علم و عرفان، تقوی و تفقہ، ادب واخلاق سب کچھ تو ان کے گھر میں تھا۔ شب زندہ داروں کی گود میں پروان چڑھنے والا خمینی عام انسان سے مختلف تھا تو اس میں کیا تعجب ہے۔
 
سیاست کی دنیا کے امام بننے سے پہلے بھی امام خمینی رہ فقہ و اصول میں فقاہت واجتہاد کے بلند ترین درجے پر پہنچنے والے نابغہ روزگار افراد میں سے جانے اور پہچانے جاتے تھے۔ اصول و فقہ میں ان کی نو آوریوں اور جدت طرازیوں کا ذکر پہلے سے علمی محفلوں میں موجود تھا۔ ان کے مقام فقاہت ہی کی وجہ سے کروڑوں انسان ان کی تقلید کرتے تھے اور انھیں اپنا مرجع جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم شاہی کے خلاف جب انھوں نے قیام کیا تو ایرانیوں ہی کے لیے نہیں، بیرون ملک بھی ان کے کروڑوں مقلدین اور ہزاروں شاگردوں کے لیے یہ نام غیر مانوس نہ تھا۔ اصول و فقہ میں ان کی کتب میں ان کے افکار آج بھی اجتہاد کے اعلٰی دروس میں زیر بحث رہتے ہیں اور بعض فقہا نے انہی کی کتابوں کو اپنے دروس اجتہاد کے لیے متن قرار دے رکھا ہے۔ ان کے دورہ فقہ ”تحریر الوسیلہ“ کی چاروں جلدوں کا اردو میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔
 
اصول و فقہ کے اعلٰی ترین دروس کے علاوہ امام خمینی رہ کا درس اخلاق خاص شہرت اور محبوبیت رکھتا تھا۔ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اٹھنے والی آواز دلوں میں جا سماتی تھی۔ اخلاق و عرفان کے موضوع پر ان کی کتابوں نے بہت شہرت حاصل کی ہے۔ ”اسرار الصلوة“ ان کتب میں سے بہت مقبول ہے۔ شاید اس لیے بھی کہ اس میں فلسفی اصطلاحات نہیں ہیں۔ سادہ عرفانی و اخلاقی نکات کے بیان سے نماز کی اہمیت و عظمت آشکار کرتی ہے۔
 
فلسفے میں امام خمینی رہ ملا صدرا کے مکتب کو فروغ دینے والے اور خود ایک بہت بڑے فلسفی تھے۔ ملا صدرا جن کا نام سید صدرالدین شیرازی ہے، سے امام خمینی رہ کی عقیدت کا اظہار اس ایک بات سے ہی ہو جاتا ہے کہ سوویت یونین کے سابق صدر گوربا چوف کو دعوت ایمان بالغیب دینے کے لیے امام خمینی رہ نے جو مکتوب لکھا، اس میں اسے ملا صدرا کے افکار کے مطالعے کی دعوت دی اور سید صدرالدین شیرازی کے نام کے ساتھ لکھا ”حشرہ اللہ مع النبیین والصالحین“۔
 
عرفان نظری میں امام خمینی رہ شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی کے مکتب کے مروج تھے۔ ان کا نام نامی بھی گوربا چوف کے نام لکھے گئے مکتوب میں موجود ہے۔ دونوں بزرگوں کی تاثیر امام خمینی رہ کی عرفانی، فلسفی اور اخلاقی کتب میں دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سطح بینوں نے امام خمینی رہ کو ایک ”صوفی“ کہہ کر مسترد کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں ان سطح بینوں کا بھی قصور نہیں، عرفان کی اپنی ایک خاص زبان ہے جو ہر کسی کو سمجھ نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک گروہ ایک شخص کو ”محی الدین“ کہتا اور سمجھتا ہے اور دوسرا گروہ اسی شخص کو ”ممیت الدین“ کہتا اور سمجھتا ہے۔ حافظ شیرازی کا بھی یہی حال ہے۔ کوئی انھیں عرفانی مطالب اور کیفیات کا ترجمان جانتا ہے اور کوئی انھیں شاعر لہو و لعب سمجھتا ہے۔ زمین تا آسمان فرق دارد
 
امام خمینی رہ کے چند عرفانی مکتوبات بھی ہیں۔ گہرے اور دلنشین مطالب کے حامل۔ ان کی بہو فاطمہ طباطبائی جنھیں پیار سے امام ”فاطی“ کہتے تھے، نے فرمائش اور اصرار سے ایک عرفانی مکتوب امام خمینی سے لکھوایا جو یہاں سے شروع ہوتا ہے۔
فاطی کہ زمن نامہ عرفانی خواست
از مورچہ ای تخت سلیمانی خواست

راقم نے پورے مکتوب کا ترجمہ اردو میں کیا ہے۔ مذکورہ شعر کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے:
فاطی مجھ سے خواہشِ مکتوب عرفانی کرے
ایک چیونٹی سے طلب تختِ سلیمانی کرے 

امام خمینی کا شعر آگیا تو ان کے دیوان کی یاد تازہ ہو گئی۔ امام خمینی ایک قادر الکلام اور پرتاثیر شاعر ہیں۔ ان کے دیوان کا اردو میں منظوم ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس میں عمیق، عاشقانہ اور عرفانی مطالب ہیں۔ ایک غزل کے چند شعر:
از تو جانان جفا وفا باشد
پس دگر من وفا نمی خواہم
تو صفای منی تو مروہ ی من
مروہ را با صفا نمی خواہم
صوفی از وصل دوست بی خبراست
صوفی بی صفا نمی خواہم
ہے وفا ہی، تری جفا جاناں!
بس میں ہرگز وفا نہیں چاہوں
مجھ کو تو ہی صفا و مروہ ہے
ہر دو، مروہ، صفا نہیں چاہوں
بے خبر وصل یار سے صوفی
صوفیِ بے صفا نہیں چاہوں 

دنیا کو سیاست کی نئی سبیل سے آشنا کرنے والا، مادی تصور کائنات کے بجائے روحانی تصور کائنات کی بنیاد پر تشکیل حکومت کرنے والا، مجاہد فی سبیل اللہ، فرزند شہید و پدر شہید امام خمینی رہ کتابوں کی دنیا سے نکل کر باہر آجانے والا اسلامی تعلیمات کا سَچّاور سُچّا پیکر تھا۔ بیداری اسلامی کی بڑھتی ہوئی لہر جو یکے بعد دیگرے بڑے بڑے بتوں کو گرائے چلی جاتی ہے اسی کے نفس گرم سے پھوٹی ہے۔ ایک روز اساتذہ کا ایک وفد امام خمینی رہ سے ملاقات کے لیے حسینیہ جماران میں پہنچا۔ معلمین کے نمائندے نے پیر جماران سے مخاطب ہو کر جو تقریر کی اس میں ایک جملہ کچھ یوں تھا:
”آپ نے بہت بڑے بت کو توڑا ہے اور کلہاڑا ابھی آپ کے کندھے پر ہے۔“ 

استاد عزیز نے سچ کہا، فرزند ابراہیم ع کے کندھے پر کلہاڑا آج بھی باقی ہے۔ وہ ہر مرحلے پر ایک بڑے بت کو توڑ کر کلہاڑا پھر اپنے کندھے پر رکھ لیتا ہے۔ خمینی بت شکن ”قدم کچھ آگے بڑھا رہا ہے، تھکا نہیں ہے، وہ تازہ دم ہے۔“
راتوں میں مصلے پر راز ونیاز کرنے والے اور دن کو سپاہیان راہ خدا کے سپہ سالار خمینی رہ کے سپاہی فقط ایران میں نہیں ہیں۔ مختلف ملکوں میں جوانوں، بہادروں اور کہن سال جوانمرد اہل دانش و بینش کے تازہ دم قافلے اس قافلے سے مل رہے ہیں۔ مستکبرین پر مستضعفین کے غلبے کی پیش گوئی کرتے ہوئے اسلام اور قرآن کا پرچم تھامے خمینی آگے آگے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 167405
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش