3
0
Thursday 7 Jun 2012 00:18

ملی یکجہتی کونسل کا احیاء، توقعات اور تحفظات

ملی یکجہتی کونسل کا احیاء، توقعات اور تحفظات

تحریر: سید اسد عباس تقوی 

                                           کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
                                          یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
4 جون 2012ء کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے ایک اعلٰی سطحی اجلاس میں مذہبی جماعتوں، اداروں اور مشائخ کے نمائندوں نے ملی یکجہتی کونسل کی عبوری مرکزی کابینہ، سیکریٹریٹ اور ذیلی مجالس کا باقاعدہ اعلان کیا۔ پاکستان کے مذہبی حلقوں بالخصوص فعال مذہبی جماعتوں کا یہ نمائندہ اجلاس فرقہ واریت اور شدت پسندی کے شکار پاکستانی معاشرے کے لیے ایک تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔ محترم قاضی حسین احمد اور ان کے تمام رفقائے کار اس سلسلے میں خراج تحسین کے مستحق ہیں، جنھوں نے امت کے درد مشترک اور اقدار مشترک کے لیے یہ قابل تحسین قدم اٹھایا اور السابقون السابقون کے درجات عالیہ سے سرافراز ہوئے۔ اس اجلاس میں دینی جماعتوں، اداروں اور شخصیات کے مابین پائی جانے والی اتحاد و یکجہتی کی تڑپ قابل دیدنی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا تسبیح کے بکھرے ہوئے دانے ایک لڑی میں پروئے جانے کو بے تاب ہوں۔ جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد جس کام کا بیڑا جناب قاضی حسین احمد صاحب نے اٹھایا ہے، خدا وند کریم ان کی اس سلسلے میں راہنمائی بھی فرمائے اور مدد بھی۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دینی حلقے کا یہ اتحاد معاشرے میں کس قسم کے فوائد کا حامل ہوگا، نیز اس کے مقاصد کی راہ میں حائل رکاوٹیں کیا ہیں؟ اتحاد و یگانگت کے بارے میں تو شاید کسی وضاحت کی ضرورت نہ ہو، تاہم پھر بھی ہمیں زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یگانگت کی بارکیوں کو کریدنا چاہیے، تاکہ منزل اور ہدف کا حصول آسان تر ہو۔ ملی یکجہتی کونسل میں شامل تمام جماعتوں اور گروہوں کا یوں ایک چھت تلے جمع ہو کر ملت کے وسیع تر مفاد میں غور و فکر کرنا ایک عنایت الٰہی ہے، جس سے یقیناً قربتوں میں اضافہ ہوگا اور دوریوں کی خلیج کم سے کم تر ہو گی۔ انما المومنون اخوة کے شعار کے تحت اکٹھے ہونے والے پاکستان کے مذہبی حلقے کا یہ نمائندہ اجتماع یقیناً دشمن کی افتراقی سازشوں کے اثرات کم کرنے میں بھی ممد و معاون ہوگا، علاوہ ازیں ملک میں موجود دین دار طبقے اور عالمی سطح پر دین اسلام کی بالادستی کے لیے کام کرنے والی قوتوں کے لیے یہ اتحاد امید کی ایک کرن ہے۔

میری نظر میں ملی یکجہتی کونسل کا احیاء تحریک پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والے ان لاکھوں مسلمانوں کے دل کی آواز ہے، جنھوں نے لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کیا۔ دینی حلقے کا یہ نمائندہ اجتماع فقط استحکام پاکستان کی کوششوں کا تسلسل ہی نہیں بلکہ تکمیل پاکستان کی سرنوشت بھی ہے۔ ہمارے اختلافات چاہے کتنے ہی وسیع کیوں نہ ہوں، جب ہم مل بیٹھیں گے تو یقیناً کوئی راہ حل ضرور تلاش کر لی جائے گی۔ مزید برآں دینی حلقوں کا مشترکہ مقاصد کے لیے مجتمع ہونا دنیا میں موجود اسلامی بیداری کا بھی ایک تسلسل ہے۔
 
جیسا کہ قرائن سے واضح ہے کہ آج دنیا کے ایک بڑے طبقے پر واضح ہو چکا ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے مادی قوانین اور نظام اس کے فطری تقاضوں کی سیرابی اور ذہنی و روحانی تشفی کے لیے ناکافی ہیں۔ کمیونزم کا زوال اور اس کے بعد آج کے مغربی معاشرے میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اٹھنے والی آواز نے اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا ہے کہ انسانیت کا ایک بڑا حصہ آج بھی ایسے نظام کا متلاشی و متقاضی ہے، جو معاشرے میں عدل و انصاف اور مساوات کو فروغ دیتے ہوئے اس کے فطری تقاضوں کی سیرابی کا بھی فریضہ سر انجام دے سکے۔

کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے بعد ذہن انسانی اور تاریخ بشریت کا واحد اثاثہ اسلام کا وہ آفاقی نظام ہے جس کو بدقسمتی سے آج تک صحیح انداز سے بشریت کے سامنے متعارف نہیں کرایا جا سکا۔ اسلام ہی وہ طرز زندگی ہے جو الہی قوانین پر مشتمل ہونے کے باعث انسان کی کے فطری، روحانی اور مادی تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

البتہ! سوال یہ ہے کہ آیا دینی جماعتوں، مذہبی اداروں، مشائخ عظام اور نمائندہ مذہبی شخصیات پر مشتمل یہ کونسل پاکستانی معاشرے میں اتحاد و یگانگت کی فضا کو فروغ دینے کے علاوہ کسی سیاسی کردار کی بھی حامل ہو سکتی ہے۔؟ کیا پاکستانی شہری اس مذہبی قیادت کو ملکی و معاشرتی مسائل کے حل کے لیے متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں۔؟ کیا آئندہ انتخابات میں ایم ایم اے کی مانند ملی یکجہتی کونسل کسی نئے نام یا ایم ایم اے کے عنوان سے ہی وارد میدان ہو گی؟ وغیرہ۔ 

اس قبیل کے کئی سوال ہمارے ذہنوں پر دستک دیتے ہیں اور یہی وہ سوالات ہیں جو ملی یکجہتی کونسل کے، پاکستان میں بالادستی اسلام اور نفاذ شریعت کے سفر کو کٹھن بناتے ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل اگرچہ کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں، تاہم شریعت کے نفاذ کو اپنے اعلامیہ میں اہم حیثیت دینے سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ ملی یکجہتی کونسل کی صورت میں متشکل ہونے والا یہ اتحاد ملک میں شریعت کے نفاذ کی ہر پرامن کوشش کو بروئے کار لائے گا، جس میں انتخابات کے ذریعے پارلیمنٹ اور سینیٹ تک رسائی کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمیں اس امر کو قبول کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کہ فی الحال پاکستانی معاشرے کا ایک بڑا حصہ مذہبی قیادت کی حکومتی امور کو سنبھالنے کی استعداد کے بارے میں تحفظات رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سوائے ایک دفعہ کے کبھی بھی مذہبی جماعتیں اور دین دار حلقہ قانون ساز اداروں تک موثر رسائی نہ حاصل کر سکا۔ 

ضرورت اس امر کی ہے کہ تکلفات اور ظاہری مراسم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، عام شہری کے ذہن میں دینی قیادت کے بارے میں پائے جانے والے منفی تصورات اور نفاذ شریعت کے بارے میں پائے جانے والے تحفظات کو دور کیا جائے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کے تناظر میں معاشرے کو ایک ایسا لائحہ عمل مہیا کیا جائے، جس سے عوام کے ذہنوں میں موجود تحفظات کا ازالہ ہو سکے، تاکہ وہ آئندہ ملک کو لٹیروں اور آزمائے ہوئے مہروں کے ہاتھوں میں سونپنے کے بجائے ایک متقی اور صالح قیادت کے سپرد کریں۔
 
جو ملک کی وفادار بھی ہوں اور عوام دوست بھی۔ اس سلسلے میں ملی یکجہتی کونسل اور اس کی رکن جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اعلٰی اہداف کے مدنظر عام پاکستانی تک رسوخ حاصل کریں، نیز اقتصادی، معاشرتی اور حکومتی امور کے ماہرین پر مشتمل ایک ایسی باڈی تشکیل دیں جو پاکستان سے مخلص ہو۔ ان ماہرین کا مسلکی پس منظر اور وسعت چاہے کچھ بھی ہو، ان کی ذمہ داری ہو کہ وہ آئندہ چند ماہ میں ملک میں نفاذ اسلام کا ایک ایسا معتدل منشور وضع کریں جو عام شہری بالخصوص تمام مذہبی طبقات کے نفاذ شریعت کے حوالے سے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کیا جائے۔

اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر نفاذ اسلام کے اعلٰی مقاصد کے مدنظر علاقائی سطح پر ایسی متقی اور صالح قیادت مہیا کی جائے، جو اسلام کی حقیقی تعلیمات کے نفاذ میں ممد و معاون ہو۔ یہ ایک بڑا کام ہے، تاہم ہر بڑے کام آغاز ہمیشہ ایک چھوٹے سے اقدام سے ہوتا ہے۔ خدا پر ایمان اور دین اسلام کے نفاذ کی تڑپ دل میں بسا کر کسی بھی مشکل کو سر کرنا ناممکن نہیں۔ ہمیں توقع کرنی چاہیے کہ محترم قاضی حسین احمد اور ان کے رفقائے کار جو میدان سیاست کے شہسوار ہونے کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی تڑپ سینوں میں بسائے ہوئے ہیں، یہ قدم اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ (آمین)
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی
عروق مردہ مشرق میں خون زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریا سے، ہی ہے گوہر کی سیرابی

خبر کا کوڈ : 168854
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ماشاءاللہ
Pakistan
شکریہ
Germany
Pta ni ap se kis ne keh dia k islam vote se nafiz ho skta ha? Kia ap mjhy koi misaal de skty han k dunya ma kisi bhi jaga islam vote k zariye nafiz hoa ho?agar ko islami party election jeet bhi jai to hakumat ma a kr wo maslehaton k shikar rhy gi kbhi kisi ko khosh krna to kbhi kisi ko aur kbhi ghair taqaten mudakhlat kren gi to aisi halat ma kia islam nafiz ho skta ha?islam k nizam bari taqato ko asani se hazam ni ho skta wo is raah m hamesha rukawat bny ge to islam nafiz krny ka wahid rasta taqat ha sirf taqat!
ہماری پیشکش