0
Saturday 9 Jun 2012 22:35

مصر میں بازی کس کے ہاتھ رہے گی

مصر میں بازی کس کے ہاتھ رہے گی
تحریر: ثاقب اکبر 

مصر میں گذشتہ ماہ کے آخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں کوئی امیدوار بھی واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکا تاہم اخوان المسلمین کے امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی پہلے نمبر پر رہے جبکہ سابق صدر حسنی مبارک کے آخری دور میں وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے احمد شفیق دوسرے نمبر پر رہے۔ نتائج کی اس کیفیت کے پیش نظر صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ کا اعلان کیا گیا ہے جو 15 ،16 جون 2012ء کو ہو گی۔ 

پہلے مرحلے میں پہلے نمبر پر آنے والے محمد مرسی نے تقریباً 26% اور دوسرے نمبر پر آنے والے احمد شفیق نے 24% ووٹ حاصل کیے ہیں۔ انتخابات کے نتائج میں بہت سے امور کو حیران کن قرار دیا جا رہا ہے۔ انتخابات کے لیے پہلے مرحلے پر بنائے جانے والے قانون کے مطابق جنرل احمد شفیق انتخاب لڑنے سے نااہل قرار پائے تھے کیونکہ وہ حسنی مبارک کی حکومت میں وزیراعظم رہے تھے اور قانون کے مطابق وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے تھے تاہم بعد ازاں حیلوں بہانوں سے انھیں انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی گئی تھی کیونکہ انھیں صدارتی محل میں براجمان فوجی جنتا کے علاوہ حسنی مبارک کے آقائوں کی حمایت حاصل تھی۔ انھیں انتخاب لڑنے کی اجازت دیئے جانے کے خلاف بھی مصری عوام نے مظاہرے کیے تھے۔ 

دوسرے مرحلے میں احمد شفیق کو کامیاب کروانے کے لیے اس وقت حسنی مبارک کے تمام عالمی اور علاقائی سرپرست مصروف کار ہیں۔ اس وقت بہت سے عرب دارالحکومتوں میں اخوان المسلمین کے امیدوار کی ممکنہ کامیابی کے حوالے سے شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ رجعت پسند حکومتوں کے ترجمان اور بہی خواہ چاہنے کے باوجود یہ تشویش نہیں چھپا پا رہے۔ گذشتہ دنوں متحدہ عرب امارات کے ایک وزیر نے کہا کہ اخوان المسلمین ہمارے لیے ایران سے زیادہ خطرناک ہے۔ 

اس سلسلے میں ایک عجیب اور حیران کن دستاویز بعض خبررساں اداروں کے ہاتھ لگی ہے۔ جہان نیوز ڈاٹ کام نے یہ دستاویز 9 جون کو جاری کی۔ یہ ایک خفیہ دستاویز ہے جو سعودی عرب کے وزیرخارجہ سعود الفیصل کی طرف سے مصر میں تعینات سعودی سفیر کے نام لکھا گیا مکتوب ہے۔ اس میں وہ قاہرہ میں سعودی سفیر کو حکم دیتے ہوئے کہتے ہیں: "خادم حرمین کے حکم کے مطابق میں آپ سے تقاضا کرتا ہوں کہ مصر میں اسلام پسندوں اور خاص طور پر اخوان المسلمین کے امیدوار کی کامیابی کو روکنے کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں کیونکہ مصر کے صدارتی انتخابات میں اس پارٹی کی کامیابی کی صورت میں مشرق وسطی میں سعودی عرب کی حیثیت خطرے میں پڑجائے گی۔ میں آپ سے تقاضا کرتا ہوں کہ ہر ممکن وسیلے کو بروئے کار لا کر اخوان المسلمین کی کامیابی کو روکیں اس سلسلے میں ہم آپ کی مدد کے لیے تمامتر کوششیں کریں گے۔ اس امر کی یاددہانی کروائی جاتی ہے کہ سکیورٹی کے قوانین کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مصر کے انتخابات کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹ دفتر امور خارجہ کو روانہ کریں۔ شکریہ کے ساتھ سعود الفیصل، وزیر امور خارجہ سعودی عرب"۔ 

یاد رہے کہ یہ خط پہلے مرحلے کے انتخابات سے قبل لکھا گیا تھا ظاہر ہے کہ دوسرے مرحلے میں سارا زور جنرل احمد شفیق کی کامیابی پر صرف کیا جائے گا لیکن کیا مصر کے عوام کی تقدیر میں یہی لکھا ہے کہ وہ آسمان سے گریں اور کھجور میں اٹکیں؟ وہ مصری عوام جنھوں نے اپنی طرف سے پارلیمانی انتخابات میں نام نہاد قوم پرستوں کو 20% اور اسلام پسندوں کو 75% ووٹ دیئے تھے کیا آخر کار ان کے انقلاب کو چرا لیا جائے گا؟ اس سوال سے بہت سارے سوالات وابستہ ہیں۔ اگر مصر میں احمد شفیق صدر منتخب قرار پاتے ہیں تو پھر" بیداری اسلامی" کہیے یا "بہار عرب" نتیجہ یہی ہو گا کہ منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ لیکن کیا ایسا ہی ہو گا؟ آئیے کچھ جائزہ لیتے ہیں۔ 

۱۔ انتخابات کے نتائج کے بعد مصر کے عوام کی ایک قابل ذکر تعداد قاہرہ کی سڑکوں پر نکل آئی۔ عوام کا کہنا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی ہے۔ عوام نے احمد شفیق کے انتخابی دفتر پر ہلہ بول دیا اور اسے آگ لگا دی۔ ایسے ہی بڑے مظاہرے مصر کے دیگر بڑے شہروں میں بھی ہوئے جن میں اسکندریہ، اسماعیلیہ اور پورٹ سعید شامل ہیں۔
 
۲۔ اسی اثنا میں عدالت نے مصر کے سابق آمر حسنی مبارک کو عمر قید جبکہ اس کے بیٹوں کو بےگناہ قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے کو مصری عوام نے حسنی مبارک کی حمایت اور اسے بچانے کی تدبیر قرار دیا ہے جس کی وجہ سے عوام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف بھی اپنا ردعمل ظاہر کرنے کے لیے عوام میدان تحریر میں نکل آئے۔ احمد شفیق نے اس فیصلے کی حمایت کی ہے جبکہ ڈاکٹر مرسی نے اعلان کیا ہے کہ وہ برسراقتدار آ کر مبارک اور اس کے ساتھی خیانت کاروں کے خلاف نئے سرے سے مقدمہ چلائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہم شہداء کے خون کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔
 
۳۔ حسنی مبارک کے بارے میں ہونے والے عدالتی فیصلے سے متعلق عوامی نقطہ نظر کے خلاف موقف اختیار کرکے جہاں احمد شفیق نے اپنی حیثیت مشکوک بنائی ہے وہاں سعودی عرب کی حمایت یافتہ تنظیم ـ"النور" نے بھی ایک بیان میں عدالتی حکم کی تائید کی ہے جس سے اس کے حلقہ حمایت پر یقینا منفی اثر پڑے گا۔
 
۴۔ النور کے لیے سب سے مشکل مرحلہ کھلے بندوں احمد شفیق کی حمایت کا ہے۔ اگر یہ پارٹی خاموشی اختیار کرتی ہے تو یہ بھی اس کے مفاد میں نہیں ہو گا اور اگر کھلے بندوں احمد شفیق کی حمایت کرتی ہے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ تنظیم گذشتہ نظام کے تسلسل کے لیے معرض وجود میں لائی گئی ہے۔  

۵۔ فوجی جنتا کے پاس احمد شفیق کو کامیاب کرانے کے لیے انتخابات میں دھاندلی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔ ہمسایہ ممالک جو مبارک کے دوست رہے ہیں انھیں بھی کھلا موقف اختیار کرنا پڑے گا۔
 
۶۔ دوسرے مرحلے کے صدارتی انتخابات سے پہلے حسنی مبارک کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلے سے بظاہر تو امریکہ، مصر میں برسر اقتدار فوجی ٹولہ اور علاقے میں ان کے ساتھی مطمئن ہوںگے تاہم اس مرحلے میں اس فیصلے نے انقلابی قوتوں کی تقویت کی ہے۔ مصر میں دو محاذ نمایاں طور پر ایک دوسرے کے سامنے آ رہے ہیں یہ صورتحال منافقت کی شکست اور حقیقت کے زیادہ آشکار ہونے کے ذریعہ بن رہی ہے۔ اگر ڈاکٹر احمد مرسی کامیاب ہوتے ہیں تو یہ سمجھا جائے گا کہ مصری عوام کو فتح ہوئی ہے۔ اگر احمد شفیق کی کامیابی کا اعلان کیا جاتا ہے تو انقلابی عوام کو شک نہیں ہو گا کہ یہ دھونس اور دھاندلی کا کیا دھرا ہے۔ ہر وہ صورت میں انقلاب اپنے اگلے مرحلے میں داخل ہو گا اور پاکستانی سیاست کی زبان میں دما دم مست قلندر"ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 169666
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش