QR CodeQR Code

ڈپلومیٹک بیعت

17 Jun 2012 23:49

اسلام ٹائمز: تہران میں ہونے والی بیداری اسلامی کانفرنسز کے بعد اسلام آباد، پشاور اور پاکستان کے دیگر شہروں میں شیعہ سنی علماء کے اجتماعات، ملی یکجہتی کونسل کی نئے سرے سے فعالیت اور یکم جولائی کو مینار پاکستان لاہور میں منعقد ہونے والی قرآن و سنت کانفرنس ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ انشااللہ وہ دن دور نہیں کہ جب پاکستان کے 35 ہزار شہداء کا خون رنگ لائے گا اور بدمست امریکی اژدھے کا زہریلا ڈنگ بھی نکل جائے گا۔ مہران بیس پر حملہ آور امریکی سپونگلے کا سر کچلنے والے شہید یاسر عباس اور سلالہ چیک پوسٹ کے شہداء کی قربانی ضائع نہیں جائے گی، بابا جی قائداعظم محمد علی جناح کے آزاد پاکستان کا خواب ضرور پورا ہوگا۔


تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ
 
بابا جی قائداعظم محمد علی جناح اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے قتل سے لیکر کراچی کو آگ اور خون کے دریا میں ڈبونے والے جو سازشی عناصر ہیں ان کے وجود سے ہمارے ملک کا نظام پاک نہیں ہوا، ان کی باقیات نے سازشوں کا سلسلہ ابھی تک جاری رکھا ہوا ہے اور عوام کو علماء سے دور کرنے والا بھی یہی بیوروکریسی اور سیاست دانوں کا Nexus ہے جو اپنے مالی اور سیاسی مفادات کی خاطر سندھی کو پنجابی سے اور بلوچ کو پختون سے لڑاتا رہا ہے اور کبھی شیعہ کو سنی سے۔
 
علماء کے حوالے سے عوام میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی ایک وجہ علماء کے قول و فعل میں فرق بھی ہے، لیکن انگریز دور سے دین کے خلاف ہونے والی سازشوں کے نتیجے میں عوام کا خاص مائند سیٹ ہی بن گیا ہے کہ مولوی تو بے کار مخلوق ہے، جو معاشرے کے لیے بوجھ ہے اور اسے ترقی کی منزلیں طے کرنے اور زمانے کے ساتھ چلنے کا حق ہی نہیں۔ چونکہ علماء کی برکت سے چودہ سو سال سے دین کی تعلیمات باقی ہیں، اس لیے عوام میں یہ فکر ہی راسخ کی جاتی رہی ہے کہ علماء کو چودہ سو سال پہلے کے وسائل میں رہ کر زندگی بسر کرنی چاہیے۔ سید ضمیر جعفری مرحوم نے اس سوچ کی خوبصورت عکاسی کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

              مولوی اونٹ پہ جائے ہمیں منظور مگر          مولوی کار چلائے ہمیں منظور نہیں
              وہ نمازیں تو پڑھائے ہمیں منظور مگر           پارلیمنٹ میں آئے، ہمیں منظور نہیں
              حلوہ خیرات کا کھائے تو ہمارا جی خوش     حلوہ گھر میں پکائے، ہمیں منظور نہیں
              علم و اقبال و رہائش ہو کہ خواہش کوئی      وہ بھی ہم سا نظر آئے ہمیں منظور نہیں
              احترام آپ کا واجب ہے مگر مولانا               حضرت والا کی رائے ہمیں منظور نہیں 

شیعہ سنی جید علماء کا تو یہ نعرہ ہے کہ:
اے مسلمانوں تم ایک امت ہو 
تفرقہ میں نہ پڑو اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنو
 اپنے مشترکہ دشمن امریکہ کو پہچانو
 زمانہ شناسی کا گر حاصل کرو
 لیکن بات دراصل یہ ہے کہ مسئلہ افغانستان نہیں امریکہ ہے، مسئلہ فلسطین نہیں اسرائیل ہے، مسئلہ کشمیر نہیں انڈیا ہے، اسی طرح مسئلہ علماء نہیں انگریز کی وراثت نوکر شاہی ہے۔
 
افغانستان ایک اسلامی ملک ہے۔ تمام مسلمان مسالک کے لوگ وہاں آباد ہیں۔ روس کے خلاف تمام نسلی، لسانی اور مذہبی گروہوں نے مل کر مزاحمت کی ہے، لیکن افغانستان سے روس کے انخلا کے بعد امریکی مداخلت اور مجاہدین گروپوں کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا، انگریزی دور کے بعد سب سے زیادہ نقصان جنگ افغانستان کے بعد ہوا ہے، جسکے نتیجے میں علماء اور مسلمان عوام کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوا۔ جس کے اثرات آج تک موجود ہیں اور نئی نسل پہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ نہ روس کے خلاف لڑی جانے والی جنگ ہماری جنگ تھی نہ 9/11 کے بعد کی امریکی وار آن ٹیرر۔
 
افغانستان کے بعد پاکستان پہلا ملک ہے جو آج تک قربانیوں کا مرکز بنا ہوا ہے، جس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان اور اس کے بعد پاکستان کا حالات کی ساری کی ساری ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ طالبان کے ظہور کی کہانی کو ہی دیکھ لیں، قندھار کے شہریوں کا کہنا ہے کہ 1994ء میں مدارس کے طلبہ کا ایک گروپ ملا عمر کی قیادت میں آیا اور قندھار کے علاقے دند کے ایک مدرسے میں سکونت پذیر ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس لیے آئے ہیں تاکہ امن و امان قائم کریں۔ لوگوں کو غیر مسلح کریں او ر لاقانونیت کو ختم کرکے اسلامی شریعت کو نافذ کریں۔
 
20 ستمبر 1994ء کو ہرات سے قندھار جانے والے افغان خاندان کو سڑک پر روک لیا گیا، مردوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ مقامی وار لارڈز کے ہاتھوں لوٹے جانے والے اس خاندان کا ایک فرد فرار ہو کر طالبان کے مدرسے آیا۔ ملا عمر نے طالبان کا ایک گروپ موقعہ واردات پر بھیجا، اور موقع پر ہی واردات میں شریک افراد کو موت کی سزا دی، لاشوں کو اٹھایا، غسل و کفن کے بعد دفن کر دیا۔ یہ وہ کہانی ہے جو طالبان خود بیان کرتے ہیں، کہ کس طرح ملا عمر نے عوامی حمایت حاصل کی، مقامی کمانڈروں نے بیعت کی، قانوں اور شریعت کی بالادستی قائم کرتے کرتے طالبان کابل سے ہوتے ہوئے مزار شریف تک جا پہنچے اور بالآخر ملا عمر پوری دنیا کے مجاہدین کے امیرالمومنین کی حیثیت اختیار کر گئے۔ آج تک یہ واضح نہیں کہ یہ گروپ افغانستان میں کہاں سے آیا۔؟ 

لیکن کہانی کی حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ مسلح طلبہ کا یہ گروپ پی پی پی حکومت کے ایماء پر افغانستان گیا تھا۔ 20 اکتوبر 1994ء کو امریکی آئل کمپنی UNOCAL کے لیے محفوظ تجارتی راستوں سے متعلق طالبان، امریکہ اور پاکستان درمیان معاہدے کے بعد پاکستان سے بے نظیر بھٹو حکومت کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر مغربی سفارتکاروں کا ایک وفد لے کر افغانستان کے شہر قندھار گئے۔ امریکہ، چین، جاپان، سپین، فرانس اور جرمنی کے سفاتکاروں کو قندھار لے جانے کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ پاکستان سے وسط ایشیائی ریاستوں کو جانے والے تجارتی راستے بالکل محفوظ ہیں اور جگہ جگہ افغان وار لارڈز کو بھتہ اور جگا ٹیکس دینے کی بجائے مغربی کمپنیاں حکومت پاکستان کے تعاون سے یہ روٹ آسانی سے سستے داموں استعمال کر سکتی ہیں۔ ملا عمر کے ہاتھ پہ پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ جنرل نصیراللہ بابر اور مغربی سفارتکاروں کی یہ پہلی ڈپلومیٹک بیعت تھی، جس کا خمیازہ آج تک پاکستان بھگت رہا ہے۔
 
جامعہ بنوریہ کراچی کے مفتیان کرام، اکوڑہ خٹک کے مولانا سمیع الحق، لشکر جھنگوی کے ریاض بسراء، سپاہ صحابہ اور جیش محمد کے جنگجو تو بہت بعد میں ملا عمر کی بیعت سے شرف یاب ہوئے۔ آج بھی پی پی پی کے حکمران ضیاء الحق سے زیادہ امریکی دوستی پر ایمان رکھتے ہیں۔
اسی طرح کی ایک ڈپلومیٹک بیعت ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے کی تھی 70ء کی دہائی میں اے این پی کی صوبائی حکومت ختم کی گئی تو اسکے جواب میں آفتاب شیر پاؤ کے والد حیات شیر پاؤ کو قتل کر دیا گیا۔ 

کابل میں اس قتل کا جواب دینے کے لیے گلبدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی کو پشاور کے ایک safe House میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے سرکاری مہمان کے طور پر بلایا اور افغانستان میں کیمونسٹ، روس نواز حکومت کے خلاف بغاوت کرکے اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے تعاون کا یقین دلایا، جہاں سے جہاد افغانستان کی بنیاد پڑی۔ یہ درست ہے کہ دکھاوے کے آنسو بہا کے جنرل ضیاءالحق نے روس کے خلاف جنگ میں مذہبی جماعتوں کو استعمال کیا، لیکن ڈپلومیٹک بیعت کے بانی ہونے کا سہرا جناب ذوالفقار علی بھٹو کے سر ہی رہیگا۔ لیکن بیورو کریٹس نے سیاستدانوں کے ساتھ مل کے ایسا کھیل کھیلا ہے کہ آج تک مولوی ہی بدنام ہے اور پبلک تو ویسے ہی ضرورت سے زیادہ علماء سے الرجک ہے۔
 
البتہ نہایت ادب و احترام کے ساتھ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ علماء کی ذمہ داریاں بہت سنگین ہیں، عوام علماء کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں، لیکن جب کسی عالم دین کا اسکینڈل، ظالم و جابر کے مقابل بے حسی اور علماء کے باہمی اختلافات کھل کر عوام کے سامنے آجاتے ہیں تو وہ علماء سے نہیں بلکہ مذہب سے ہی دوری اختیار کر لیتے ہیں۔ مذہبی راہنماؤں کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ دین کے نام پر قتل و غارت سے معاشرے میں لادینیت کو فروغ ملتا ہے۔ 

لوگ مذہب سے نفرت کرنے لگتے ہیں، فرقہ واریت اور مذہبی تشدد نے ہمیشہ سیکولر ازم کی راہ ہموار کی ہے اور مادہ پرستوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ خدا کے نام لیوا اور محمد عربی کے پیروکار مسجدوں کی بجائے نائٹ کلبوں میں نظر آئیں، امام بارگاہوں میں عزاداری کی بجائے رقص و سرود کی محفلوں میں، جہاد کے میدان سے دور رہیں اور کھیل کے نام پر جوئے کے اڈوں کی رونق بنیں۔ علما اور مذہبی قیادت کی باتوں پر کان دھرنے کی بجائے مغربی پراپیگنڈہ کا شکار رہیں، تاکہ اسٹیٹس کو برقرار رہے۔ 

علماء تو انبیاء کے وارث ہیں، وہ تو ہمیشہ وحدت و اتحاد کو قائم رکھتے ہیں اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سید قطب، سید مودودی، سید روح اللہ خمینی اور شہید حسینی کی راہ پہ چلنے والے شیعہ سنی علماء فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہوں۔ یہ تو برطانوی، امریکی اور دیگر مغربی اداروں سے حکمرانی کے گر سیکھ کے آنے والے بیوروکریٹ اور ڈپلومیٹک جہادی ہیں، جو پس پردہ رہ کر اپنی سازشوں پر عمل درآمد کرواتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تو دہشتگردی اور تشدد کے معاملے میں صرف علماء کو دوش دینا تو سانپ کی لکیر کو پیٹنے والی بات ہے۔ یہ سب تو امریکیوں کی تقلید کرنے والے ڈپلومیٹس کا کیا دھرا ہے، جو ہمیشہ پردے کے پیچھے رہتے ہیں۔
 
ہمیں یقین ہے کہ امریکہ کی مثال ایک اژدھے کی سی ہے، جسکی زہر آلود پھنکار نے ہمارے پاکستان کو ادھ موا کر دیا ہے اور ہماری گلیوں، سڑکوں، مسجدوں اور امام بارگاہوں کو بے گناہوں کے خون سے رنگین کرنے والے اسی اژدھے کے انڈوں سے نکلنے والے سپونگلے ہیں، سات سمندر پار سے آنے والے امریکی اپنے زرخرید بندوں اور وطن فروش نوکر شاہی کی وجہ سے ہمارے اوپر راج کر رہے ہیں۔ لیکن اسلامی بیداری کی عوامی لہر کا ایک سرا افریقی عرب ممالک میں ہے تو دوسرا انشاءاللہ پاکستان میں ہے۔
 
تہران میں ہونے والی بیداری اسلامی کانفرنسز کے بعد اسلام آباد، پشاور اور پاکستان کے دیگر شہروں میں شیعہ سنی علماء کے اجتماعات، ملی یکجہتی کونسل کی نئے سرے سے فعالیت اور یکم جولائی کو مینار پاکستان لاہور میں منعقد ہونے والی قرآن و سنت کانفرنس ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ انشااللہ وہ دن دور نہیں کہ جب پاکستان کے 35 ہزار شہداء کا خون رنگ لائے گا اور بدمست امریکی اژدھے کا زہریلا ڈنگ بھی نکل جائے گا۔ مہران بیس پر حملہ آور امریکی سپونگلے کا سر کچلنے والے شہید یاسر عباس اور سلالہ چیک پوسٹ کے شہداء کی قربانی ضائع نہیں جائے گی، بابا جی قائداعظم محمد علی جناح کے آزاد پاکستان کا خواب ضرور پورا ہوگا۔


خبر کا کوڈ: 172194

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/172194/ڈپلومیٹک-بیعت

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org