0
Wednesday 20 Jun 2012 19:59

لوڈشیڈنگ کیخلاف پرتشدد مظاہرے

لوڈشیڈنگ کیخلاف پرتشدد مظاہرے
تحریر: طاہر یاسین طاہر
  
اس امر میں کلام نہیں کہ حکمران طبقے نے بدترین نااہلی کا ثبوت دیا، یہ طبقہ اگر اپنے فرائض کی درست بجا آوری کرتا تو آج ملک کو توانائی کے اس شدید بحران کا سامنا نہ ہوتا۔ ہم دعووں کے بل بوتے پر زندہ رہنے والے جذباتی لوگ ہیں۔ خود کو عالم اسلام کا قلعہ قرار دیتے ہیں اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ نہ صرف عالم اسلام بلکہ ساری دنیا کی قیادت بھی کریں، خواہش اپنی جگہ درست ہوسکتی ہے، مگر زمینی حقائق سے آنکھیں چرا کر ہم اپنے آپ کو سوائے فریب دینے کے اور کچھ نہ کر پائیں گے۔ 

دراصل جب کوئی منتخب حکومت درپیش مسائل کو حل کرنے کی بجائے انہیں اپنے پیش رو حکمرانوں کی غلطیاں قرار دے کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہے تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت اور اس کی کابینہ نااہل ہے۔ پاور پالیٹکس کے ماہر کھلاڑی روز ایک نیا تماشہ تو لگا رہے ہیں، مگر عوام کی زندگی میں سکھ نہ لا سکے۔ جب بھی سماجی و معاشی مسائل کی نشاندہی کی جاتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ ہم نے سوا چار سالوں میں جمہوریت کی بڑی خدمت کی ہے۔ کہنے لگتے ہیں ہم نے این ایف سی ایوارڈ دیا۔ ہم نے اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں ترامیم منظور کروائیں۔
 
بجا کہ مذکورہ اقدامات جمہوریت کا حسن ہوں گے، مگر کیا ان اقدامات سے توانائی کا بحران ختم ہو گیا؟ کیا مہنگائی اور بیروزگاری کا خاتمہ ہوگیا اور کیا لوگوں کو روزگار ملنا شروع ہوگیا؟ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی اسلاف کی ’’قربانیوں کا‘‘ تذکرہ کرکے عوام کو فریب دے رہی ہیں، گذشتہ پندرہ برس سے ہم توانائی سیکڑ میں ایک یونٹ کا بھی اضافہ نہ کر سکے۔ موجودہ حکومت جب برسرر اقتدار آئی تو اس نے کہنا شروع کر دیا کہ توانائی بحران ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر توانائی بحران اور دیگر سیاسی و سماجی مشکلات نہ ہوتی تو 2008ء کے الیکشن میں لوگ آپ کو منتخب ہی کیوں کرتے؟ کیا آپ کو سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں؟ نہیں بلکہ عوام نے مرکز اور صوبوں میں نئے سیاسی لوگوں کا انتخاب ہی اس لیے کیا تھا کہ وہ اسمبلیوں میں آ کر ان کے مسائل حل کریں۔
 
حکومت نے جب بھی بجلی کے بحران کے حل کی جانب قدم بڑھایا تو اس نے بڑے مضحکہ خیز فیصلے کئے، حکومت سمجھنے لگی کہ اگر گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کردی جائیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ جب اس طرح سے بات نہ بنی تو معاشی مراکز کو سرشام ہی بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا، یعنی ایک تو لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کارخانے اور فیکٹریاں بند اوپر سے تجارتی مراکز وفاقی کابینہ کے فیصلوں کی بھینٹ چڑھنے لگے۔ جس کے باعث بیروزگاری اور معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ 

گیس کا بحران شروع ہوا تو اسے حل کرنیکی بجائے پہلے ہفتہ میں ایک دن، بعد ازاں دو اور اب تین سے چار دن گیس کی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے، سابق وفاقی وزیر برائے بجلی و پانی راجہ پرویز اشرف جب بجلی کا بحران حل کرنے نکلے تو انہوں نے قوم سے وعدہ کیا کہ لوڈشیدنگ 31 دسمبر 2009ء کو ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے رینٹل پاور منصوبوں کے ایسے ایسے قصیدے پڑے کہ توانائی کے ماہرین حیران رہ گئے۔ باآلاخر لوڈشیڈنگ نہ صرف موجود ہے، بلکہ اس کا دورانیہ 22 گھنٹے تک جا پہنچا، البتہ راجہ پرویز اشرف رینٹل پاور منصوبوں کے حوالے سے ایک بڑے کرپشن اسکینڈل کا سامنا کر رہے ہیں۔
 
ہم اس بات کا تکرار کریں گے کہ حکومت نے توانائی بحران کو سنجیدگی سے حل کرنے کی بجائے جزوقتی اقدامات اٹھانے کو ترجیح دی۔ اب حکومت نے سابق وزیر دفاع کو بجلی و پانی کا قلم دان سونپ کر میرے خیال میں دفاعی حکمت عملی اختیار کرلی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ بجلی کا شارٹ فال 8500 میگا واٹ تک پہنچ گیا ہے۔ اگر بروقت اور ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو شارٹ فال 10000 میگا واٹ یومیہ تک پہنچ سکتا ہے۔ توانائی کے عالمی و مقامی ماہرین چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے اگر توانائی کے حصول کے متبادل ذرائع تلاش نہ کیے تو پاکستان شدید مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔ 

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اٹھارہ سے بائیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، چھوٹی بڑی صنعتوں کی بندش سے ہزاروں افراد بے روزگار ہوچکے ہیں، راتوں کو جاگ جاگ کر لوگ ذہنی تناؤ کا شکار ہوچکے ہیں، جس کا اظہار آج کل احتجاج کے دوران کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ سے پیوستہ روز لوڈشیڈنگ کے خلاف تشدد کے مظاہر بھی دیکھنے کو ملے اور مشتعل مظاہرین نے ٹرین، بنک، پیڑول پمپ، دو تھانوں سمیت کئی ایک دکانیں اور گاڑیاں نظر آتش کر دیں، جبکہ مظاہرین نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے گھروں اور دفاتر پر بھی حملے کیے۔ ایسے افسوس ناک واقعات کیوں ہو رہے ہیں؟ کیا ہم تقدیر کے ہاتھوں پٹ رہے ہیں، یا حکمت اور تدبر کے باعث یہ حال ہے۔؟ یقیناً تدبر کی ہی کمی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ توانائی کے نئے منصوبوں کو شروع کئے بغیر اس بحران سے نکلنا خواب ہے۔
 
پنجاب کے حکمران پرتشدد مظاہروں کی سرپرستی کرنے کی بجائے صوبائی خود مختاری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے توانائی بحران کے خاتمے کی طرف بڑھیں، جبکہ وفاقی حکومت بھی مظاہروں کا سارا الزام مخالف سیاسی قوتوں کے سر نہ تھونپے، بلکہ اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ لوڈشیڈنگ نے لوگوں کی قوت برداشت ختم کر دی ہے۔ 

ہمیں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ برادر اسلامی ملک ایران کئی مرتبہ کہہ چکا ہے کہ پاکستان کے ہر مسئلے کا حل اس کے پاس موجود ہے، مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وفاقی وزیرِ پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین برملا کہہ چکے ہیں کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر عالمی تحفظات کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ اپنے قومی مفادات کو عالمی تحفظات کی عینک سے دیکھنے والی قوموں کا حال یہی ہوا کرتا ہے، جو آج ہمارا ہے۔ ہم آج بھی برادر اسلامی ملک کی پیشکش سے فائدہ اٹھا کر اپنے سب سے بڑے قومی مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 172928
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش