0
Sunday 24 Jun 2012 12:14

کیا مصر میں فوج اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کر دے گی

کیا مصر میں فوج اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کر دے گی
تحریر:ثاقب اکبر 

مصر میں تیز رفتار تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔17 جون 2012ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے نتائج کا اعلان 21 جون 2012ء کو کیا جانا تھا لیکن ابھی تک یہ اعلان اس بہانے سے نہیں کیا گیا کہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے دونوں امیدواروں کی طرف سے دھاندلی کی جو شکایات داخل کی گئی ہیں ان کا فیصلہ ہونے تک یہ اعلان نہیں کیا جا سکتا جبکہ دونوں امیدواروں ڈاکٹر محمد مرسی اور احمد شفیق کے دفاتر نے ان کی کامیابی کا اعلان کیا ہے۔ 

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق مصری ججوں کی ایک یونین نے اخوان المسلمین کے صدارتی امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی کو فاتح قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے صدارتی انتخابات میں کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے تقریباً ایک کروڑ بتیس لاکھ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اصلاح پسند ججوں پر مشتمل اس یونین نے آزادانہ طور پر مصر میں صدارتی انتخابات کی نگرانی کی ہے۔ ان کے اعلان کردہ ووٹوں کے اعداد و شمار اور ڈاکٹر مرسی کے اعلان کردہ ووٹوں میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اب تک گنے جانے والے والے ووٹوں کے مطابق ڈاکٹر مرسی نے 52.2 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں اور ووٹوں کا فرق تقریباً ایک ملین سے زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر مرسی کے حامی یہ کہتے ہیں کہ شکایات کی تحقیق سے اصل نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور فوجی حکومت جان بوجھ کر کامیاب امیدوار کے اعلان میں تاخیر کر رہی ہے۔ اخوان المسلمین کے ترجمانوں نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ صدارتی امیدوار کی کامیابی کے اعلان میں تاخیر کا اصل مقصد دھاندلی کے ذریعے سے احمد شفیق کو کامیاب قرار دینا ہے۔ یاد رہے کہ احمد شفیق مصر کے سابق آمر حسنی مبارک کے آخری دور میں ان کے وزیراعظم رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انقلابی قوتیں ان کی شکل میں سابق نظام کے تسلسل کو دیکھتی ہیں۔

مصر میں صدارتی انتخابات کے دوران حکمران فوجی کونسل نے ایک اور اہم اقدام کیا ہے۔ کونسل نے ایک عدالتی فیصلے کا سہارا لیتے ہوئے منتخب مصری پارلیمان کو تحلیل کر دیا۔ یہ پارلیمان 2011ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی تھی۔ اس میں اخوان المسلمین کی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی نے ایوان میں تقریباً 50 فیصد نشستیں حاصل کی تھیں۔ اخوان المسلمین نے منتخب پارلیمان کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکمران فوجی کونسل کی طرف سے تحلیل کیے جانے کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور اسے جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ انقلاب کا تحفظ کریں۔ 

تحلیل کی گئی پارلیمنٹ کے سپیکر محمد سعد الکتاتنی کا کہنا ہے کہ حکمران فوجی کونسل یہ حق نہیں رکھتی تھی کہ وہ پارلیمنٹ کو تحلیل کرے اور کونسل کا تیز رفتاری سے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنا ظاہر کرتا ہے کہ اس کے سیاسی مقاصد ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ فوجی کونسل کی کارروائیوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ اختیارات قوم کے منتخب صدر کے حوالے کر دے بلکہ وہ غیر معینہ مدت تک اقتدار پر اپنا قبضہ باقی رکھنا چاہتی ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ اداروں، تنظیموں اور قانونی ذرائع سے نیز مصر کے میدانوں میں عوامی مظاہروں سے وہ اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔ پارلیمنٹ کے ایک رکن اسامہ جادو کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ 3کروڑ مصری عوام کے ووٹوں سے معرض وجود میں آئی ہے۔ اسے کوئی ایک غیر عوامی اور غیر نمائندہ گروہ تحلیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔


انتخابات کے بعد منتخب صدر کو اختیارات سپرد کرنے سے پہلے حکمران فوجی کونسل نے ایک اور اہم قدم اٹھایا ہے۔ اس کے مطابق فوجی کونسل نے صدر کے اختیارات میں کمی کرکے اپنے اختیارات میں اضافہ کر لیا ہے۔ اس اعلان کے مطابق فوج نے ملک کا بجٹ بھی اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ اس اعلان کو ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں اور راہنماﺅں کی طرف سے "فوجی کودتا" کا نام دیا گیا ہے۔ فوج کی طرف سے آئین میں ان یکطرفہ تبدیلیوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مملکت کے تمامتر اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کا مصمم ارادہ رکھتی ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ آئین جسے عوام کی بھاری اکثریت نے منظور کیا ہے اس میں فوج کا یکطرفہ ترمیم کرنا عوامی حقوق پر ڈاکے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف عوام ایک مرتبہ پھر پورے انقلابی جذبے کے ساتھ قاہرہ کے میدان تحریر اور دیگر بڑے شہروں میں جمع ہو گئے ہیں۔ ان لاکھوں عوام کے چار بڑے مطالبات ہیں:
 
۱۔فوج حکومت کو چھوڑ دے اور اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کر دے۔
۲۔ منتخب صدر کا فی الفور حتمی اعلان کیا جائے۔
۳۔ آئین میں یکطرفہ طور پر فوج کی طرف سے کی گئی ترامیم ختم کی جائیں۔
۴۔ فوجی کونسل کے حکم کے تحت تحلیل کی گئی پارلیمنٹ پھر سے بحال کی جائے۔
عوام کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ان چار مطالبوں کے تسلیم ہوئے بغیر اپنے گھروں کو واپس نہیں جائیں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فوج بالآخر بغیر کسی خون خرابے کے اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کر کے چھاﺅنیوں میں واپس چلی جائے گی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اتنی آسانی سے نہیں۔ البتہ ہمارے اس جواب تک پہنچنے کے لیے ذہن کو کئی ایک مراحل سے گزرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ فوج کن قوتوں کی ایماء پر اقتدار میں ہے اور وہ کن کے مقاصد پورے کر رہی ہے۔

اس وقت جب قاہرہ کا میدان تحریر لاکھوں مصریوں سے چھلک رہا ہے اور عوام حکمران فوجی کونسل سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اسرائیل کے مبصرین فوجی کونسل کے اقدامات کی تائید کر رہے ہیں اور ان کی ساری امیدوں کا مرکز مبارک کی وراثت پانے والے مصری جرنیل ہیں۔ اسرائیل کے ایک معروف مبصر ”سمداربیری“ نے اسرائیلی روزنامے”یدیعوت حرونت“ کو بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے وہ حکام جو ماضی میں مصر آتے جاتے رہے ہیں آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ انھوں نے کہا کہ مصر کی انٹیلی جنس کے سربراہ ”مراد موافی“ کا نیٹ ورک محمد مرسی کے برسراقتدار آنے کے باوجود اسرائیلی حکام کا استقبال کرتا رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ مصر کی فوجی کونسل کی طرف مصر کے آئندہ صدر کے اختیارات میں کمی ہمارے نقصان میں نہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مصر میں اگر حقیقی عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں اقتدار آ جاتا ہے تو سب سے زیادہ خطرہ اسرائیل ہی کو محسوس ہو گا۔ اگرچہ اخوان المسلمین کی قیادت اپنے آپ کو بظاہر بہت معتدل ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہے لیکن اسرائیل کے بارے میں امریکا اور اس کے حواری کوئی رسک لینے کو تیار نہیں۔ فوجی کونسل کے اقدامات کو اسی پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مصر میں انقلابی تحریک کے شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل کے حوالے سے مصری عوام نے جن جذبات کا اظہار کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ آج قاہرہ میں موجود اسرائیلی سفارتخانہ خالی ہے اور اس کے اوپر اسرائیل کا نہیں بلکہ مصر کا پرچم لہرا رہا ہے۔ 9ستمبر 2011ء کو مصر کے عوام نے اس عمارت پر چڑھ کر یہ پرچم لہرایا تھا اور عمارت کے اندر موجود بہت سی دستاویزات کو کھڑکیوں سے باہر پھینک دیا تھا۔ مڈل ایسٹ مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق 21جون کو اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ مصر میں عوام کی مخالفت کی وجہ سے قاہرہ میں کوئی شخص بھی اسرائیلی سفارتخانے کے لیے کرائے پر مکان دینے کو تیار نہیں۔ 

جس پارلیمنٹ کو فوجی حکم کے ذریعے سے تحلیل کیا گیا ہے اسی نے اسرائیل کو مصر سے گیس فراہم کرنے کا سلسلہ بند کرنے کی قرارداد منظور کی تھی۔ اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے کیا اخوان المسلمین اس حد تک امریکا اور اسرائیل کو اطمینان دلانے کی پوزیشن میں ہے کہ وہ ان کے حوالے سے مبارک دور کی تمام پالیسیوں کو اور معاہدوں کو اسی طرح سے باقی رکھے گی۔ظاہر ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی کوئی حکومت بھی مصر میں یہ وعدہ نہیں کر سکتی۔میدان تحریر میں عوام کا موڈ اسی امر کی حکایت کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 173751
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش