1
0
Friday 29 Jun 2012 11:46

کربلائے کوئٹہ

کربلائے کوئٹہ
 تحریر: سید قمر رضوی
 
بظاہر ایک لق و دق صحرا نما، سبزہ ناپید، چٹیل پہاڑ، خشک ہوا اور انجانے خوف کے مہیب سائے ۔۔۔۔ یہ صورت ہے شہرِ کوئٹہ کی، جسکی سرزمین عرصہء دراز سے سادات، زائرین، عزاداران اور محبانِ اہلبیت (ع) کے گھرانوں، چاہے وہ عوام میں سے ہوں یا ملت کے چوٹی کے افراد، کے گرم و سرخ لہو کو طویل عرصے سے اس سرعت کے ساتھ نوش کر رہی ہے کہ اب حقیقی تصویر میں یہ ایک نخلستان کی صورت اختیار کر چکی ہوگی، جہاں کی مٹی میں خونِ شہداء کی آمیزش سے بلند و بالا اور سرسبزوشاداب اشجار، خوش الحان طیور، جاری چشموں، بہتے جھرنوں، محوِ رقص ہوا اور منقش محلوں نے جنم لیا ہوگا۔ ۔۔۔ کہ شہید کے خون کا ایک قطرہ ہی اپنے مقامِ انجذاب کو بہشت میں ڈھالنے کی طاقت و صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ یہاں تو خون کی ندیاں بہہ گئیں۔۔۔۔

خدا کی اپنی ذات کی چاہت، اسکی وہ تخلیق جس پر وہ بے نیاز خود نازاں ہوا اور اسکے پیکر کو سجا کر اپنی روح سے جلا بخشی۔ اشرف المخلوقات کا تاج سر پر سجایا اور دیگر مخلوقات کا مسجود قرار دے کر اسے مختلف نسلوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا۔ کسی نسل میں انبیاء (ع) کو مبعوث کرتا رہا تو کسی قبیلے میں رجیم ملعون ہوتے رہے۔ کوئی اسکی خوشنودی کی خاطر اسکے پسندیدہ راستے پر چلتا رہا تو اسے دیگر انسانوں سے افضل قرار دے دیا اور کہیں کوئی اندھیروں میں بھٹکنے کو اپنا مقدر بنا بیٹھا تو اس نے بھی لعنت و ظلمت ہی اسکے مقدر میں لکھ دی۔ کوئی اتنا پسند آیا کہ اسکی چاہت میں سات زمین و آسمان تمام تر نعمات کے ساتھ اسکے نام کر دیئے تو کبھی کوئی اتنی نفرین کا حامل ٹھہرا کہ تاقیامت ملعون قرار پایا۔

خدا کے اسی پسندیدہ گروہ کی ہر ہر ادا اسے اس حد تک بھائی کہ انہی اداؤں کو اس نےتاقیامت دیگر انسانوں کے لئے نمونہء عمل قرار دے ڈالا۔ ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی سنوا دی کہ جو کوئی اس گروہ کا گرویدہ رہیگا، اسکے لئے انہی کی قدم بوسی کی بہشتیں خلق کروں گا اور جس نے اس گروہ سے دشمنی رکھی، وہ دراصل خدا کا دشمن اور تاقیامت مغضوب و ضال ہوجائیگا۔ لعنت اسکے گلے کا طوق اور دو جہانوں کی ذلت اسکا مقدر رہے گی۔

چنانچہ خدا کے مصطفٰی گروہ کی محبت کا دم بھرنے والوں کو بھی خدا نے نعمات سے نوازا۔ اسکا سب سے عظیم انعام تو خود ان ذواتِ مقدسہ سے روا رکھی جانیوالی محبت تھی۔ پس یہی وہ نعمتِ عظمٰی تھی جسکی بدولت پیروان و محبانِ اہلبیت (ع) دنیا بھر کے دیگر انسانوں سے افضل و برتر قرار پائے اور محمد و آلِ محمد علیہم السلام سے بغض و عناد دل کی وہ بیماری بن گئی کہ جسکے حاملان پست ترین درجوں تک گر کر نجس جانور سے بھی بدتر قرار پائے۔ ۔۔۔۔ اور یہ قانونِ فطرت ہے کہ طاہر و نجس کا کوئی میل نہیں۔۔۔۔ 

جب، جہاں اور جیسے ممکن ہو، نجاست کی یہی کوشش رہی ہے اور رہے گی کہ طہارت نظر نہ آئے۔ چاہے اسے دبانے کے لئے کسی بھی حد کو عبور کیوں نہ کرنا پڑے۔ قلبِ اکبر میں نیزہ پیوست کرنا ہو یا گلوئے اصغر میں تیر ترازو کرنا ہو۔ بدنِ قاسم کو پارہ پارہ کرنا پڑے یا دست ہائے غیور کو قلم کرنا پڑے، چادرِ تطہیر کو پیروں تلے روندنا پڑے یا سرِ سوارِ دوشِ رسالت کو سوارِ نیزہ کرنا پڑے ۔۔۔۔ ظلم خود شرما جائے مگر ظالم کو شرم نہ آنے پائے۔۔۔

1373 برس قبل لق و دق صحرا، بے سبزہ بیابان، چٹیل ٹیلوں، خشک ہوا اور خوف کے سائے میں جکڑے ہوئے زمین کے ایک ٹکڑے پر طاہر خون کے انجذاب کا جو دور شروع ہوا تو گویا کربلا کا آغاز ہو گیا۔ 72 سر کٹ کر نوک ہائے سناں پر بلند ہوکر خدا کا نام بلند کرنے کوچہ و بازار میں چل نکلے اور بے سر لاشے صحرا کی گرم ریت میں جا چھپے۔ انہی 72 سروں کی سرکردگی میں زنجیر کی جھنکار، بیواؤں کی سسکیوں اور معصوم بچوں کی آہوں کا لامتناہی سلسلہ بھی ساتھ ساتھ اپنی منزلیں طے کرتا رہا۔ لق و دق صحراؤں کی ہولناک فضاؤں میں معصوم بچے دیوانہ وار بھاگتے ہوئے شتر ہائے بے مہار کی بے کجاوا پشتوں سے زمین پر گرتے رہے۔ خوف کی فضاؤں میں اپنی ماؤں کو پکارتے ہوئے اپنی اپنی منزلوں پر پہنچتے رہے۔ بے بس ماؤں کی سسکیوں میں قافلہ اپنی منزل کی جانب بڑھتا رہا۔

گزرتے قافلے کے نقش ہائے پا پر شجر ہائے سایہ دار، خوش الحان طیور، بہتے جھرنوں، جاری چشموں، رقص کناں ہواؤں اور منقش محلوں پر مشتمل جنان جنم لیتی رہیں۔ زنجیر کی جھنکار کو کبھی قرار نہ آیا۔ چودہ صدیاں بیت گئیں۔ صحرا کی ریت کی پیاس نہ بجھی۔ صحرا کا نام کربلا ہو یا کوئٹہ! صحرا تو صحرا ہی ہے۔ اسے تو خون چاہیئے۔ اہلبیت (ع) کا ہو یا محبانِ اہلبیت کا ۔۔۔۔ کب تک؟؟؟؟ یہ تو ذاتِ علیم و خبیر ہی جانے!!!!

                                          جب لیا حسین نے میدانِ کربلا
                                          بدلا لہو سے رنگِ بیابانِ کربلا
                                          تھا وقتِ عصر اور ہی عنوانِ کربلا
                                         سوتا تھا فرشِ خاک پہ مہمانِ کربلا 
                                         بےسر تھا قتل گاہ میں لاشہ پڑا ہوا
                                         بالیں پہ فتحِ حق کا تھا جھنڈا گڑا ہوا 
                                         ریتی کی سجدہ گاہ پہ خونِ پیمبری
                                         ڈوبی ہوئی لہو میں قبائے غضنفری
                                         کون و مکاں میں رعبِ شہادت سے تھرتھری
                                         ایسی سکندری تھی کسی کی نہ قیصری
                                         اس دن سے آج تک یہ حکومت کا زور ہے
                                         ہر سمت یاحسین کا دنیا میں شور ہے
خبر کا کوڈ : 175210
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United Kingdom
Really fantastic article

Allah bless you Qamar bhai
ہماری پیشکش