2
0
Tuesday 3 Jul 2012 07:40

ڈاکٹروں کی ہڑتال اور سیاسی محرکات

ڈاکٹروں کی ہڑتال اور سیاسی محرکات
تحریر: سید محمد ثقلین 

پنجاب میں ینگ ڈاکٹرز کم و بیش نصف ماہ سے اپنے مطالبات کے حق میں ایک بار پھر ہڑتال پر ہیں، او پی ڈیز میں کام بند کرنے کے بعد مریضوں کو کیسی کیسی مشکلات درپیش ہیں یہ بستر مرگ پر تڑپنے والے ہی بتا سکتے ہیں، تاہم اس ہڑتال کے دوران جو مشاہدے میں آیا ہے وہ یہی ہے کہ ڈاکٹرز اور حکومت دونوں ہی اپنی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم عوامی مشکلات میں کمی کے بجائے انہیں مزید بڑھاوا دے رہے ہیں، کبھی مذاکرات کا لالی پاپ اور کبھی کچھ مطالبات کے ماننے کی باتیں جہاں حکومتی سطح پر دوغلی پالیسی کا ثبوت ہیں تو وہیں مخصوص گروپوں کی جانب سے کام بند کروانے کے لیے تشدد کے استعمال نے مسیحائی کے دعوے کرنے والوں کی بے رحمی کا بھی پول کھول دیا ہے۔
 
سردست نہ تو حکومت پنجاب اپنے رویئے اور موقف میں لچک دکھانے کے لئے تیار ہے اور نہ ہی ینگ ڈاکٹرز اپنی بات سے پیچھے ہٹتے دکھائی دیتے ہیں، بلکہ اب تو ان جونیئرز کے ساتھ ساتھ بعض سینئرز نے بھی اپنے مفادات کے لئے پس پردہ ہڑتال کی حمایت کر دی ہے۔ جس کے بعد صوبائی حکومت اخباری تشہیر کے ذریعے عوام کو ڈاکٹروں کی ماہانہ تخواہوں سے آگاہ کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب مظاہروں میں ینگ ڈاکٹرز اپنی پے سلپیں لہراتے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے سولہ ایم پی او کے تحت مقدمات کے اندراج کی دھمکی کے بعد تو صورتحال مزید سنگین ہونے کا احتمال ہے۔
 
ڈاکٹروں کی ہڑتال جائز ہے یا ناجائز۔ یہ بحث اپنی جگہ اور اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اور صرف صوبائی حکومت کے پاس ہے، البتہ گزرے چودہ، پندرہ روز میں اس ہڑتال اور اس کے جواب میں حکومتی آنکھ مچولی کا سب سے زیادہ نشانہ تڑپتے چیختے مریض ہی بنے ہیں، تادم تحریر اس غیر منطقی تحریک کے دوران علاج کی سہولتیں نہ ملنے پر کم از کم بیس ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے اور یہ ان علاقوں کے اعداد و شمار ہیں جہاں تک میڈیا کی رسائی ہے، البتہ دور دراز علاقوں میں کیا صورتحال ہے اس کا شاید اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔
 
آخر وجہ کیا ہے؟ کیوں گلیمر کی حیثیت اختیار کرنے والے پیشے سے وابستہ لوگ اس حد تک مایوس ہیں؟ کیوں انتظامیہ کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے انہوں نے ایک ایسا طریقہ اختیار کر لیا ہے جس سے عام انسان کو گونا گوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟ کیوں مریضوں اور تیمارداروں کو ذہنی عذاب میں مبتلا ہونا پڑ رہا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو موجودہ حالات میں زبان زد عام ہیں، لیکن ان کا جواب نہ تو ہڑتال کرنے والوں کے پاس ہے اور نہ ہی ان کو مراعات کا دانہ ڈالنے والوں کے پاس کہ دونوں ہی فریق اپنی اپنی جگہ سیاست کے قیدی بنے ہوئے ہیں۔ 

ڈاکٹروں کے شروع میں سامنے آنے والے مطالبات اگرچہ بڑی حد تک قابل عمل اور جائز تھے، لیکن جیسے جیسے ان کے جواب میں حکومت عدم توجہی دکھاتی رہی ویسے ویسے ینگ ڈاکٹرز اس معاملے سے سیاسی استفادہ حاصل کرنے والوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنتے گئے، حکومت کا موقف ہے کہ چھ ماہ قبل ڈاکٹروں کی تنخواہوں میں پچاس فیصد اضافے کے بعد معاوضہ بڑھانے کا جواز نہیں بنتا جبکہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے انہیں ڈی گریڈ کر کے Pay Band 2nd میں رکھا ہوا ہے جس سے ان کی اور ایک چپڑاسی کی تنخواہ میں کوئی فرق نہیں، جبکہ ساتھ ہی ساتھ وہ رسک الانس کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں ہر وقت مہلک امراض (جیسے ایڈز، سوائن فلو وغیرہ) میں مبتلا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ 

ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ احتجاج کا سلسلہ اس سے قبل بھی عروج پر رہا ہے، تنخواہوں کے معاملے کے پیش نظر ڈاکٹروں کا مطالبہ بڑی حد تک جائز تھا لیکن صوبائی حکومت مسلسل کوتاہی دکھاتی رہی اور جب پانی سر سے گزر گیا تو مذاکرات کا ڈھنڈورا پیٹا جانے لگا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صوبائی حکومت ہنگامی بنیادوں پر ڈاکٹروں کو اعتماد میں لے کر عام اور غریب مریضوں کو کسی پریشانی میں مبتلا نہ ہونے دیتی، لیکن حکومت کا ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے، حد تو یہ ہے کہ ڈاکٹروں کو دھمکی آمیز لہجے میں مشورے ہڑتال ختم کرنے کے مشورے دیئے جا رہے ہیں۔
 
یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسپتالوں کو تمام ضروریات مہیا کرکے ڈاکٹروں کے تمام مسائل حل کرکے انہیں کسی بھی مشکل صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر دم تیار رکھتی۔ مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ دوسروں کو زندگیاں بخشنے والے خود اپنی مانگوں کو لے کر حکومتی کارندوں کے ضمیر کو جھنجوڑنے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں، جو کہ اب بھی جاری ہے اور یہی عاقبت نااندیشی معاملے کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھا رہی ہے، سب سے عجیب منطق تو خود سیکرٹری ہیلتھ کی ہے جو یہ کہتے رہے ہیں کہ ڈاکٹروں کے مطالبات جائز ہیں، مگر ہڑتال ناجائز ہے اور تو اور اب تو رانا ثناءاللہ بھی ہڑتالی ڈاکٹروں کو برا بھلا بھی کہہ رہے ہیں اور یہی طرز عمل معاملے کو سیاسی رنگ دیکر کر خراب کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے اور محض سیاسی مخاصمت ہی کے سبب پنجاب حکومت عوامی مشکلات کو بھی بھلا چکی ہے۔ 

جب معاملہ اس قدر سیاسی ہوچکا ہو تو سیاسی مفادات حاصل کرنے والوں کا میدان میں کودنا لازمی ہوتا ہے اور اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں جو پہلے ہی صوبائی حکومت کے رویئے سے نالاں تھے کو سیاسی مفاد پرستوں نے اچک لیا ہے اور اب وہ اسی ایشو کو بنیاد بنا کر شہاز حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لئے تیار دکھائی دیتے ہیں اور اسی مقصد کے لئے انہوں نے ڈاکٹروں کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ بعض اطلاعات کے مطابق پیرا میڈیکل اسٹاف کو بھی احتجاج کی راہ دکھانا شروع کر دی ہے، لیکن ایک حد تک مطالبہ پورا ہونے کے بعد اس اینڈ پر تو کام قدرے ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔
 
یہ تو مانا جاسکتا ہے کہ بقول شخصے محبت، جنگ اور سیاست میں سب جائز ہے، لیکن اس بات کی کسی بھی طور حمایت نہیں کی جاسکتی کہ حکومتی ہٹ دھرمی کا فائدہ اٹھا کر سیاسی مفادات کے لئے ہزاروں انسانوں کی زندگیاں دائو پر لگا دی جائیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہو رہا ہے اور اس میں اس حساس ترین معاملے پر حکومتی رویئے کو ہدف تنقید بنانے والے خود ہی پیش پیش دکھائی دینے لگے ہیں، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ڈاکٹری جیسے پیشے سے وابستہ افراد کا یوں سیاسی بن جانا بھی انتہائی معیوب ہے، لہذا یہاں یہی کہا جاسکتا ہے کہ حق پر مبنی جدوجہد کے باوجود ڈاکٹروں کو بھی عوامی مشکلات کااحساس کرنا چاہیے۔
 
مطالبات منوانے کے لئے احتجاج ان کا حق ضرور ہے، لیکن بہتر یہ ہوگا کہ وہ ایسا طریقہ کار اپنائیں جس سے کم ازکم عوام متاثر نہ ہو سکیں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو تھوڑی بہت عوامی ہمدردیاں جو ڈاکٹرز کے ساتھ ہیں وہ بھی جلد ختم ہو جائیں گے اور ہڑتالیوں اور حکومت کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہ جائے گا اور حکومت سے نالاں عوام اپنے مسیحاں سے بھی متنفر ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 176251
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

salam.saqlain sahab.........ap ki raey ki qadr karta hyn.....lekin ap being a doctor i want to clear you that u we hav no ploitical aims.......sirf qala likhna bara asan kam hy.lekin haqiqat ki parkhana mushkil hy.....agar ap ko sevice strucrutre ki details ka pata ho to ap ki rAey aur behtar ho gi...ii hope u will understand y words positively.God bless u.....
rigtly said. the senior doctors are using the youngsters. who is responsible for killings due non availability of immediate relief. میرے خیال میں گرفتار ڈاکٹروں کی چھترول ہونی چاہیے اور کم از کم ان کی بدمعاش لیڈرشپ کو کسی بھی قسم کی ملازمت کے لئے نااہل کرنا چاہیے۔ یہ مسیحا نہیں درندے اور قاتل ہیں۔ جس قوم کے ٹیکسوں پر یہ پلتے ہیں انہیں کے علاج سے انکار کرتے ہیں۔ ہڑتالی ڈکٹرز کسی رعایت کے مستحق نہیں۔
ہماری پیشکش