2
0
Wednesday 11 Jul 2012 12:49

برما میں مسلمانوں کا قتل عام

برما میں مسلمانوں کا قتل عام
تحریر: ساجد خاکوانی 

ایک اخباری اطلاع کے مطابق جون 2012ء میں برما کے وسطی علاقہ میں دس مسلمانوں کے ظالمانہ قتل کے خلاف جب مسلمانوں نے اپنے اکثریتی صوبے میں احتجاج کیا تو برما کی پولیس نے مسلمانوں پر بے دریغ اندھادھند فائرنگ کرتے ہوئے ان پر بندوقوں کے دہانے کھول دیئے اور براہ راست مظاہرین کے سروں کے نشانے لیے، جس سے ہزاروں مظاہرین موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے اور بے شمار زخمی ہوئے۔ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب ’’ٹونگوپ‘‘ نامی شہر میں 3 جون کو مسلمانوں کی بس پر بدھوں نے حملہ کیا، جو نماز پڑھ کر واپس آرہے تھے، اور اس حملے میں بعض اطلاعات کے مطابق بدھوں نے پرانا کوئی حساب چکانے کے لیے مذہبی عصبیت کی بنیاد پر بس کے مسافروں کو اس بے دردی سے زدوکوب کیا،جس سے دس مسلمان شہید ہوگئے۔

ردعمل میں مسلمانوں نے 8 جون کو ایک بہت بڑا مظاہرہ کیا جس میں بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مقامی انتظامیہ سے آنکھ مچولی بھی ہوئی۔ معاملات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی بجائے 10 جون کو ریاست کے صدر کی طرف سے مسلمانوں کے علاقے شمالی اراکان میں زبردست قسم کی ہنگامی حالت نافذ کرکے عسکری اداروں کو کھلی چھوٹ دے دی کہ کسی قسم کی تحقیقات و دستاویزی ثبوت کے بغیر مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ کریں۔ عسکری اداروں نے پوری بدمعاشی کے ساتھ مسلمانوں کے گھروں پر دھاوا بولا خوب پکڑ دھکڑ اور بازاروں میں لوٹ مار کے بعد عورتوں بچوں اور بوڑھوں سمیت پوری آبادی کو زدوکوب اور مار دھاڑ کا نشانہ بنایا۔

عینی شاہدین کے بیان کے مطابق ٹرکوں کے ٹرک مسلمانوں سے بھر کر نامعلوم مقام کی طرف لے جائے گئے اور اب تک ان کا کوئی پتہ نہیں۔ یہ ساری گرفتاریاں اور مار دھاڑ بغیر کسی قانونی کارروائی کے عمل میں آئی اور بعض آزاد ذرائع کی طرف سے ہزاروں افراد کے قتل کی اور بعض مقامات پر مسلمانوں کے زندہ نذر آتش کرنے کی خبریں بھی ہیں، وجہ یہ ہے کہ وہاں کسی بین الاقوامی ادارے کے صحافی کو جانے اجازت نہیں۔

ایک اندازے کے مطابق اب تک نوے ہزار مسلمان لاپتہ ہیں اور اس تعداد میں اضافہ بھی متوقع ہے۔ حالات کے مارے، لٹے پٹے مسلمانوں نے جب ہزاروں کی تعداد میں بنگلہ دیش کی طرف رخ کیا، تو وہاں کی ’’سیکولر‘‘ قیادت نے ان ’’انسانوں‘‘ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا،کیونکہ سیکولرازم صرف ان کو انسان مانتا ہے جو مغربی تہذیب کی گنگا جمنا میں نہائے ہوئے ہوں، فرزندان توحید، عاشقان مصطفٰی، غلامان اہل بیت اور داڑھی، ٹوپی، پگڑی اور مقامی لباسوں میں ملبوس تو سیکولرازم کے نزدیک انسان نہیں ہیں، بلکہ یہ تو ان کے جانوروں کے برابر بھی ’’انسانی حقوق‘‘نہیں رکھتے۔ پس اب تک وہاں مہاجرین کے خیموں کی لمبی لمبی بستیاں قائم ہو چکی ہیں، جنہیں کوئی ریاست قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، صرف اس لیے کہ وہ کلمہ گو ہیں۔
 
برما کے مسلمانوں پر یہ کوئی نیا شب خون نہیں ہے، یہاں کے مسلمان گزشتہ کئی نسلوں سے اپنی بقاء کی سیاسی و نیم عسکری جنگ لڑ رہے ہیں۔ 1050ء میں ’’بیاط وائی‘‘ نامی مسلمان سردار کا ذکر ملتا ہے، جسے ’’مان‘‘ خاندان کے بادشاہ نے اس لیے قتل کر دیا تھا کہ وہ قوت جمع کر رہا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن، سامراج کے جہاز کرہ ارض کے سمندروں پر قابض رہیں اور ان کی ظالم افواج باراتوں اور جنازوں پر بمباری کرتی رہیں تو بھی وہ امن عالم کے ٹھیکیدار ہیں اور مسلمان اپنے گھر میں دفاعی جنگ لڑے تو بھی دہشتگرد اور عسکریت پسند ہے۔ 

برما کے مشہور تاریخی ہیرو بادشاہ ’’کیان سیتھا‘‘ نے اپنے وقت کے مسلمان سردار ’’رحمان خان‘‘ کو سیاسی و مذہبی اختلافات کی بنیاد پر قتل کرا دیا تھا، اور اس مسلمان کے قتل کے لیے اس بادشاہ نے جلاد کو خصوصاً اپنی ذاتی تلوار دی تھی۔ 1652ء میں ہندوستان کے بادشاہ شہنشاہ خرم شاہجہاں کا دوسرا بیٹا شاہ شجاع کو اس کی بدقسمتی برما لے گئی، اس نے وہاں سے نکلنے کے لیے بھاری رقم برما کے بادشاہ ’’سانٹھا سدھاما‘‘ کو پیش کی اور کہا کہ اس رقم کے عوض اسے ایک بحری جہاز دے دیا جائے، تاکہ وہ حج پر جاسکے، برما کے لالچی بادشاہ نے آداب سفارت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندوستانی شہزادے کو قتل کر دیا، اس کی دولت پر قبضہ کر لیا اور اس کی عورتوں کو پس زنداں ڈال دیا، جہاں وہ بھوک کے ہاتھوں ہلاک ہوگئیں۔

اس ظالمانہ اقدام کے خلاف جب برما کے مسلمانوں نے بے چینی کا اظہار کیا تو ہر داڑھی والے کو مسلمان سمجھ کر تہہ تیغ کر دیا گیا، جو بچ گئے وہ مجبوراََ ہجرت کرکے ہندوستان آگئے۔ 1589ء میں برمی بادشاہ ‘‘بے انٹاؤنگ‘‘ نے ریاست کے بچے کھچے مسلمانوں کو زبردستی بدھ مذہب میں شامل کرنے کی سر توڑ کوشش کی، لیکن پھر بھی کچھ مسلمان جب استقامت پذیر رہے اور انہوں نے برما میں شمع ایمان روشن رکھی۔ 1760ء میں ’’النگ پایا‘‘ نامی برمی بادشاہ نے مسلمانوں کے ذبیحے پر پابندی لگا کر انہیں حلال گوشت سے محروم کر دیا۔ 

1819ء میں برمی بادشاہ ’’بداوپایا‘‘ نے چار علماء دین اسلام کو خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبور کیا، انکار پر اس ظالم بادشاہ نے چاروں کو قتل کرا دیا۔ مشہور ہے کہ ان ائمہ اربعہ کی شہادت کے بعد سات دنوں تک برما میں مکمل اندھیرا رہا، جس کے باعث بادشاہ نے توبہ اور ندامت کا اظہار، کیا تب اجالا نمودار ہوا۔ 

برطانوی دور حکومت میں 1921ء کے سروے کے مطابق برما میں نصف ملین سے زائد مسلمان آباد تھے، لیکن انگریز کی ’’سیکولر جمہوریت‘‘ ہندوستان کی طرح وہاں بھی غیر مسلموں پر ہی مہربان رہی۔ 1845ء میں برما مسلم کانگریس (BMC) بنی، عبدالرزاق اس کے صدر منتخب ہوئے، جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی بدھوں کی مذہبی کتاب کی قدیمی زبان سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ مسلمانوں نے اس پلیٹ فارم سے برما کی آزادی میں بھی بھرپور کردار ادا کیا، لیکن آزادی کے بعد 1955ء میں مسلمانوں کی اس تنظیم کو ختم کر دیا گیا۔ بعد کی حکومتوں نے محسن کش رویہ اختیار کرتے ہوئے برما کو بدھ ریاست قرار دے دیا اور ذبیحے تک پر پابندی لگا دی گئی اور حاجیوں کے راستے میں بھی روڑے اٹکائے جانے لگے۔
 
1962ء میں ’’جنرل نی ون‘‘ کے دور کا آغاز ہوا، جو مسلمانوں کے ابتلاو آزمائش کے ایک نئے عہد کا آغاز تھا۔ فوج سے مسلمانوں کو مکمل طور پر نکال باہر کیا گیا، انہیں جانوروں کا قاتل قرار دیا گیا اور معاشرے میں ان کے لیے ’’کالا‘‘ کا لفظ بول کر ان کی معاشرتی تذلیل و تحقیر کی جانے لگی اور مسلمانوں کے لیے اپنی شریعت پر چلنا بھی دشوار تر کر دیا گیا۔ افغانستان کے اندر’’بامیان‘‘ کے مجسموں کے معاملے کے بعد برما میں بدھوں کے بلوے نے مسلمانوں کی مساجد اور کئی بستیاں نذرآتش کیں اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے رکھا، حالانکہ اگر بامیان کا معاملہ غلط بھی تھا تو برما کے مسلمان تو اس کے ذمہ دار نہیں تھے۔

اس بہت بڑے سانحے کے بعد بعض مسلمان نوجوانوں نے ریاست سے ٹکرانے کا عندیہ بھی ظاہر کیا کہ ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق یہ ایک فطری معاملہ تھا، لیکن مسلمانوں کی بیدار مغز قیادت نے انہیں اس امر سے باز رکھا۔ 16 مارچ 1997ء کو بدھوں کا ایک بہت بڑا گروہ مسلمانوں کے خلاف نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھا اور مسلمانوں کی مسجد کو آگ لگا دی، اس کے بعد مسلمانوں کی مقدس کتب کو جمع کرکے نذرآتش کیا، پھر مسلمانوں کی املاک اور کاروباری دکانوں میں لوٹ مار کی، کئی لوگوں کو قتل کیا اور بے شمار لوگ زخمی بھی ہوئے، اور اس سارے عمل میں ریاست تماشائی بنی رہی۔ 

 15 مئی 2001ء کو ایک بار پھر بدھوں نے مسلمانوں کی گیارہ مساجد مسمار کیں، چار سو سے زائد گھروں کو آگ لگا دی اور دو سو افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا، جن میں سے بیس افراد وہ تھے جو مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے اور انہیں اس قدر پیٹا گیا کہ وہ جان کی بازی ہار گئے، بدھوں کا مطالبہ تھا کہ مسلمانوں کی مساجد کو مسمار کر دیا جائے، جسے حکومت نے تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مان لیا اور متعدد مساجد زمیں بوس کر دی گئیں اور بعض کو مقفل کر دیا گیا۔ مسلمان اپنے گھروں پر عبادت کے لیے مجبور کئے گئے اور بعض نے ہجرت کرلی۔

اب تک لاکھوں برمی مسلمان ہجرت کرکے بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کی سرحدوں پر خیموں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ 2009ء میں تھائی لینڈ کی فوج نے برمی مسلمان مہاجرین کو بے دردی سے مارا پیٹا اور پھر انہیں کشتیوں میں بٹھا کر کھلے سمندر میں دھکیل دیا، جہاں بے رحم موجیں ان مسلمانوں کو نگل گئی اور مشرق سے مغرب تک پوری دنیا خاموش رہی۔ اس دوران حکومت برما اور بین الاقوامی اداروں کے بہت سے وعدے، مذاکرات، بیانات، رپورٹس، قراردادیں اور سرویز مگرمچھ کے آنسؤں سے زیادہ ثابت نہ ہوئے، جن کی تفصیل کے لیے ایک علیحدہ دفتر درکار ہے۔
 
برمی مسلمانوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ امت محمدیہ کا ایک حصہ ہیں، اگر وہ عیسائی یا یہودی ہوتے یا کم از کم گوری رنگت کے حامل ہی ہوتے تو پوری دنیا کا میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا، نیٹو کی افواج امن عالم کا نعرہ بلند کرتی ہوئی پہنچ جاتیں، امریکی قیادت کے دورے ہی ختم نہ ہوتے، یورپی یونین فوراً سے بیشتر پابندیاں عائد کر دیتی، اقوام متحدہ حقوق انسانی کی پامالی پر قراردادیں منظور کرتا ہو اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتا، عرب شیوخ اتنی بڑی بڑی رقوم کے چیک پیش کرتے کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں، عالمی اداروں کے نمائندے اپنے کارندوں کے ہمراہ مظلومین کے ایک ایک فرد کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں بنواتے اور وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی این جی اوز ان کے حالات پر ڈاکومینٹری فلمیں اور ڈرامے بنا کر عالمی ایوارڈ حاصل کر چکی ہوتیں اور مسلمانوں کے حکمران ان کے غم میں ہلکان ہو چکے ہوتے۔

افسوس ہے ان سیکولرازم کے پیروکاروں پر جن کا قبلہ مغرب اور جن کا خدا پیٹ اور جن کا مذہب پیٹ سے نیچے کی خواہش ہے۔ انہیں مملکت خداداد پاکستان کے کسی دور دراز گاؤں میں پٹتی ہوئی عورت تو نظر آتی ہے، لیکن نسلوں سے خون میں نہاتے ہوئے، جمہوریت کے اس دور میں حق خودارادیت و مذہبی آزادی تک کے حق سے محروم برمی مسلمان نظر نہیں آتے۔ لیکن آخر کب تک ؟؟؟ ظلم کی رات کتنی ہی تاریک ہو، آخر کو اسے ختم ہونا ہے۔ 

پوری دنیا پر یورپ کی غلامی کے بعد آزادی کا سورج طلوع ہوا، لیکن برمی مسلمانوں پر انگریز کی غلامی کے بعد اس سے بدتر غلامی مسلط کر دی گئی اور سیکولرازم کی لگی اندھی عینک سے دنیا کی قیادت کو صرف وہی نظر آتا ہے، جو امریکہ اور برطانیہ کی حکومتیں ’’عالمی برادری‘‘ کے نام پر ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں سجھا دیتی ہیں۔ 

امت مسلمہ کی عملی جدوجہد کے باعث گزشتہ صدی ہیل ہٹلر اور سرخ سویرے جیسے ہاتھیوں کو نگل گئی اور اس صدی کا سورج امریکہ کے زوال کی خوشخبری لے کر طلوع ہوا ہے۔ سامراج اپنے استعماری نعروں سمیت غرقاب ہوگا اور پس دیوار افق فاران کی چوٹیوں سے پھوٹنے والی روشنی ایک بار پھر عالم انسانیت کو اپنی آسودگی و راحت بھری گود میں بھرلے گی، انشاءاﷲ تعالی۔
خبر کا کوڈ : 178238
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Germany
ہم تمام عالم اسلام سے ایپل کرتے ہے کۂ وہ برما کے حکومت کے خلاف کارواہی کرے
Germany
امریکہ اسلام کا دشمن ھے .جب مسلمانون کے ساتھ ظلم ھوتا ھے تو امریکہ کدر ھے.امن کا بات کرتا ھے.کدر ھے اس کا امن جب برما میں ہزاروں مسلمان شہید ھو رہے ہیں.ہم امریکہ کو اس کے ناپاک عزاہم میں کامیاب نہیں ھونے دینگے.مسلمانوں کے ساتھ اللہ کا مدد ہیں مسلمان ہمشہ کامیاب ھونگے.برما کے شہیدوں کو ھماری طرف سے سرخ سلام.....رازگروپ ..
ہماری پیشکش