1
0
Saturday 14 Jul 2012 21:17

سعودیوں کی یاری نری بیماری

سعودیوں کی یاری نری بیماری
تحریر:سردار تنویر حیدر بلوچ 

کب ایسا نہیں ہوا کہ امریکہ، اسرائیل یا بھارت کسی مشکل میں پھنسے ہوں اور سعودی حکمرانوں نے ان کی جان چھڑانے کے لیے اپنا کردار ادا نہ کیاہو؟ کاش ! کاش ! ملت مظلوم پاکستان، امریکی استعمار کے شیطانی حربوں کو سمجھے اور پوری دنیا سمیت مشرق وسطیٰ میں امریکی اور اسرائیلی گماشتوں کے کردار کو فراموشی کے قبرستان میں دفن کرنے کی بجائے قومی پالیسی وضع کرتے ہوئے یاد رکھے۔

بظاہر تو تاثر یہ ہے کہ پاکستان اور سعودیہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ بحرین میں سعودی افواج کی مداخلت کے موقع پر انداز جہاں کے عنوان سے کالم لکھنے والے جناب اسد اللہ غالب تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ہمیں سعودی اقتدار اعلیٰ کو بچانے کے لیے اپنی ساری فوج اور ایٹمی قوت بھی جھونکنی پڑے تو گریز نہیں کرنا چاہیے۔ صدام نے جب امریکی اشارے پر اسلامی جمہوری ایران پر یلغار کی اور سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک نے اس کا ساتھ دیا تو یہی کہا جاتا رہا کہ یہ حرمین شریفین کے دفاع کے لیے ناگزیر ہے، اور جب صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا تو بھی کہا گیا کہ سعودی عرب میں امریکی افواج کے زیر کمانڈ لاکھوں کی تعداد میں یہود و نصاریٰ کی موجودگی ’’ حرمین شریفین‘‘ کے دفاع کے لئے ضروری ہے۔ ہاں یہ اس وقت درست ہے جب خدانخواستہ آل سعود ڈالروں اور ریالوں کے بل بوتے پر مخصوص گروہوں کے لیے قبلہ کا درجہ حاصل کر چکے ہوں، ہر مسلمان کے لیے ہرگز نہیں۔

واہ رے بابا جی قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان تیری قسمت! جب بھی امریکی سی آئی اے نے وطن عزیز پر دباو بڑھانا ہو ہم حرمین شرفین کے نام نہاد خادمین کو پاکستان کے مدمقابل کھڑا پاتے ہیں۔ گذشتہ سال امریکی ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کے ایشو کو لے لیں کس طرح ن لیگ کے رشتہ دار سعودی حکمرانوں نے پاکستان کے معصوم نوجوانوں کے قاتل امریکی کو رہائی دلائی۔ امریکی قاتل کی کھلم کھلا رہائی کے واقعہ کے بعد تو ایک رائے یہ بھی ہے کہ نہ صرف پاکستان کے حکمران بلکہ عدلیہ کے بعض عناصر بھی سعودی شہزادوں سے اچھے تعلقات کی بدولت امریکی مفادات کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ راتوں رات عدالت بھی لگ جائے اور امریکی قاتل کو ’’فوری انصاف‘‘ بھی مل جائے اور ساری پاکستانی قوم خون کے آنسو روتے روتے تھک جائے لیکن سمجھ نہ آئے کہ ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے۔

سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملہ کے بعد پاکستانی قوم نے مشترکہ طور پر امریکی جارحیت کے خلاف صف آراء ہونے کا اعلان کیا۔ اور عوامی امنگوں کے مطابق نیٹو سپلائی کی بندش کا فیصلہ کیا گیا۔ اس جرائتمندانہ فیصلے سے پاکستانی قوم میں اعتماد پیدا ہوا ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ سعودی دوستوں کی موجودگی میں پاکستان کے لیے ممکن ہی نہیں کہ اپنے دست و بازو پر بھروسہ کر سکیں، سر اٹھا کے جی سکیں، امریکیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کر سکیں، بھارت جیسے ازلی دشمن کے خلاف کشمیری مسلمانوں کا ساتھ دے سکیں اور توانائی کی کمی پوری کرنے کے لیے دوست ممالک سے تعاون حاصل کر سکیں۔

مارچ ۲۰۱۰ء میں بھارتی وزیراعظم کی سعودی عرب یاترا کے موقع پر جو پانچ معاہدے کیے گیے ان میں سب سے نمایاں بھارت اور سعودی عرب کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ تھا، جس کے نتیجے میں حالیہ پاک امریکہ کشیدگی کے دوران پاکستان کے جہادی حلقوں پر دباو ڈالنے کے لیے فصیح محمود کی سعودی فورسز کے ہاتھوں گرفتاری اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے کیا جانا ہے۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فصیح محمود کا تعلق کہیں نہ کہیں بمبئی حملوں اور لشکر طیبہ سے ہو سکتا ہے، امریکیوں کے بعد سعودیوں کے بھارت کے ساتھ تزویراتی نوعیت کے تعلقات ہماری آنکھیں کھولنے اور ملت مظلوم پاکستان کے ساتھ سعودیوں کی خیانت کاری کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔

گوادر کے نزدیک امریکی جنگی جہاز انٹر پرائز کی قیادت میں کیریئر سٹرائک گروپ کی آمد، اور مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کے زیر نگرانی عرب ریاستوں کے ساتھ سعودی عرب کا امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے فعال کردار، توانائی کے بحران پر سعودیوں کی طرف سے پاکستان کی بلیک میلنگ اور دہشت گردی کے خلاف تعاون کے نام پر سعودیوں کی بھارت نوازی اس بات کا باعث ہیں کہ پاکستان مجبور ہو کر نیٹو فورسز کو چاروں صوبوں کی سڑکیں استعمال کرنے دے ورنہ سنگین نتائج کے لیے تیار رہے۔ سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے بعد جو خوداعتمادی کی فضاء پاکستان میں پروان چڑھی، نیٹو سپلائی کی بحالی سے ملت پاکستان ایک دفعہ پھر خود اعتمادی کے اس گوہر کو کھو چکی ہے’’ سعودی دوستوں ‘‘ کی مہربانی سے یہ ہمارا ایسا نقصان ہے کہ جس کے اثرات طویل عرصے تک رہیں گے۔

ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکہ کی چین کے ساتھ مخاصمت اور بھارت کی طرف جھکاو بھی سعودیوں کی بھارت نواز پالیسیوں کا اہم سبب ہے، حالیہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے بعد بھارت کو وسط ایشیاء تک رسائی کے لیے افغانستان کے راستے جو روٹ فراہم کیا جا رہا ہے وہ بھی ممکنہ طور پر یہی روٹ ہو گا جو نیٹو فورسز کی سپلائی کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ بھارت تو دور کی بات ہے، نیٹو کے سپلائی قافلوں پر آئے دن حملے ہوتے رہتے ہیں اور حملوں کا یہ سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوں گی، جن میں سے کم از کم امریکی دباو کی ایک صورت یہ ہو گی پاکستان معاہدوں کی پابندی کرتے ہوئے سمندر سے لیکر افغانستان کی سرحدوں تک نیٹو کے قافلوں کو سکیورٹی فراہم کرے، حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کرے، جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسے کالعدم گروہوں کی سرگرمیوں کو ختم کروائے۔ خیر یہ تو داخلی سطح پہ ہوگا، خارجہ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کو ہر عالمی فورم پر نہ صرف اقتصادی عدم تعاون کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ جا بے جا حزیمت کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔

ہر درد دل رکھنے والے پاکستانی کی طرح درجنوں جماعتوں پر مشتمل غیر سیاسی اور خالص دفاعی اتحاد میں شامل تمام جہادی اور نیم جہادی جماعتوں کے سربراہوں بلخصوص جماعت اسلامی، جماعت الدعوہ، اور جمیعت علمائے اسلام (س) کے ذمہ داروں کو پاکستان اور سعودیہ میں سے ایک کے مفاد کو منتخب کرنا ہوگا، پاکستان کے عوام انہی اکابرین امت کی طرف نگاہیں لگائے بیٹھے ہیں کہ زرداروں اور لٹیرے سیاستدانوں نے ہمیشہ ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفاد کا سودا کیا ہے لیکن ہمارے دفاع کی خاطر نیٹو سپلائی روٹ پر لانگ مارچ کرنے والے قابل اعتماد مذہبی راہنما کھبی بھارت نواز سعودیوں کی دوغلی پالسیوں کے نتیجے میں ملک و ملت کا نقصان نہیں ہونے دیں گے۔

خبر کا کوڈ : 179111
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

THE WRITER OF THIS COULUM LOOK BEIGNER N NEED IMPROVEMENT NOT GOOD COULM
ہماری پیشکش