QR CodeQR Code

جے ایس او کا کنونشن، ماضی کی یادیں اور قیادت

16 Jul 2012 00:11

اسلام ٹائمز: مانتا ہوں جے ایس او کمزور اور یقیناً آئی ایس او سے چھوٹی تنظیم ہے۔ مگر اس کا قومیات میں بڑھتا ہوا کردار اور فعالیت اسے موثر تنظیم کے طور پر منوائے گی۔ جیسا کہ مجلس وحدت مسلمین کو شروع میں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، مگر فعالیت نے اس تنظیم کو عوام کے سامنے پیش کیا اور اب ایک سیاسی حقیقت بن چکی ہے۔


تحریر: ابن آدم راجپوت

سیالکوٹ میں ہونے والے جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے 8 ویں منتظرین امام کنونشن میں رپورٹنگ کی غرض سے شرکت کا موقع پاکر میری معلومات میں جہاں کافی اضافہ ہوا، وہیں کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوا۔ آئی ایس او کے محب سے لیکر مرکزی کابینہ تک کی ذمہ داریوں کے دوران عہدیداروں، تنظیمی کلچر اور قومی قیادت کو قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا۔ جس پر آج تک کئی سوالات کے جوابات ابھی تشنہ ہیں۔ ایک علامہ ساجد علی نقوی وہ ہیں جن کی تصویر کشی آئی ایس او میں 1995ء کے بعد سے کی جا رہی ہے۔ دوسرے ساجد علی نقوی وہ ہیں، جنہیں ہم نے دیکھا ہے اور آج تک دیکھتے آرہے ہیں۔ تو اس کے بعد میں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں تو یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ابلاغ میں کچھ مسائل موجود ہیں۔ 

علامہ ساجد نقوی کی آمد پر جے ایس او کے کنونشن کا ماحول دیکھ کر مجھے اپنائیت کا ویسا ہی احساس ہو رہا تھا، جیسا کہ 1988ء میں شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے جانشین کے طور پر وہ جامعتہ المنتظر میں آئی ایس او کے کنونشن میں پہلی بار آئے تو اسی طرز کا والہانہ استقبال اور خیر مقدمی نعروں نے مجھے 25 سال پیچھے ماضی میں جانے پر مجبور کر دیا کہ جب
جس قوم کا نعرہ علی ولی                اس قوم کا قائد ساجد علی
مفتی جعفر، سید عارف                    ساجد ہیں دونوں کے وارث
 
جیسے نعرے سنائی دے رہے تھے۔ شیعہ علما کونسل کے قائد جب کنونشن ہال میں داخل ہوئے اور وہاں سے تقریر کرکے روانہ ہوئے تو نوجوانوں کا جو انداز عقیدت میں نے میٹرک کا طالب علم ہوتے ہوئے دیکھا، وہی جے ایس او کے جوانوں میں نظر آیا۔

مانتا ہوں جے ایس او کمزور اور یقیناً آئی ایس او سے چھوٹی تنظیم ہے۔ مگر اس کا قومیات میں بڑھتا ہوا کردار اور فعالیت اسے موثر تنظیم کے طور پر منوائے گی۔ جیسا کہ مجلس وحدت مسلمین کو شروع میں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، مگر فعالیت نے اس تنظیم کو عوام کے سامنے پیش کیا اور اب ایک سیاسی حقیقت بن چکی ہے۔

دونوں طلباء تنظیموں کے کلچر، نعروں، بینرز اور اسٹیکرز کو دیکھ کر پختہ یقین ہو جاتا ہے کہ شہید عارف الحسینی کی شخصیت پاکستان میں شیعیان حیدر کرار کی وحدت کی علامت بن چکی ہے۔ تحریک جعفریہ نے شہید قائد کی شہادت کے بعد انہیں کے نام اور دیئے گئے خطوط پر سیاست کی اور خود کو منوایا۔ مجلس وحدت مسلمین نے ان کے نام پر قرآن و سنت کانفرنس اور برسی منا کر بڑا اجتماع منعقد کیا۔

جے ایس او کے کنونشن میں بار بار  
ہم بازو کس کے       ساجد کے      
ہم بیٹے کس کے    ساجد کے
جیسے نعرے سن کر مجھے جوش الہامی میں کبھی آئی ایس او کے کارکن بھی نعرے لگاتے رہے ہیں۔ جو مجھے یاد آئے
یہ پیاری پیاری       آئی ایس او 
ساجد کی دلاری   آئی ایس او 

جے ایس او علامہ ساجد نقوی کی حمایت میں سابقین آئی ایس او نے تشکیل دی، جنہوں نے 1996ء کے مرکزی کنونشن میں اپنی تنظیم سے اختلاف کیا اور ان میں سے زیادہ وہ تنظیمی لوگ تھے جن کا تعلق سندھ سے تھا۔ ان لوگوں نے آئی ایس او کے تنظیمی 
ڈھانچے کو استعمال کرتے ہوئے جے ایس او کی بنیاد رکھی اور صرف معمولی تبدیلیاں کیں۔ جیسے کہ جے ایس او نے آئی ایس او کے مونو گرام میں حی علی خیر العمل کی جگہ اللہ اکبر کے الفاظ استعمال کئے۔
 
جبکہ مجلس نظارت، مجلس عاملہ اور مجلس عمومی جیسے ادارے دونوں تنظیموں میں مماثلت رکھتے ہیں۔ اس سال یہ بھی اتفاق دیکھنے میں آیا کہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر اظہر عمران اور جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی صدر ساجد علی ثمر دونوں کا تعلق پنجاب کے ضلع لیہ سے ہے۔ امید ہے کہ ولایت فقیہہ پر یقین رکھنے والے دونوں گروپ کبھی اتحاد کے حوالے سے بھی مشترکات پر متحد ہوجائیں تو ملت کے لیے شاید بہٹ بڑی خوش خبری ہوگی۔


خبر کا کوڈ: 179350

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/179350/جے-ایس-او-کا-کنونشن-ماضی-کی-یادیں-اور-قیادت

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org