0
Thursday 26 Jul 2012 15:28

شام کا بحران اور ایران کی قومی سلامتی

شام کا بحران اور ایران کی قومی سلامتی
اسلام ٹائمز- شام کے موجودہ حالات خاص طور پر گذشتہ ایک ہفتے کے دوران پیش آنے والے واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ملک بحرانی حالات کا شکار ہے۔ مغربی حلقوں میں شام کی صورتحال سے متعلق غالب رائے یہ ہے کہ بہت جلد وہاں سیاسی تبدیلی وجود میں آئے گی، صدر بشار اسد یا خود ہی اقتدار کو چھوڑ دیں گے اور یا پھر اقتدار کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ لیکن شام کے حقائق سے متعلق یہ واحد تجزیہ نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ تاثر کہ بشار اسد کو ہر حال میں اقتدار چھوڑنا پڑے گا شام کے حقائق کا ترجمان نہیں بلکہ ایک سنگین نفسیاتی جنگ کی گائیڈ لائن ہے جس کی روشنی میں شام کے حالات کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے مغربی میڈیا میں شام کے تمام حالات کو بیان نہیں کیا جاتا بلکہ ملکی حالات کی ایک سلیکٹڈ تصویر پیش کی جاتی ہے۔
اس وقت شام کے بارے میں دو اہم سوال نظر آتے ہیں، پہلا یہ کہ شام کے اصل حقائق کیا ہیں اور مستقبل قریب میں اس ملک کے ممکنہ تناظرات کیا ہو سکتے ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ شام کے سیاسی حالات ایران کی قومی سلامتی مخصوصا ایران اور امریکہ کے درمیان جاری اسٹریٹجک تنازعہ پر کیا اثرات مرتب کر سکتے ہیں؟
پہلے سوال سے شروع کرتے ہیں۔ شام میں حقیقتا کیا ہو رہا ہے؟ گذشتہ 17 ماہ کے دوران جب شام کے اندرونی حالات خرابی کا شکار ہیں اور وہاں بدامنی پھیلی ہوئی ہے، ایک انتہائی اہم رویداد یہ ہے کہ الجزیرہ نیوز چینل کی سرکردگی میں بعض عرب اور مغربی ذرائع ابلاغ نے اسلامی مزاحمتی بلاک کے حامیوں کو شام کے مستقبل کے بارے میں مایوس کرنے کی انتہائی کوشش کی۔ حتی ایسی رپورٹس بھی موصول ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امیر قطر الجزیرہ نیوز چینل پر شام سے متعلق اخبار کی سلیکشن میں خود شخصی طور پر روزانہ دس گھنٹے کا وقت صرف کر رہا ہے۔
شام میں رونما ہونے والی منفی واقعات کو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت انتہائی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ ملکی سطح پر ہونے والی مثبت پیشرفت کو سنسر کر دیا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ اور انفارمیشن کے حوالے سے شام میں موجود تاریخی اور ہمیشگی ضعف اور کمزوری نے بھی عرب سازش کے حامی چینلز کیلئے کھلا میدان فراہم کر دیا ہے۔ شام میں موجودہ بحران سے قبل نیوز روم جیسا سادہ سافٹ ویئر جو ٹی وی کیلئے اخبار کی دریافت، جانچ پڑتال اور انہیں منتشر کرنے کا کام انجام دیتا ہے بھی موجود نہ تھا۔ لہذا شام کے ذرائع ابلاغ کا بڑا مسئلہ جو اب تک موجود ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح ملکی حالات کو اچھے انداز میں عوام تک پہنچایا جائے جو ان کیلئے قابل یقین بھی ہو۔
درج ذیل نکات کی روشنی میں شام کے حالات کا انتہائی مختصر انداز میں جائزہ لیا جا سکتا ہے:
1. شام میں جاری جھگڑا اور کشمکش عوامی نہیں ہے۔ عوام یا تماشائی کی حیثیت رکھتے ہیں یا پھر ان جھگڑوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ عوام کا وہ حصہ جو صدر بشار اسد کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آنے کا حوصلہ رکھتے تھے اب کچھ حد تک سست پڑ گئے ہیں کیونکہ انہیں احساس ہو رہا ہے کہ اپنے دو بنیادی وظائف یعنی عوام کی معیشت اور انکی سکیورٹی فراہم کرنے میں حکومت کی صلاحیت اور توانائی کم ہو چکی ہے۔
حکومت کا دفاع کرنے میں سستی کا مظاہرہ کرنا ہر گز یہ معنا نہیں رکھتا کہ عوام حکومت مخالف عناصر کے حامی ہیں جیسا کہ ابھی تک حکومت مخالف عناصر ملک میں ایک بڑا عوامی اجتماع بھی تشکیل نہیں دے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت مخالف گروہ ہر ایسے راہ حل کو مسترد کرتے ہیں جن میں الیکشن اور انتخابات کا آپشن مطرح کیا جاتا ہے۔
حکومت کے مخالفین بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر آزاد الیکشن کروائے جائیں اور عوام کو اس میں شرکت کا موقع دیا جائے تو وہ کبھی بھی ایسے سلفی گروہوں کو علویوں پر ترجیح نہیں دیں گے جن کے بارے میں واضح ہو چکا ہے کہ انہیں اگر کوئی کام اچھی طرح آتا ہے تو وہ دہشت گردی اور دہشت گردانہ اقدامات ہیں۔
شام کے حکومت مخالف گروہوں کو عوام میں ذرہ بھر محبوبیت حاصل نہیں۔ بلکہ اس کے برخلاف شام میں موجود سنی اکثریت کا سلفی اقلیت سے خوف وہ اہم حقیقت ہے جسے مغربی اور عرب ذرائع ابلاغ میں ہمیشہ سنسر کیا جاتا رہا ہے۔ اسی حقیقت کی وجہ سے حکومت مخالف عناصر کسی مذاکراتی یا انتخاباتی راہ حل کی جانب نہیں آتے۔
2. اب یہ بہت حد تک واضح ہو چکا ہے کہ اخوان المسلمین اور بعض اسلام پسند گروہ شام کے حکومت مخالف عناصر کا بڑا حصہ شمار کئے جاتے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ اخوان المسلمین کا مقصد کیا ہے اور شام کی اخوان المسلمین جو مصر، سوڈان اور فلسطین میں موجود اخوان المسلمین سے بہت زیادہ مختلف ہے کیوں اچانک ہی اسرائیل کی پٹھو تنظیم میں تبدیل ہو گئی ہے؟ اس سوال کا جواب دیئے جانے کے بعد یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ شام میں جنم لینے والی حکومت مخالف تحریک کی نوعیت اسلامی بھی ہے یا نہیں؟
اخوان المسلمین شام کا مختصر جائزہ:
الف- اخوان المسلمین کے بعض دھڑے حقیقتا شام میں ایسی حکومت کے برسراقتدار آنے کے خواھشمند ہیں جو سلفی انداز میں شریعت کا اجراء کرے۔ یہ وہ دھڑا ہے جو صدر بشار اسد کی حکومت کی سرنگونی کے بعد بھی اسرائیل کے ساتھ سازباز کرنے کیلئے تیار نہیں ہو گا اور ایک تجزیہ کے مطابق علویوں سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ شام کے سرحدی علاقوں میں جہادی کاروائیاں انجام دے گا۔
ب۔ اخوان المسلمین کا دوسرا دھڑا یہ خیال کرتا ہے کہ خطے کا مستقبل اخوان المسلمین کے ہاتھ میں ہے لہذا غیراخوانی حکومتوں پر تکیہ کرنے کی کوئی ضرورت موجود نہیں ہے۔ یہ دھڑا اگرچہ قبول کرتا ہے کہ شام نے اسلامی مزاحمتی بلاک کی حمایت میں تاریخی کردار ادا کیا ہے لیکن سمجھتا ہے کہ خطے میں مصر جیسی نئی حامی حکومتوں کے برسراقتدار آ جانے کے بعد اب انہیں شام کے ساتھ اپنا تعلق بحال رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ج- اخوان المسلمین کا تیسرا دھڑا جو اچھی خاصی اکثریت کا بھی حامل ہے صرف عوام کی حمایت اور سعودی عرب سے ڈالر کے حصول کیلئے دین اور شریعت کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے۔ یہ دھڑا خفیہ طور پر ایسے سکولر عناصر سے رابطہ برقرار کئے ہوئے ہے جن کے فرانس، امریکہ، لبنان میں 14 مارچ گروپ اور اردن کی سکولر حکومت کے ساتھ گہرے تعلقات استوار ہیں۔ شام میں حکومت مخالف تحریک میں یہ دھڑا بنیادی کردار کا حامل ہے۔
نتیجتا یہ کہا جا سکتا ہے کہ
اگر خوشبینی سے دیکھا جائے تو اخوان المسلمین ایک اسٹریٹجک غلطی کی مرتکب ہو رہی ہے ورنہ دوسری صورت میں اخوان المسلمین خفیہ طور پر امریکہ کے ساتھ کوئی معاہدہ انجام دے چکی ہے۔ ایک اور اہم حقیقت جو عام طور پر سنسر کی جارہی ہے یہ ہے کہ اگر بالفرض شام میں صدر بشار اسد کی حکومت سرنگون ہو بھی جاتی ہے تو امریکہ ہر گز یہ اجازت نہیں دے گا کہ حکومت اخوان المسلمین کے اس دھڑے کے ہاتھ میں آ جائے جو اسرائیل کا شدید مخالف دھڑا تصور کیا جاتا ہے۔
لہذا اگر اخوان المسلمین اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کو شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کو گرانے میں صرف کرے تو اسکے نصیب میں جو چیز آئے گی وہ حکومت سے دوبارہ دوری ہے جو اس دفعہ ایسے افراد کی جانب سے انجام پائے گی جو امریکہ اور اسرائیل کے پکے اتحادی شمار کئے جاتے ہیں۔ اخوان المسلمین شام کو جان لینا چاہئے کہ حکومت میں شریک ہونے کا واحد راستہ موجودہ سیاسی نظام میں رہ کر انتخابات میں حصہ لینا ہے اور بشار اسد کے جانے کے بعد شام کی حکومت کسی صورت بھی اسرائیل مخالف عناصر کے ہاتھ نہیں لگے گی۔
البتہ اس بارے میں ایک اور رائے بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ اخوان المسلمین کے بعض دھڑے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا راستہ ترک کرنے کی ضرورت ہے اور اسرائیل کی موجودیت کو تسلیم کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک معاہدہ انجام دیا جانا چاہئے اور پھر مستقبل میں خطے کی حکومتوں کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ سوچ انتہائی بچگانہ سوچ ہے لیکن بدقسمتی سے ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ خطے کی بعض اسلامی تنظیمیں اس نتیجے تک پہنچ چکی ہیں کہ قطر جو ایسا واحد عرب ملک ہے جس نے اسرائیل سے باقاعدہ سفارتی تعلقات استوار کر رکھے ہیں، اسلامی مزاحمت کا بہترین مورچہ ثابت ہو سکتا ہے، نہ شام جو گذشتہ 30 سال سے زیادہ عرصے سے بغیر کوئی معاوضہ طلب کئے اسلامی مزاحمت کی حمایت میں مصروف ہے۔
3. شام کے بحران سے متعلق اگلا نکتہ یہ ہے کہ یہ بحران علاقائی نہیں بلکہ باہر سے پیدا کیا گیا ہے۔ سیاسی اعتبار سے یہ بحران ان منصوبوں کا نتیجہ ہے جو امریکہ، یورپ، عرب لیگ اور آخرکار کوفی عنان کی جانب سے اجراء کئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر جب سے کوفی عنان کے پیش کردہ منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوا ہے اور اس منصوبے کے تحت بین الاقوامی مبصرین شام میں داخل ہوئے ہیں، دہشت گردانہ اقدامات میں 20 گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جناب کوفی عنان کی جانب سے پیش کردہ منصوبہ ڈپلومیٹک روپ میں درحقیقت ایک ایسا پراجیکٹ تھا جس کا مقصد شام آرمی کے ہاتھ باندھنا تھا اور حکومت مخالف گروہوں کو تشکیل نو اور مسلح ہونے کی فرصت فراہم کرنا تھا۔
اسکے علاوہ یہ منصوبہ اپنے آغاز سے ہی کسی مشخص سیاسی نتیجے کے ہمراہ نہ تھا یعنی اس میں واضح نہیں کیا گیا تھا کہ شام کا بحران کس طرح سے حل ہونا ہے اور مستقبل میں اس ملک کا سیاسی نظام کیا ہو گا؟
فوجی اور سکیورٹی اعتبار سے صورتحال اس سے بھی بدتر ہے۔ شام کے حکومت مخالف گروہ امریکی اسلحے، ترکی کی ٹریننگ، اسرائیل کی انٹیلی جنس سپورٹ، اردن کی مدد اور سعودی عرب اور قطر کی مالی امداد سے وجود میں آئے ہیں۔ کافی ہے یہ مدد اور حمایت کچھ مدت کیلئے بند ہو جائے، خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ شام میں حکومت مخالف تحریک کس حد تک عوامی حمایت کی حامل ہے اور کتنے دنوں تک جاری رہتی ہے۔
لہذا شام کا بحران باہر سے اس ملک پر تھونپا گیا ہے اور اسی وجہ سے شام کے حکومت مخالف دھڑے روز بروز امریکہ اور اسرائیل کے سکیورٹی اہداف کے ساتھ منسلک ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ تحریک نہ فقط کسی عوامی حیثیت کی حامل نہیں ہے بلکہ اس نے عام افراد کے خلاف مجرمانہ کاروائیوں کے ذریعے انہیں ڈرانے دھمکانے اور حاکم نظام کی حمایت سے روکنے کو اپنی اصلی اسٹریٹجی بنا رکھا ہے۔
4. اگلا نکتہ شام کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کی سیاست خارجہ کو صحیح طور پر سمجھنا ہے۔ شام میں بحران کے ابتدائی چند مہینوں کے دوران امریکہ اور اسرائیل حکومت مخالف عناصر کی کافی حد تک شناخت نہ ہونے اور انکی فعالیت انتہائی کم ہونے کے باعث ایک طرح سے کنفیوژن کا شکار تھے۔ خاص طور پر اسرائیلی حکام کا خیال یہ تھا کہ ممکن ہے صدر بشار اسد کی جگہ ایسے گروہ برسراقتدار آ جائیں جو اسرائیل کے ساتھ جنگ اور دشمنی اور اپنی پہلی ترجیحات میں شامل کر لیں لہذا جب تک یہ واضح نہیں ہو جاتا کہ شام میں کون لوگ حکومت کی مخالفت کرنے میں مصروف ہیں اس وقت تک شام کے حالات کے بارے میں محتاطانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
کچھ ماہ بعد سعودی عرب اور ترکی کی کوششوں سے امریکی اور اسرائیلی حکام مطمئن ہو گئے کہ شام کے حکومت مخالف گروہوں کے سربراہان دراصل انہیں کے انٹیلیجنس ایجنٹس ہیں لہذا شام میں صدر بشار اسد کے بعد آنے ولی حکومت کے بارے میں کسی قسم کی پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اسی وجہ سے اسرائیلی حکام نے اعلان کیا کہ شام میں اسد حکومت کی سرنگونی انکی پہلی ترجیح ہے اور وہ اس ہدف کو کسی دوسرے مقصد سے ہر گز جایگزین نہیں کریں گے۔
جو چیز اس وقت اہم ہے وہ یہ کہ اولا امریکیوں نے طے کیا کہ شام میں حکومت کی سرنگونی کا اصل کام ترکی اور عرب ممالک کو سونپا جائے اور خود پیچھے رہ کر انکی مدد کریں۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ امریکی معاشرے میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ امریکی فوج افغانستان اور عراق کے بعد اب کوئی نیا محاذ کھولنے کی پوزیشن میں نہیں۔ دوسرا یہ کہ اسرائیل سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ شام سے متعلق اپنی سرگرمیاں مکمل طور پر خفیہ انداز میں انجام دے اور میڈیا میں جہاں تک ہو سکے شام کے بارے میں خاموشی اختیار کرے تاکہ معلوم نہ ہو سکے کہ شام کا بحران اسرائیل کا ایجاد کردہ ہے۔
اسکے علاوہ موصولہ معلومات ظاہر کرتی ہیں کہ شام میں اسرائیل کو دو اہم خفیہ مشن سونپے گئے ہیں:
۱۔ شام کی سکیورٹی اور فوجی تاسیسات کو نابود کرنا،
۲۔ ملک کی اہم سکیورٹی اور فوجی شخصیات کو قتل کرنا۔
5. ایک اور اہم نکتہ جو شام کے ساتھ مختص بھی نہیں بلکہ پوری عرب اسپرنگ پر صادق آتا ہے یہ کہ امریکی اور اسرائیلی حکام نے سعودی عرب اور ترکی کے تعاون سے شروع سے ہی ان تحریکوں کو کنٹرول کرنے اور ان میں ایران کے اثرورسوخ کو ختم کرنے کا بہترین راستہ یہ تلاش
کیا کہ اسلامی بیداری کی اس تحریک کو شیعہ سنی مسئلہ بنا کر پیش کیا جائے۔ شیعہ سنی اختلافات مغربی حکام کے ہاتھ میں ایک ایسے ہتھکنڈے میں تبدیل ہو گئے جن کے ذریعے انہوں نے عرب اسپرنگ کی نوعیت کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کیلئے استعمال کیا تاکہ خطے کی انقلابی تحریکوں کے حملات کا رخ امریکہ اور غرب سے ہٹا کر شیعہ سنی جھگڑوں کی جانب کر دیا جائے اور اس طرح انکی توانائیاں امریکہ اور مغربی دنیا کے خلاف صرف ہونے کی بجائے شیعہ سنی اختلافات اور خلیج کے مزید گہرا ہونے میں صرف ہو سکیں۔
اسی وجہ سے ہم شام سمیت تمام خطے میں مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ہر مسئلہ کو شیعہ سنی جھگڑے کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ اس طریقے سے اسرائیل اور مغربی دنیا خود کو ان انقلابی تحریکوں سے محفوظ بنا سکیں۔ شام کے حکومت مخالف گروہ اس وقت سنی کے نام پر شیعوں کی نسل کشی اور شیعہ کے نام پر سنیوں کی نسل کشی کرنے میں مصروف ہیں۔
6. شام کے حقائق کو جاننے میں آخری اہم نکتہ شام کے حاکم نظام کو پہچاننا ہے۔ اس بارے میں کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں:
۱۔ شام میں حاکم نظام نے سیاسی طور پر بھی اور فوجی و سکیورٹی اعتبار سے بھی اپنے اتحاد اور وحدت کو حفظ کیا ہے۔ اگرچہ سیاسی مجموعے میں چھوٹے چھوٹے شکاف دیکھنے میں آ رہے ہیں اور فوج میں بھی جدائی طلبی اور بغاوت کے اکا دکا واقعات سامنے آئے ہیں لیکن بدبین ترین تجزیہ کاروں کے خیال میں شام کی حکومت مجموعی طور پر اب بھی ایک اتحاد اور وحدت کی حامل ہے اور ملک پر اسکا کنٹرول بھی باقی ہے۔
۲۔ شام کے حکومت مخالف گروہوں نے لیبیا طرز کا انقلاب لانے کیلئے کئی ماہ تک سرحدی علاقوں میں بن غازی جیسا اڈہ بنانے کی لاحاصل اور ناکام کوششیں کرنے کے بعد گذشتہ ایک ماہ سے اپنی سرپرست مغربی انٹیلی جنس ایجنسیز سے ایک نیا مشن وصول کیا اور وہ یہ تھا کہ اپنا تمام اسلحہ اور سازوسامان دمشق کے اردگرد پہنچائیں تاکہ شام کے دارالحکومت میں ایک بڑی کاروائی کی جا سکے۔ یہ منصوبہ درج ذیل مفروضات پر استوار تھا:
اول۔ دمشق سے باہر شام کی فوج سے مقابلے کی صلاحیت باقی نہیں رہی،
دوم۔ دمشق شہر کے اندر انسانی اور فیزیکل موانع کے پیش نظر شام کی فوج دہشت گرد عناصر سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی،
سوم۔ دمشق شہر کے اندر فوج اور حکومت مخالف گروہوں کے درمیان لڑائی کے شیعہ سنی جھگڑے میں تبدیل ہو جانے کے امکانات زیادہ ہیں، اور
چہارم۔ دمشق کے اندر چھوٹی سی ضرب صدر بشار اسد کی حکومت کیلئے اس بڑی ضرب سے کہیں زیادہ موثر ثابت ہو سکتی ہے جو سرحدی علاقوں میں لگائی جائے۔
بہرحال موصولہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران دمشق میں ہونے والی جھڑپوں میں شام فوج کو واضح برتری حاصل ہوئی ہے۔ شام کی قومی سلامتی کونسل کے مرکزی دفتر میں دہشت گردانہ بم دھماکہ بھی اس لئے انجام پایا کہ حکومت مخالف گروہوں کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے جسکی وجہ سے اسرائیل بھی سرگرم عمل ہو گیا اور شام کے سکیورٹی نظام میں انفلٹریشن کے ذریعے خودکش بم دھماکہ انجام دیا۔
یہ بات انتہائی واضح ہے کہ دمشق شام کے حکومت مخالف گروہوں کا آخری اسٹیشن ہے اور انکے ساتھ مقابلے کیلئے حکومت کی توانائیاں کئی وجوہات کی بنیاد پر چند گنا بڑھ چکی ہیں۔ ان وجوہات میں ان گروہوں کی دہشت گردانہ نوعیت کا فاش ہو جانا، عوام کی حمایت اور حکومت مخالف مرکزی عناصر کا ایک محدود علاقے میں جمع ہو جانا شامل ہیں۔
اب ہم اپنے دوسرے سوال کی جانب آتے ہیں۔ ایران کی قومی سلامتی پر شام کے حالات کس انداز میں اثرانداز ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں بعض اہم نکات درج ذیل ہیں:
1۔ یہ امر یقینی ہے کہ شام کا حکومتی نظام درمیانی مدت میں سرنگون ہونے والا نہیں۔ شاید یہ نظام کمزور ہو جائے یا مزید بین الاقوامی دباو کا شکار ہو جائے لیکن شام پر اسکی حاکمیت برقرار رہے گی۔ اسکا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ شام کی حکومت بحرانی صورتحال سے نکلتے ہی اولا ان ممالک کے خلاف انتقامی کاروائی کے بارے میں منصوبہ بندی کرے گی جو شام کی موجودہ بدامنی میں ملوث ہیں اور ثانیا اسکی امریکہ دشمنی اور اسرائیل دشمنی میں مزید شدت آ جائے گی جو یقینا اسلامی مزاحمت کے فائدے میں ہے اور ایران کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
2۔ اس بات کے امکانات انتہائی کم ہیں کہ روس اور چین شام کے معاملے میں مغربی دنیا سے کسی سودے بازی پر راضی ہو جائیں کیونکہ یہ ممالک لیبیا کے تجربے کے بعد بہت اچھی طرح جان چکے ہیں کہ امریکہ کسی صورت میں انکے مفادات کو تسلیم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا اور اس کوشش میں مصروف ہے کہ روس اور چین کے زیراثر علاقوں میں بدامنی پھیلائے۔ لہذا ماضی کے برخلاف جب روس اور چین کا رویہ قابل پیش بینی نہیں تھا اور ہر لحظہ امریکہ کے ساتھ انکی سودے بازی کا امکان موجود تھا، اب واضح ہو چکا ہے کہ یہ دو ممالک حتی ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بھی امریکہ کے ساتھ کسی مفاہمت تک نہیں پہنچ سکتے۔ روس اور چین کے بل بوتے پر مغرب مخالف بلاک کا قیام ایران کی اسٹریٹجک کامیابی تصور کی جاتی ہے۔
3۔ مغربی ممالک نے یقینی طور پر ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ٹائم ٹیبل کو شام کے مسئلے سے متعلق ٹائم ٹیبل کے ساتھ منطبق کیا ہوا ہے۔ اگر شام بحرانی صورتحال سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق مغرب کی سفارتکاری میں بھی قابل توجہ حد تک تبدیلی دیکھنے میں آئے گی۔ مغربی حکام کا خیال ہے کہ ایران صرف اس وقت اپنے ایٹمی پروگرام میں بنیادی تبدیلیاں کرنے پر رضامند ہو گا جب یہ دیکھے گا کہ اسکی قومی سلامتی روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہے اور شام کی صورتحال ان اہم عوامل میں سے ایک ہے جو ایران کی قومی سلامتی پر انتہائی موثر ہیں۔ اسی طرح شام کی حکومت کا اس بحران سے عبور کر جانے کے نتیجے میں اسرائیل کی قومی سلامتی شدید خطرے سے دچار ہو سکتی ہے جسکے نتیجے میں مغربی دنیا ایران کو مزید مراعات دینے پر مجبور ہو جائے گا۔
لہذا ظاہری طور پر دکھائی دینے والے حالات کے برخلاف شام کے حالات نہ فقط ایران کے نقصان میں آگے نہیں بڑھ رہے بلکہ اسرائیل کی قومی سلامتی کا خطرے سے دچار ہو جانے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ یہ وہی امکان ہے جس نے مغربی دنیا کو شدید طور پر پریشان کر رکھا ہے۔
خبر کا کوڈ : 180752
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش