0
Saturday 21 Jul 2012 23:00

پاکستانی حکمران ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں؟

پاکستانی حکمران ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان نے امریکہ کی جانب سے محض ایک لفظ ’’سوری ‘‘ کہے جانے پر نیٹو سپلائی بحال کر دی ہے اور اس کے جواب میں امریکہ نے پاکستان کے منہ پر ایسا طمانچہ رسید کیا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی اور ممکن ہے پاکستان کے حکمران اس طمانچے کی تکلیف برسوں نہ بھلا پائیں۔ ڈالروں کے لالچ میں اندھے حکمرانوں کے لئے یہ خبر بجلی بن کر گری کہ امریکی کانگریس نے پاکستان کی فوجی امداد میں 65 کروڑ ڈالر کٹوتی کی منظوری دے دی ہے۔

امریکہ کی کانگریس میں حزب اختلاف کی جماعت ری پبلکن کے رکن ٹیڈپو نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسلام آباد کے کردار کو غداری سے تعبیر کرتے ہوئے پاکستان کے فوجی امداد میں ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کی کمی کا مطالبہ کیا تھا۔ ٹیڈپو کے مطابق پاکستان امریکی امداد کا مستحق نہیں، وہ غداری کر رہا ہے۔ امریکا میں پاکستانی سفیر شیری رحمن نے امریکی کانگریس کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے پاک امریکا تعلقات میں بدگمانی پیدا ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔

ان کا خیال ہے کہ یہ بل ابھی پالیسی نہیں بنا، اسے ابھی سینٹ میں پیش ہونا ہے جہاں اس کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ پاکستانی سفارتی کاوشیں اس بل کو روبہ عمل آنے سے روکنے میں کامیاب ہو جائیں گی، مگر کانگریس کے ایوان میں یہ گونج مسلسل سنائی دے رہی ہے کہ امریکا ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے کی وجہ سے پاکستان سے سخت ناراض ہے اور اس لئے ری پبلکن سینیٹر رانڈ پال تو اس حد تک جانے کو تیار ہیں کہ پاکستان کی ساری فوجی امداد بند کی جائے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاک امریکا تعلقات معمول پر لانے کی پاکستانی دفتر خارجہ کی ساری کوششیں بے کار مشغلہ دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر بھی امریکا کو رام کرنے میں ناکام رہا ہے پاکستان پر غداری کا الزام لگانے والے امریکی ممبران کانگریس اور سینیٹرز خود امریکا کی دوغلی پالیسی کے بارے میں خاموش ہیں۔ 

امریکا کے لئے پاکستان نے اپنے وطن کے گلی کوچوں میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اپنے ہزاروں شہریوں کی جان و مال کا خسارا برداشت کیا ہے اور اپنے ہی لوگوں سے لڑائی مول لے کر اپنی قومی سلامتی و استحکام کو خطرے سے دوچار کر لیا ہے۔ اس کے باوجود امریکی پاکستان سے خوش نہیں، بلکہ سخت ناراض ہو کر ہماری مالی امداد میں کمی کرنے کے لئے بل پاس کر رہے ہیں، تو ہمارے ارباب اختیار کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس قسم کی خارجہ پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں، جس کے ہمیشہ منفی نتائج ہی سامنے آتے ہیں۔

نیٹو پالیسی کی بحالی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکا ہماری روکی ہوئی امداد جاری کرکے ہمیں معاشی مسائل کے بھنور سے نکلنے میں مدد دے کر دہشت گردی کی جنگ میں پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرتا، مگر اس کی ایوانہائے اقتدار میں پاکستان کی مشکیں کسنے کے بل پاس ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کے لوگوں میں امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ نہ ہو تو کیا ہو گا۔۔۔؟
 
پاک امریکا تعلقات میں بہتری لانے کے لئے بے تاب حکمرانوں کے لئے امریکا کے نئے تیور لمحہ فکریہ ہیں مناسب ہوگا کہ ہم اس تناظر میں اپنے رویے پر نظرثانی کریں اور خارجہ پالیسی کو قومی امنگوں اور خواہشات کے مطابق ڈھالنے کے لئے اقدام کریں۔۔۔ وگرنہ عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہوں گے کہ حکمران اشرافیہ پاکستان کے آزادی اور سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 180902
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش