0
Tuesday 31 Jul 2012 10:37

فاٹا، مسائل اور حل 2

فاٹا، مسائل اور حل 2
تحریر: رشید احمد صدیقی 

فاٹا پاکستان کے شمال مغرب میں پختون قبائل کی پٹی کا نام ہے، جہاں پر آئین ہے نہ قانون۔ ایک کروڑ آبادی کی حامل اس پٹی کے بارہ ارکان قومی اسمبلی اور آٹھ سینیٹر ہیں۔ لیکن یہ لوگ پارلیمنٹ کے اندر قانون سازی نہیں کرسکتے۔ دوسرے علاقوں کے بارے میں قانون سازی ہو رہی ہو تو ان کو بولنے کا حق ہے لیکن اپنے حلقہ ہائے انتخاب کے لئے قانون سازی نہیں کرسکتے۔ ان لوگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ووٹ بیچنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے۔ آئین و قانون بنانے پر تو ان پر پابندی ہے۔ ترقیاتی کام کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں کیونکہ فاٹا میں یہ کام سرے سے ہوتا نہیں۔ ان دنوں فاٹا کے آئینی مستقبل کے بارے میں بحث چل رہی ہے۔ صدر مملکت یہاں کے مختار کل ہوتے ہیں، جو اپنے اختیارات گورنر اور پولیٹیکل ایجنٹ کو تفویض کرتے ہیں۔ قانون یہاں پر انگریز دور کا ایف سی آر چل رہا ہے۔ ایک سال قبل صدر مملکت نے ایک نیا قانون جاری کیا۔
 
ایف سی آر میں پولیٹیکل ایجنٹ یا اس کا نمائندہ کسی قبائلی کو اڑھائی سو سال قید کی سزا سنا سکتا ہے اور نئے قانون میں گورنر کا نامزد نمائندہ جو فوجی اہلکار بھی ہوسکتا ہے وہ کسی بھی قبائلی کو موت کی سزا بھی دے سکتا ہے، دونوں قوانین کے تحت دی گئی سزا کو پاکستان کی کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ دنوں پشاور کے ایک بڑے ہوٹل میں قاضی حسین احمد کے ادارہ فکر و عمل میں اس موضوع پر ایک بڑا سیمینار ہوا۔ اس میں تقریر کرنے والے تمام مقررین کا تعلق فاٹا سے تھا۔ 

سیمینار میں ایک بات شدت سے محسوس کی گئی جو خوش آئند بھی تھی کہ اپنے مسائل کا رونا تو تمام لوگ رو رہے تھے۔ اور سب سے پہلا حل یہ تجویز کر رہے تھے کہ یہاں سے فوج نکل جائے، آپریشن ختم کیا جائے اور متاثرین کو باعزت طور پر گھروں میں جانے دیا جائے۔ علاوہ ازین ہر مقرر قبائل کو سب سے بڑھ کر پاکستانی قرار دے رہا تھا۔ اور روتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ہم نے پاکستان کا مسلح دفاع کیا ہے۔ اس کے بدلے میں آج ہمیں کیا مل رہا ہے۔ ان کے خیال میں وہ اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، اس کے باوجود وہ اپنی حب الوطنی کا یقین دلا رہے تھے۔ 

تین تجاویز پر بات ہو رہی تھی۔ اے این پی کے رہنماء لطیف آفریدی اور دو صحافیوں سلیم صافی اور عقیل یوسفزئی کی رائے تھی کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں نمائندگی دی جائے اور اسے باقاعدہ صوبہ میں مدغم کیا جائے۔ لطیف آفریدی کی پوری تقریر اسی موضوع پر تھی جب کہ موخر الذکر دو صحافی حضرات اشاروں کنائیوں میں یہ بات کہہ رہے تھے۔ لطیف آفریدی کہہ رہے تھے کہ فاٹا میں سرکاری دفاتر کے لیے عمارتیں نہیں ہیں۔ سرکاری ادارے نہیں ہیں۔ ان کو آپس میں ملانے کے لیے سڑکیں نہیں ہیں۔ ہسپتال اور تعلیمی ادارے نہیں ہیں۔ 

ان تمام عوامل کے علی الرغم فاٹا میں الگ صوبہ بننے کے صلاحیت نہیں ہے۔ ادارہ جاتی نیٹ ورک کے بغیر صوبہ نہیں بن سکتا اور یہ نیٹ ورک بنانے پر بہت زیادہ رقم خرچ ہوگی تو دوسری طرف بہت زیادہ وقت بھی لگے گا۔ چنانچہ آسان اور ممکمن العمل راستہ یہ ہے کہ ان علاقوں کو کے پی کے میں شامل کرکے ترقی کے دھارے میں لایا جائے۔ ان تین حضرات کے علاوہ درجن بھر سے زیادہ مقررین الگ صوبہ یا الگ صوبہ بننے تک منتخب قبائلی کونسل کے قیام کی بات کر رہے تھے۔ کوئی بھی کے پی کے میں ضم ہونے کے لیے آمادہ نہیں تھا۔ 

لطیف آفریدی کے دلائل کو اگر تحریک پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو کانگریسی قیادت قائد اعظم کو یہی دلائل دے رہی تھی کہ کہ پاکستان بنائیں گے تو یہاں پر ساحل کہاں، سڑکیں اور مواصلات کے دوسرے ذرائع نہیں۔ صنعتیں نہیں۔ ادارہ جاتی نیٹ ورک نہیں۔ دفاتر کے لیے عمارتیں نہیں۔ تقریباً یہی دلائل دیئے جاتے تھے جو اس دن لطیف آفریدی دے رہے تھے۔ قائد اعظم کی ایک ہی دلیل ہوتی تھی کہ اپنا ملک بننے دیں، سب کچھ بن جائے گا۔ سیمینار میں قبائلی رہنماء بھی یہی بات کر رہے تھے کہ 65 سال میں ہمیں کیا ملا کہ اب صوبہ کے ساتھ جا کر فاٹا ترقی کر سکے گا۔ صدر مجلس اور میزبان قاضی حسین احمد بار بار کہہ رہے تھے کہ آج ہم کسی خاص لائحہ عمل پر نہیں پہنچیں گے، یہ بحث جاری رہی گی اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مشاورت میں شامل کرکے کسی متفقہ لائحہ عمل پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ 

ان دنوں فاٹا میں فوجی آپریشن اور بغاوت کی سی صورت حال ہے۔ بلوچستان میں بھی یہی صورت حال ہے۔ لیکن ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ بلوچستان میں پاکستان سے علیحدگی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان کے پرچم پر پابندی کافی علاقوں میں لگائی گئی ہے۔ لوگوں کو قتل کیا جارہا۔ اٹھایا جا رہا ہے، لاپتہ افراد کی فہرست بڑھ رہی ہے۔ فاٹا اور دوسری طرف فاٹا کے لوگ تمام تر مشکلات کے باوجود حب الوطنی کے گیت گا رہے ہیں، جبکہ بلوچستان میں علیحدگی کی باتیں ہو رہی ہیں۔۔۔۔ خاکم بدہن اگر یہاں سے کوئی یہ شرارت کر لے کہ کہ ہمارے لوگوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کے نتیجے کے طور پر ہم علیحدگی چاہتے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک مطالبہ ہوگا، کیونکہ اس طرح کے مطالبہ کی حمایت افغانستان، امریکہ بھارت اور اسرائیل سے کی جائے گی اور عملاً پاکستان کی تقسیم کی ایک بین الاقوامی سازش بن جائے گی۔

بلوچستان میں بغاوت کا جھنڈا قوم پرستوں نے اٹھایا ہوا ہے، جبکہ یہاں کی صورت حال کو طالبان سے جوڑا جاتا ہے۔ حکومت کی سطح پر تو اب تک ایسا کوئی اشارہ دیکھنے کو نہیں ملتا کہ بلوچستان یا فاٹا کے مسائل حل کرنے میں کوئی سنجیدگی نظر آئے۔ قاضی حسین احمد اور ان جیسے دوسرے درد دل رکھنے والے قومی قائدین سے گزارش ہے کہ فاٹا میں سیاسی جماعتوں کے جلسوں سے بڑھ کر وہاں پر ایسی قیادت ابھاری جائے جو وہاں کے عوام میں بنیادی حقوق کی آگاہی پیدا کرے۔ اس سے پہلے کہ دشمن وہاں پر منفی قیادت ابھارے اور پاکستان مخالف فضا بنائے۔ امریکہ نے تو بہت پہلے پاکستان کی تقسیم کا منصوبہ بنا کر شائع بھی کیا ہے۔

جنوب مغرب میں بلوچستاں اور شمال مغرب میں فاٹا کی علیحدگی کی تحریک پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرناک اور ناقابل برداشت بات ہوسکتی ہے، اس کا توڑ کرنے کے لئے وہاں موثر قیادت ابھارنا اور بنیادی حقوق کے نام پر عوامی بیداری شروع کرانا وقت کی آواز ہے۔ قاضی حسین احمد کی جماعت اسلامی نے قبائل سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر امیدوار نامزد کرکے ان کو رابطہ عوام مہم کا ٹاسک دے رکھا ہے، لیکن یہ اسمبلی نشستیں جیتنے کی تحریک ہے۔ ہمہ گیر اور وقت کی ضرورت سے یہ کافی کم ہے۔
خبر کا کوڈ : 183492
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش