QR CodeQR Code

سعودی عرب کی سرنگون ہوتی اقلیت

روزنامه کیهان , 6 Aug 2012 11:40

اسلام ٹائمز: سعودی عرب میں دنیا کے ہر حصے سے زیادہ انقلاب اور تبدیلی کی صلاحیت موجود ہے اور یہ ملک اگلے چند ماہ میں یقینی طور پر عظیم عوامی اور اسلامی تحریک کا شاہد ہو گا۔


اسلام ٹائمز- سعودی عرب کے سیاسی حالات خاص اہمیت، حساسیت اور اثر کے حامل ہیں کیونکہ یہ ملک عالم اسلام اور مشرق وسطی میں امریکی طاقت اور اثرونفوذ کا آخری مورچہ تصور کیا جاتا ہے۔ لہذا ممکن ہے کہ جو کچھ 1978ء اور 1979ء میں ایران میں رونما ہوا یا 1997ء سے 2003ء کے درمیان ترکی، 2003ء سے 2006ء کے درمیان عراق اور 2010ء سے 2012ء کے درمیان مصر میں رونما ہوا سعودی عرب میں رونما ہوتے ہوئے کچھ تاخیر کا شکار ہو لیکن یقینی طور پر رونما ہو کر رہے گا۔
اگر 1978ء میں موجود مراکش سے پاکستان تک دنیا کے نقشے پر ایک نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ اس خطے میں جسے مشرق وسطی کا نام دیا جاتا ہے سات علاقائی طاقتیں موجود تھیں۔ ایران، سعودی عرب، ترکی، عراق، شام، مصر اور اسرائیل۔ اس دور میں شام کے علاوہ جو مشرقی بلاک سے وابستہ تھا باقی ممالک مغرب اور امریکہ کے اہم اڈے تصور کئے جاتے تھے اور مغربی بلاک انہیں علاقائی طاقتوں کے ذریعے خطے میں موجود معدنیات، گیس اور تیل کے عظیم ذخائر اور اسٹریٹجک سمندری راستوں اور علاقائی مارکیٹ پر قابض تھا۔
ایران اس مجموعے کا وہ پہلا ملک تھا جو خطے میں مغربی طاقت کا ایک اہم رکن ہونے کے ناطے 1979ء میں اسلامی انقلاب کے ذریعے مغربی تسلط سے آزاد ہوا اور امریکہ اور مغرب کیلئے ایک بڑے چیلنج کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ ایران کے بعد ترکی میں مغرب سے آزادی کا عمل شروع ہو گیا۔ مغربی بلاک نے آزادی کی اس تحریک کو کچلنے کیلئے جنرل کنعان اورن کی سربراہی میں ترک فوج کو بغاوت کرنے پر مجبور کیا لیکن 13 ستمبر 1980ء کی یہ فوجی بغاوت بھی دو سال سے زیادہ کارآمد ثابت نہ ہو سکی اور ٹورگٹ اوزال کی سربراہی میں ایران کی جانب شدید جھکاو رکھنے والی حکومت برسراقتدار آ گئی۔
اوزال کی حکومت اگرچہ اسلامی حکومت نہیں تھی لیکن ایران اور اسلامی گروپس کے ساتھ اسکا بھرپور تعاون رہا۔ اس حکومت کے اندر سے اسلام پسند جماعتیں جیسے ترقی پارٹی سامنے آئی اور آخرکار اوزال کے دس سالہ دوران حکومت ختم ہونے کے تین سال بعد جناب مرحوم نجم الدین اربکان نے پہلے اسلام پسند وزیراعظم کے طور پر 1996ء میں اقتدار سنبھال لیا اور اس طرح سے خطے میں امریکہ کا دوسرا اہم مورچہ بھی ختم ہو گیا۔ البتہ 15 مارچ 2003ء سے لے کر اب تک رجب طیب اردگان کی قیادت میں عدالت اور ترقی پارٹی کے دورہ حکومت میں ترکی کی اسلام پسندی کچھ انحراف کا شکار رہی لیکن یہ ملک بدستور خطے میں موجود اسلامی بلاک کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔
خطے میں امریکہ کے تیسرے اہم اڈے کا خاتمہ 2004ء میں عراق میں جناب ابراہیم جعفری کے برسراقتدار آنے سے شروع ہو گیا اور طالبانی، مالکی اور مشہدانی پر مشتمل ایران نواز اتحاد کا عراق پر حاکم ہونے سے مکمل ہو گیا اور گذشتہ سال عراق سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلاء کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچا۔ امریکہ اور مغربی بلاک کی جانب سے عراق میں موجودہ سیاسی نظام کے خاتمے اور شیعہ، سنی اور کرد اتحاد کو سرنگون کرنے کی تمامتر کوششیں اب تک بری طرح ناکامی کا شکار ہوئی ہیں۔
خطے میں امریکہ کے چوتھے اسٹریٹجک مورچے کے خاتمے کا آغاز بھی 24 فروری 2011ء کو مصر میں انقلابی تحریک کے جنم لینے سے ہوا۔ دسمبر 2011ء میں مصر کے پارلیمانی انتخابات میں اسلام پسند گروہوں کی واضح کامیابی نے امریکی سرکردگی میں مغربی بلاک سے مصر کے خروج کو حتمی شکل دے دی۔ دوسری طرف فوج اور سکولر جماعتوں پر مشتمل مصر کے روایتی دھڑوں کی جانب سے مصر کی سب سے زیادہ معروف اسلامی جماعت کے نامزد صدر محمد مرسی کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ظاہر کرتا ہے کہ مصر میں اسلام پسندی کا رجحان اس قدر طاقتور ہے کہ اسکا نعم البدل تلاش کرنا ممکن نہیں۔
مشرق وسطی کی سات علاقائی طاقتوں جن میں سے چھ طاقتیں مغرب سے وابستہ تھیں اب صرف دو ایسے ممالک باقی رہ گئے ہیں جو ابھی تک مغربی بلاک میں شامل ہیں۔ اسرائیل اور سعودی عرب۔
اسرائیل چونکہ بذات خود کوئی معنا و مفہوم نہیں رکھتا اور اپنی ساٹھ سالہ تاریخ میں ہمیشہ سے بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں پر تکیہ کرتا آیا ہے لہذا خطے کی طاقتیں جس قدر مغربی تسلط سے آزادی اور اپنی خودمختاری کا راستہ طے کرتی جائیں گی اسکی زندگی اور بقا مشکل تر ہوتی جائے گی۔ دوسری الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ خطے کے ہر ملک کے مغربی تسلط سے آزاد ہونے سے تل ابیب شدید زلزلے کا شکار ہو رہا ہے اور اپنی نابودی سے ایک قدم مزید نزدیک ہوتا جا رہا ہے۔
تبدیلی اور انقلاب کی یہ لہر اس وقت خطے میں امریکہ کے آخری مورچے یعنی سعودی عرب تک آن پہنچی ہے۔ سعودی عرب انرجی کے وسیع ذخائر اور وہابیت کی شکل میں ایک منظم اور فعال مذہبی گروہ کا حامل ہونے کی وجہ سے خطے کی باقی طاقتوں کے مقابلے میں ایک خاص برتری رکھتا ہے۔ سعودی عرب میں تیل کی سب سے بڑی ٹھیکے دار امریکی اور سعودی کمپنی "ارمکو" کی جانب سے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس ملک میں تقریبا 260 ارب بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ البتہ پرائیویٹ ذرائع کے مطابق یہ رقم تقریبا 156 ارب بیرل ہے۔ یہ رقم خطے میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر کو ظاہر کرتی ہے۔ خطے میں تیل کے دوسرے بڑے ذخائر عراق میں ہیں جہاں یہ رقم 143 ارب بیرل ہے جبکہ ایران 137 ارب بیرل کے ساتھ خطے میں تیسرے بڑے تیل کے ذخائر سے برخوردار ہے۔
لہذا سعودی عرب کا مغربی تسلط سے خارج ہونے کا سب سے زیادہ اثر مغربی دنیا کی صنعت کے انتہائی اہم رکن "انرجی" پر پڑے گا اور اقتصادی ماہرین کے مطابق اگر سعودی عرب مغربی بلاک سے نکل جاتا ہے تو بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمت کم از کم دوگنا ہو جانے کا امکان ہے۔
مذکورہ بالا ممالک میں سعودی عرب ایسا ملک ہے جہاں ایسے منظم ترین اور فعال ترین دینی گروہ موجود ہیں جنہوں نے عالم اسلام میں انتہائی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ یہی گروہ تھے جنہوں نے افغانستان میں طالبان جیسی شدت پسند حکومت کے قیام میں مرکزی کردار ادا کیا اور یہی گروہ بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد گروہ القاعدہ کے معرض وجود میں آنے کا بنیادی سبب سمجھے جاتے ہیں اور انہی گروہوں نے پاکستان، افغانستان، چیچنیا، عراق، شام، لیبیا، صومالیہ وغیرہ میں فرقہ پرستی کو رواج دیتے ہوئے مذہبی شدت پسندی کی بنیاد ڈالی۔ یہ بات پورے اطمینان سے کہی جا سکتی ہے کہ یہی گروہ سنی – سنی اور سنی – شیعہ جھگڑوں کی اصلی وجہ ہیں۔
وہابیت جو آج حنبلی سنیوں کے فقہی مرکز المدینہ یونیورسٹی پر پوری طرح قابض ہے، مغربی انٹیلی جنس ایجنسیز کے منصوبوں کی کامیابی میں مرکزی کردار کی حامل ہے۔ سعودی حکومت کی سرنگونی درحقیقت وہابیت کی سرنگونی ہے اور چونکہ گذشتہ سو سال کے دوران وہابیت اسلامی اتحاد اور وحدت میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ہے لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ آل سعود کی سرنگونی سے عالم اسلام کے مختلف حصوں کے درمیان اسلامی اتحاد اور وحدت کا زمینہ فراہم ہو جائے گا۔
جو کچھ ظاہر کیا جاتا ہے اسکے برخلاف سعودی عرب میں مذہبی یکسانیت نہیں پائی جاتی اور اسکا شمار ایسے محدود ممالک میں ہوتا ہے جہاں بہت زیادہ مذہبی تنوع پایا جاتا ہے اور مختلف مذاہب سے وابستہ افراد ایک ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سعودی عرب میں شیعہ اثناعشری، شیعہ زیدی، شیعہ اسماعیلی، شافعی، مالکی، حنبلی اور حنفی فرقے موجود ہیں اور ان میں سے کسی فرقے کے پیروکاروں کو قاطع اکثریت حاصل نہیں ہے۔ شیعوں کے تین فرقے اثناعشری، زیدی اور اسماعیلی سعودی عرب کی آبادی کا 39 فیصد حصہ تشکیل دیتے ہیں اور اس ملک کے 36 فیصد رقبے پر آباد ہیں۔ سعودی عرب کے 13 صوبوں میں سے چار صوبوں مشرقی، عسیر، جیزان اور نجران میں شیعہ مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے۔
آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا گروہ مغربی سعودی عرب میں حجاز کے خطے میں واقع تین صوبوں مکہ، مدینہ اور تبوک میں رہائش پذیر ہے جنکا تعلق شافعی فرقے سے ہے اور انہیں اس علاقے میں واضح اکثریت حاصل ہے۔ انکے بعد اس علاقے میں شیعہ اور مالکی فرقوں سے وابستہ افراد کی آبادی ہے۔
آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا گروہ نجد کے خطے جسکا نیا نام الوسطی خطہ ہے میں واقع تین صوبوں ریاض، قسیم اور حائل میں رہائش پذیر ہے۔ یہ گروہ جو سعودی عرب کی کل آبادی کا 21 فیصد ہے اور ملک کے 23 فیصد رقبے پر رہائش پذیر ہے حنبلی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اگرچہ وہابیت نجد کے علاقے اور حنبلی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد سے معرض وجود میں آئی لیکن اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ نجد کے رہنے والے تمام افراد یا حنبلی فرقے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد وہابی ہیں البتہ ایسا ضرور ہے کہ تمام وہابی حنبلی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
سعودی عرب میں پایا جانے والا آبادی کے لحاظ سے چوتھا بڑا گروہ حنفی فرقے سے وابستہ ہے جو تین شمالی صوبوں باحہ، شمالی سرحدی علاقے اور جوف میں رہائش پذیر ہیں۔ یہ گروہ ملک کی کل آبادی کا 17 فیصد حصہ تشکیل دیتا ہے اور تقریبا ملک کے 20 فیصد حصے پر آباد ہیں۔ سعودی عرب کی کل آبادی 1 کروڑ 90 لاکھ جبکہ اسکا کل رقبہ 21 لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔
ان اعداد و ارقام سے واضح ہو جاتا ہے کہ نجد کے علاقے سے تعلق رکھنے والی اقلیت جو آل سعود سے وابستہ خاندانوں اور وہابیت سے وابستہ مراکز پر مشتمل ہے سعودی عرب کی تمام آبادی اور رقبے پر مکمل قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔
سعودی عرب کا حکمران خاندان جس نے 1932ء سے اس ملک پر اپنا قبضہ جما رکھا ہے ایک فرقہ پرست اور موروثی رژیم تصور کی جاتی ہے۔ سعودی عرب کا شمار دنیا کے ایسے محدود ممالک میں ہوتا ہے جہاں کی حکومت میں فرقہ پرستی اور دین ستیزی ایک ساتھ پائے جاتے ہیں۔ سعودی حکمران اعلانیہ طور پر غیراخلاقی اقدامات انجام دینے میں پوری دنیا میں مشہور ہیں اور حکمران خاندان کے 6 ہزار شہزادوں نے صرف طائف شہر میں ایسے 600 فحاشی کے اڈے قائم کر رکھے ہیں جہاں وہ شراب خواری، جوا اور عیش و عشرت میں مصروف رہتے ہیں۔
سعودی فرمانروا جو شرعی احکام کے اجراء اور خادم حرمین شریفین ہونے کا دعویدار ہے حتی میڈیا کے سامنے بھی کھلم کھلا شراب نوشی کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ سعودی حکمران مالی حوالے سے بھی انتہائی کرپٹ سیاسی رہنما تصور کئے جاتے ہیں اور اس ملک کے شہزادوں کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں کیا جاتا ہے۔ لیکن اسکے باوجود ملک کے مشرقی، مغربی، شمالی اور جنوبی صوبوں میں عام شہریوں کی حالت انتہائی زار اور ناگفتہ بہ ہے اور ان علاقوں میں موت کی شرح دنیا کے انتہائی غریب ممالک جیسے سوڈان اور الجزائر میں پائے جانے والی موت کی شرح کے برابر ہے۔
سعودی عرب میں گذشتہ 80 سال سے عبدالعزیز بن عبدالرحمان کی سلطنت شروع ہونے کے بعد اب تک شیعہ اثناعشری، اسماعیلی، زیدی، مالکی، شافعی اور حنفی فرقوں سے تعلق رکھنے والا ایک شخص بھی ملک کے کسی اہم عہدے پر فائز نہیں ہو سکا۔ ملک کے داخلی اور علاقائی امور بھی مکمل طور پر وہابیوں یا حنبلی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے کنٹرول میں ہیں۔
مزید یہ کہ اس دوران حتی ایک بار بھی الیکشن کا انعقاد نہیں کیا گیا اور کوئی حقیقی انتصابی شورا بھی موجود نہیں۔ صرف 2004ء میں ملک عبداللہ نے سعودی شہزادوں پر مشتمل ایک سلطنتی شورا تشکیل دی جسکا وظیفہ ولیعہد کو تعیین کرنا ہے۔ یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ اسلامی ممالک میں سے کوئی ملک امریکہ کی نوکری اور اس سے وابستگی میں سعودی عرب کو مات نہیں دے سکتا۔ گذشتہ کئی عشروں کے دوران مخصوصا 1971ء کے بعد امریکی صدور نے سعودی عرب کو امریکہ کی ایک ریاست کے طور پر سمجھا ہے۔
اس تمام صورتحال کے خلاف عوامی اعتراضات کا سلسلہ شیعہ نشین علاقے الشرقیہ سے شروع ہوا اور ابھی نجد اور حجاز کے علاقوں تک سرایت کر چکا ہے۔ لیبیا میں مالکی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد اور مصر میں شافعی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے برسراقتدار آنے نے سعودی عرب کے علاقے حجاز پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں جیسا کہ ایران اور عراق میں شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے اقتدار میں آنے اور بحرین میں شیعہ مسلمانوں کے قیام نے سعودی عرب کے سب سے بڑے صوبے الشرقیہ پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ اسی طرح یمن میں زیدی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تحریک نے سعودی عرب کے دو صوبوں عسیر اور نجران میں بسنے والے زیدی افراد کو بھی فعال کر دیا ہے۔
سعودی عرب میں دنیا کے ہر حصے سے زیادہ انقلاب اور تبدیلی کی صلاحیت موجود ہے اور یہ ملک اگلے چند ماہ میں یقینی طور پر عظیم عوامی اور اسلامی تحریک کا شاہد ہو گا۔


خبر کا کوڈ: 185282

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/185282/سعودی-عرب-کی-سرنگون-ہوتی-اقلیت

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org