0
Tuesday 7 Aug 2012 22:30

لوڈشیڈنگ اور اے این پی کی آل پارٹیز کانفرنس

لوڈشیڈنگ اور اے این پی کی آل پارٹیز کانفرنس
تحریر: رشید احمد صدیقی 

ملک بھر میں ایک گھنٹہ بجلی موجود ہوتی ہے اور ایک گھنٹہ غائب۔ عام آدمی کے لیے یہ انتہائی پریشان کن بات ہے۔ بجلی چونکہ مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہے، اس لیے اس معاملہ میں صوبے بے بس ہیں اور صوبائی حکومتوں کا کردار تماشائی کا ہے۔ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پی پی پی کی اتحادی حکومتیں ہیں چنانچہ وہاں کی صوبائی حکومتیں اگر لوڈ شیڈنگ کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں تو اپنی ہی حکومت کے خلاف چلی جاتی ہیں۔ البتہ پنجاب حکومت کے لیے آسانی یوں ہے کہ وہ بجلی کے مسئلے پر جتنی شدت سے آواز اٹھاتی ہے اس کو اتنا ہی فائدہ ہے۔ 

صوبائی حکومت جو مرکز میں اپوزیشن میں ہے، اپنی اس پوزیشن سے خوب فائدہ اٹھا رہی ہے اور پنجاب کے وزیراعلی نے مینار پاکستان کے سائے میں خیمہ دفتر لگایا ہوا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ عام آدمی بجلی کے جس عذاب سے دوچار ہے میں وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے اس کے ساتھ اسی عذاب کو سہوں گا اور لوڈشیڈنگ ہی میں امور صوبہ چلائوں گا۔ لوڈ شیڈنگ ان کے لیے اپنی مقبولیت بڑھانے کا مفید ذریعہ ثابت ہو رہا ہے لیکن اس میں ان کو کافی مشقت برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ شہباز شریف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ محنتی اور کام کرنے والے لیڈر ہیں۔ ساتھ ذہین بھی۔ وہ مشقت اور دماغ کے ذریعے دستیاب ہر موقع کا صحیح استعمال کرتے ہیں۔ 

سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ کا تعلق پی پی پی سے ہے، اس لیے لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر چارو ناچار وہ نمبر نہیں بنا پا رہے ہیں۔ دوسری جانب تشویش کا مقام خیبر پختونخوا کی حکومت کے لیے ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے ہر قدم کے ساتھ ان کا قدم ملا ہوا ہے بلکہ اسفند یار ولی ان سے ایک قدم آگے چلتے ہیں۔ اس میں ان کا ایک ذاتی مسئلہ بھی شامل ہے۔ چار سال قبل ان پر ان کے حجرہ میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ اس حملے میں ان کے ذاتی محافظ نے جان پر کھیل کر ان کی جان بچائی تھی۔ لیکن اسفندیار ولی کی جان پربن گئی تھی۔ وہ محافظ کے جنازہ اور تکفین سے قطعہ نظر اس وقت تک بے چین رہے جب صدر زرداری کے ذاتی ہیلی کاپٹر نے ولی باغ آکر ان کو اہلخانہ سمیت وہاں سے اٹھا کر ایوان صدر پہنچایا۔ اس وقت سے اب تک اسفندیار ولی کے لیے اپنے حلقہ انتخاب میں واپس آنا ممکن نہیں رہا۔

اب انتخابات میں تھوڑا ہی عرصہ رہ گیا ہے۔ پارٹی امور تو حاجی عدیل صاحب قائمقام صدر کے طور پر چلا رہے ہیں۔ غلام احمد بلور بھی ان کی معاونت کر رہے ہیں۔ اسفندیار ولی کے لیے اپنے حلقہ انتخاب میں کام بھی کرنا ہے اور رابطہ عوام بھی۔ رابطہ تو خودکش حملہ کے بعد خود بخود کٹا ہوا ہے۔ الیکشن قریب آرہے ہیں۔ اس کمی کو صدر آصف علی زرداری پورا کر رہے ہیں اور ان کو اتنے فنڈز مل رہے ہیں کہ چارسدہ پاکستان بھر میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ایک نمبر پر ہے۔ 

صدر زرداری اور اسفندیار ولی ایک دوسرے کے محسن ہیں۔ چنانچہ لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر صوبائی حکومت کے لیے مقبول اور دلیرانہ قدم اٹھانا ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف صوبہ میں اپوزیشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ جے یو آئی کے اکرم خان درانی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔۔اس لحاظ سے اپوزیشن کا اعزاز جے یو آئی کے پاس ہے۔ لیکن ان کے لیڈر مولانا فضل الرحمان ہمیشہ نیم درون نیم بیرون کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ مرکز میں ان کی صدر زردار ی سے بہترین دوستی ہے۔ ویسے بھی صدر زرداری کی شہرت یہ ہے کہ وہ یاروں کے یار ہیں۔ بجلی کے سنگین مسئلے پر مولانا فضل الرحمان حکومت کے لیے کوئی مشکل پیدا کرنے کے روادار نہیں۔

اکرم درانی کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ صوبہ میں وہ کردار ادا نہیں کرسکتے جو نواز شریف کے ہوتے ہوئے شہباز شریف پنجاب میں ادا کرر ہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی کافی متحرک ہے۔ اور ہر ضلع میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف اس نے احتجاج کیا ہے اور یہ جاری ہے۔ صوبائی حکومت اور اے این پی اگر خاموش رہتی ہے تو رہی سہی عوامی مقبولیت بھی جاتی رہے گی۔ بجلی کا بحران اتنا سنگین ہو گیا ہے کہ چوہدری شجاعت تک کی جماعت کے 18 وزراء نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے لیکن وہ دستوری طریقے پر نہیں رسمی طور پر ہیں کہ وزارت بھی نہ جائے اور حکومت پر دبائو بھی پڑے اور ساتھ عوام کی آنکھوں میں بھی دھول پڑے کہ ہم تو آپ کے بڑے خیر خواہ ہیں۔

پریشانی بحرحال اے این پی کی تھی چناچہ حاجی غلام احمد بلور وفاقی وزیر ریلوے نے پریس کانفرنس میں لوڈشیڈنگ کے خلاف عوامی احتجاج کا اعلان کیا۔ اس اعلان پر عملی جامہ پہنانے کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ اسفندیار ولی کیسے آصف علی زرداری کے خلاف احتجاج کی قیادت کریں گے۔ درمیانی حل یہ نکالا گیا کہ صوبہ کی سطح پر آل پارٹیز کانفرنس کرکے احتجاج کیا جائے۔ اے پی سی میں کیا ہوگا۔ اپوزیشن جماعتیں تند و تیز تقاریر کر لیں گی اور ایک معتدل قرارداد اس میں منظور کرلی جائے گی۔ جس کی حیثیت کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ ہرگز نہ ہوگی۔ 

لیکن عوام کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لیے انھوں نے اگست کے دوسرے ہفتے میں بجلی کے مسئلے پر تمام جماعتوں کی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا۔ صوبائی صدر افراسیاب خٹک کی قیادت میں وفد جس کا لازمی حصہ صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین ہوتے ہیں، تمام جماعتوں کے قائدین کو دعوت دینے کے لیے ان کے گھروں اور دفاتر میں پہنچے۔ ملاقاتیں ہوئیں لیکن کسی بھی جماعت نے اے پی سی میں شرکت قبول نہ کی۔ مسلم لیگ ق کے صوبائی صدر سید قاسم شاہ سینیٹر نے البتہ شرکت کی حامی بھری ہے۔ 

کے پی کے کی سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ اے این پی صدر آصف علی زرداری کے ہر جائز و ناجائز عمل میں بھرپور ساتھ دیتی ہے۔ اب بجلی کے مسئلے میں زوردار احتجاج کے بجائے محض اے پی سی پر گزارہ کرر ہی ہے اور اس کے لیے بھی بندوق ہمارے کاندھوں پر رکھ رہی ہے۔ چنانچہ کوئی بھی اس میں جانے کے لیے تیار نہیں۔
اے این پی اتحادی ہونی کی وجہ سے اگر سڑکوں پر نہیں آسکتی تو اس کے لیے اچھا موقع یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلاکر اس میں لوڈشیڈنگ پر بحث کرائے اور اسمبلی کی متفقہ قراداد مرکزی حکومت کو بھجوائے۔ لیکن وہ بوجوہ مجبوری ایسا نہیں کر رہی اور بے ضرر اے پی سی پر مصر ہے۔ یہ ایک کمزور موقف ہے جس کا اثر آنے والے الیکشن پر ضرور پڑے گا۔
خبر کا کوڈ : 185604
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش