0
Friday 10 Aug 2012 10:58

سینا میں خون کی ندیاں، القاعدہ کا نیا آپریشن

سینا میں خون کی ندیاں، القاعدہ کا نیا آپریشن
اسلام ٹائمز- اسرائیلی سرحد کے قریب صحرای سینا میں انجام پانے والا عجیب اور پراسرار آپریشن ان اقدامات کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے جو مشرق وسطی کے بعض ممالک میں آئندہ انجام پانے والے ہیں۔ پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بعض نامعلوم افراد نے مصر کی سرحدی چوکی پر افطار کے وقت حملہ کیا اور 16 مصری فوجیوں کے سر کاٹ کر اسی چوکی پر کھڑی دو گاڑیوں کو غنیمت کے طور پر قبضے میں لینے کے بعد وہاں سے اسرائیلی سرحد کی جانب فرار ہو گئے۔ اسرائیلی حکام کے بقول ان میں سے ایک گاڑی خود بخود دھماکے سے اڑ گئی جبکہ دوسری گاڑی ہیلی کاپٹر کے ذریعے اڑا دی گئی اور اس میں سوار تمام افراد ہلاک ہو گئے۔
یہ افراد کون تھے جو افطار کے وقت مصری فوجیوں کا سر کاٹنے کا جائز سمجھتے ہیں اور اسے اسرائیل پر حملے کا مقدمہ قرار دیتے ہیں؟ مشرق وسطی کے سیاسی حالات سے تھوڑی بہت آشنائی رکھنے والے شخص کی نظر میں یہ تضاد انتہائی دشوار اور حتی ناممکن نظر آتا ہے اور قدرتی سی بات ہے کہ ایسی صورتحال میں ہر انسان کی سوچ خود بخود کسی سازش کے وجود کی طرف مبذول ہوتی ہے۔
یقینا دوسری اقوام کی تاریخ میں بھی ایسے واقعات موجود ہوں گے۔ اسلام کی تاریخ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چوتھے خلیفہ کے دور میں ایک ایسا سیاسی گروہ معرض وجود میں آیا جو انتہائی متعصب تھے اور اپنے اہداف و مقاصد کے حصول کیلئے عام مسلمانوں کا خون بہانے اور حکومت کے فوجیوں پر حملہ ور ہونے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔
یہ سیاسی گروہ "خوارج" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خوارج ایسے افراد پر مشتمل تھے جو انتہائی متعصب تھے اور انکی برین واشنگ ہو چکی تھی۔ وہ اپنے دشمن کو قتل کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچتے تھے اور اپنے ہدف کے حصول کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار نظر آتے تھے۔ یہ افراد کسی گہری سوچ اور نظریئے سے عاری تھے اور دوسرے افراد انتہائی آسانی سے انکے ذہن اور افکار کو کنٹرول کر سکتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ خوارج تاریخ کا حصہ بن گئے اور اس گروہ کے باقیماندہ افراد نے سیاست کو خیرباد کہ کر ایک فقہی فرقہ تشکیل دے دیا۔ اس فرقے سے وابستہ افراد آج بھی شمالی افریقہ اور خلیج فارس کے ملک عمان میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
موجودہ دور میں بھی خوارج جیسی سوچ رکھنے والے افراد اور گروہ سامنے آ رہے ہیں۔ انہیں میں سے ایک مصر کا گروہ "التفکیر و الھجرہ" ہے جو کسی زمانے میں اخوان المسلمین کا حصہ تھا اور بعد میں اس سے جدا ہو کر مستقل گروہ کی حیثیت اختیار کر گیا۔ جدید دور میں خوارج کی سوچ رکھنے والے گروہوں کی ایک اور مثال "القاعدہ" ہے۔
ہدف کو مقدس بنا کر عام افراد کی قربانی کو اہمیت نہ دینا ان گروہوں کی خاصیت ہے۔ اس سوچ پر مبنی سیاسی طرز عمل آج بحی عراق اور نائیجیریا میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آیا ہم مستقبل قریب میں ایسے دوسرے ممالک کے بھی شاہد ہوں گے جہاں یہ طرز تفکر عملی صورت میں پایا جاتا ہو؟
یہ سوچ کسی ایک ملک کے کسی ایک گروہ کے ساتھ مختص نہیں بلکہ وائرس کی مانند پھیلتی جا رہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہی شام میں ایک برطانوی فوٹوگرافر کو ایک گروپ نے اغوا کیا اور کافی عرصے تک اپنی تحویل میں رکھا۔ اس گروپ کے افراد لندن والے لہجے میں انگلش بول رہے تھے۔ جان کنٹلی نے سنڈے ٹائمز میں یوں لکھا:
"وہ تقریبا 30 افراد تھے جن میں سے 12 لوگ انگلش بول رہے تھے اور ان میں سے 9 افراد کا لہجہ برٹش تھا"۔
یہ افراد کہاں سے آئے ہیں؟ یہ انتہائی دور از امکان ہے کہ انہوں نے انفرادی طور پر ایسا اقدام انجام دیا ہو۔ خاص تنظیمیں موجود ہیں جو اس قسم کے افراد کو ڈھونڈ کر اکٹھا کرتی ہیں اور پھر انہیں شام بھیجا جاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ بھی انتہائی آسانی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان تنظیموں کے بین الاقوامی انٹیلی جنس ایجنسیز سے روابط برقرار ہو چکے ہیں۔
اس سے پہلے بھی اس جیسے تجربات سامنے آ چکے ہیں جیسے افغانستان، بوسنیا، چچنیا، یمن اور صومالیہ میں لیکن شام کا مسئلہ ان سب سے مختلف ہے۔ سب سے بڑا فرق زبان، تاریخ اور مشترکہ تشخص میں پایا جاتا ہے۔ افغانستان میں روسی فوج کے خلاف لڑنے والے افراد کی اکثریت عرب تھی۔ انہیں میں سے اکثر تعداد بعد میں بوسنیا اور پھر چچنیا کی جنگوں میں شریک ہوئی۔ یہ افراد "افغانی عرب" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ افراد ممکن ہے افغانی لباس پہن لیں یا تیونس میں مظاہروں میں شریک ہو جائیں۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ غرب اور القاعدہ دونوں ایک ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ القاعدہ کی تشکیل سے قبل ہی اسامہ بن لادن اور اسکے ہمفکر ساتھیوں نے افغانستان میں روسی فوج کو شکست دینے کے امریکی منصوبے کی ذمہ داری سنبھال رکھی تھی۔ مغربی دنیا اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر جیسی حکومتوں کی جانب سے بنایا جانے والا یہ جن افغانستان کی آزادی کے بعد بوتل میں واپس نہیں لوٹا۔
اس وقت دوسری مغربی اور عرب حکومتیں اور ترکی کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ وہ شام میں اسلحہ اور جنگجو بھیج رہے ہیں جنکا اصلی مقصد شام میں صدر بشار اسد کو حکومت سے ہٹانا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ امریکہ یہ کوشش کر رہا ہے کہ شام میں ملک کا سیاسی ڈھانچہ جوں کا توں باقی رہے تاکہ عراق جیسی صورتحال پیش نہ آئے جہاں تمام حکومتی ادارے نابودی کا شکار ہو گئے تھے۔ اسی طرح امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے کے اہلکار عراق، ترکی اور اردن کے سرحدی علاقوں میں اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ انکی جانب سے بھیجا جانے والا اسلحہ کہیں اسلام پسند گروپس کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ شام کی قومی کونسل کے سربراہ عبدالباسط سیدا نے کہا ہے کہ عراق کے برعکس شام میں بعث پارٹی کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
ان سب کے باوجود ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ تمام اقدامات تسلی بخش نہیں اور ممکنہ خطرات سے بچنے کیلئے ناکافی ہیں۔ وہ جن جو شام میں بوتل سے باہر نکالا جا رہا ہے اس ملک کو انتشار کی حد تک لے جائے گا۔ پھر کوئی قوت اس جن کو بوتل میں واپس لوٹانے پر قادر نہیں ہو گی۔ اگر اسامہ بن لادن کا قتل اور عراق اور یمن میں القاعدہ کے خلاف مسلسل کاروائیوں نے اس دہشت گرد تنظیم کو کسی حد تک کمزور کر دیا ہو تو شام وہ مناسب جگہ ہے جہاں القاعدہ دوبارہ سے خود کو منظم کر سکتی ہے اور سلفی سوچ رکھنے والے افراد میں سے اپنے مناسب ساتھیوں کو چن سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 185830
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش