1
0
Friday 10 Aug 2012 17:32

شام کا مسئلہ اور پاکستان کا نقطہ نظر

شام کا مسئلہ اور پاکستان کا نقطہ نظر
تحریر: ثاقب اکبر

پاکستان نے شام کے بارے میں بالآخر جس نقطہ نظر کو اختیار کر لیا ہے اسے بیک وقت معتدل، دانشمندانہ، شام کی حقیقی صورت حال کا عکاس اور زمینی حقائق سے ہم آہنگ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں شام کے مسئلے پر تہران میں 9 اگست 2012ء کو منعقد ہونے والے وزارتی سطح کے ایک مشاورتی اجلاس میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے خطاب کو ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔
 
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ شام کے مسئلے کا حل خود اس کے اندر سے برآمد ہونا چاہیے نہ کہ باہر سے۔ بیرونی مداخلت دیرپا امن اور استحکام کا باعث نہیں بن سکتی۔ انھوں نے اس سلسلے میں اپنی پالیسی بیان کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی کمیونٹی کو ریاستوں کے داخلی امور میں سختی سے عدم مداخلت کے اصول پر کاربند رہنا چاہیے۔ پاکستان نے ہمیشہ بین الاقوامی روابط میں طاقت کے استعمال کی مخالفت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں گذشتہ ماہ شام کے بارے میں پیش کی جانے والی قرارداد میں غیر جانبداری اختیار کی۔
 
انھوں نے کہا کہ ہمیں شام کے حالات پر بڑی تشویش ہے، اگر یہ قضیہ طوالت اختیار کر گیا تو اس کے علاقے اور مسلم امہ ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ موقع ہے کہ ہم شام میں خون بہنے کے عمل کو روکنے کے لیے متفقہ حل پر پہنچیں۔ شام کو مسئلے کے سیاسی حل کا موقع ملانا چاہیے۔ شام کو اپنے عوام کی مرضی کے مطابق اپنی منزل کے تعین کا حق ملنا چاہیے۔ ہماری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ بیرونی مداخلت اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دے گی جو کہ پہلے ہی بہت پیچیدہ صورت اختیار کر چکا ہے۔ بین الاقوامی برادری کو شام کی خود مختاری، آزادی اور علاقائی سلامتی کا احترام کرنا چاہیے۔

وزیرخارجہ پاکستان نے کہا کہ انھیں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کوفی عنان کے استعفٰی پر بہت افسوس ہوا ہے۔ ان کے چھ نکاتی منصوبے نے شام کے امن واستحکام کے لیے ایک امید پیدا کر دی تھی۔ اس منصوبے کو تمام سٹیک ہولڈرز کی حمایت بھی حاصل تھی۔
 
حنا ربانی کھر نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جوں جوں شام کی صورت حال پیچیدہ ہو رہی ہے ہمیں ان رپورٹس پر بہت تشویش پیدا ہوتی جا رہی ہے کہ القاعدہ اور دیگر انتہا پسند گروہ شام میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ سلسلہ نہ شام کے لیے سود مند ہے اور نہ ہی مشرق وسطٰی کے لیے۔ ہمیں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے لیے ایک اور محفوظ ٹھکانہ بننے کے عمل کو روکنا ہوگا، ورنہ تاریخ کے سبق کے مطابق ایسے عمل کا جاری رہنا علاقے کے امن و استحکام کے لیے آئندہ برسوں میں بہت خطرناک ہوگا۔ 

وزیر خارجہ کے ان نظریات کو سامنے رکھا جائے تو دراصل یہ اقوام متحدہ میں ابتدائی طور پر اختیار کیے جانے والے موقف سے زیادہ بہتر اور جاندار ہے، کیونکہ اس موقف میں لاتعلق رہنے کے بجائے ایک قدم آگے بڑھ کر مسئلے کے حل کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے، اگرچہ اقوام متحدہ میں پاکستان کا بظاہر کمزور موقف بھی کم ازکم ایک غلط قرارداد کی عدم حمایت کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔
 
پاکستان کی وزیر خارجہ نے مذکورہ اجلاس میں شام کے مسئلے کے بارے میں جن نکات کو اٹھایا ہے ان پر غور کیا جائے تو یہ وہی نکات ہیں جو قبل ازیں ایران اٹھاتا رہا ہے۔ شام میں بیرونی قوتوں کی عدم مداخلت، کوفی عنان کے منصوبے کی حمایت، کسی فوجی حل کے مسلط کئے جانے اور القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کی شام کے اندر دہشت گردانہ کارروائیوں پر تشویش اور مذمت کے حوالے سے دونوں ملکوں میں سو فیصد ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے۔
 
یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ شام میں بشارالاسد کی حکومت بھی اپنے جن نظریات کا اظہار مختلف مواقع پر کرتی رہی ہے، پاکستان اور ایران کا موقف اس سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔ صدر بشار الاسد کوفی عنان کے منصوبے کی واضح طور پر حمایت کرچکے ہیں، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ، سعودی عرب، قطر اور شام میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث گروہ اس منصوبے کی مخالفت کرتے رہے ہیں، کیونکہ منصوبے میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ شام میں مذاکرات کے ذریعے ایک ایسی عبوری قومی حکومت تشکیل دی جائے، جس میں موجودہ حکومت کے علاوہ ایسے اپوزیشن نمائندے بھی شامل ہوں، جنھیں شامی عوام کی حمایت حاصل ہو۔ 

امریکہ اور اس کے ساتھی اس امر پر ہرگز تیار نہ تھے کہ شام کی موجودہ حکومت کو مذاکرات یا عبوری حکومت میں کسی قسم کی نمائندگی دی جائے۔ اس کا اظہار یو این او میں پیش کی گئی اس قرارداد سے بھی ہوتا ہے جس کی طرف وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے اپنی تہران کی تقریر میں اشارہ کیا ہے، جس میں پاکستان نے کوئی رائے نہ دی اور جسے چین اور روس نے مسترد کر دیا۔ 

پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا نے یو این او میں پاکستان کے مستقل مندوب عبداللہ حسین ہارون کے بارے میں کئی ایک رپورٹس میں بتایا تھا کہ انھوں نے اپنے منصب سے اس بنا پر استعفٰی دے دیا تھا کہ حکومت کی طرف سے انھیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ امریکہ، فرانس اور برطانیہ کی طرف سے پیش کی گئی اس قرارداد کی حمایت کریں، جس میں بشار الاسد کو استعفٰی دینے کے لیے کہا گیا تھا۔ حسین ہارون کی رائے تھی کہ پاکستان اقوام متحدہ میں اس قرارداد کے بارے میں چین اور روس کے مخالفانہ نقطہ نظر کا ساتھ دے۔
 
بہرحال بعدازاں حکومت پاکستان نے لاتعلق رہنے کا فیصلہ کیا، جس کی وجہ سے حسین ہارون نے اپنا استعفٰی واپس لے لیا۔ حسین ہارون کے استعفٰی کا ذکر گذشتہ دنوں مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام اسلام آباد میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں سابق خارجہ سیکرٹری جنرل اکرم ذکی نے بھی کیا تھا۔ اس موقع پر اکرم ذکی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگرچہ شام کے بارے میں امریکہ، برطانیہ، فرانس کے حمایت یافتہ ڈرافٹ سے پاکستان کا علیحدہ رہنا بھی ایک اچھا قدم ہے، تاہم یہ ایک کمزور فیصلہ ہے، اس ڈرافٹ کے خلاف پاکستان کو منفی ووٹ دینا چاہیے تھا۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے باہمی معاملات تاریخ کے مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے آج جہاں آ پہنچے ہیں، وہاں پر پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو اوورہال کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس پالیسی نے پاکستان کو عدم تحفظ کی سنگین صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ شاید اسی صورت حال کے کسی حد تک ادراک نے صدر آصف علی زرداری کو بار بار چین کے علاوہ روس کا دورہ کرنے پر مجبور کیا۔ ایسے میں عالمی سطح کے فیصلوں میں پاکستان کو روس اور چین کے نقطہ نظر کو ہرگز نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ شام کے بارے میں پاکستان کا موجودہ موقف ان زمینی حقائق سے بھی ہم آہنگ ہوگیا ہے۔
 
ضرورت اس بات کی ہے کہ او آئی سی کے چند دنوں بعد منعقد ہونے والے اجلاس میں بھی پاکستان اسی موقف پر قائم رہے۔ علاوہ ازیں وہ مسئلے کے حل کے لیے مزید جرات مندانہ اقدامات بھی کر سکتا ہے، کیونکہ عالم اسلام میں پاکستان کو اب بھی ایک خاص اور اہم مقام حاصل ہے۔ وہ قومیں جو اپنی حیثیت کے ادراک سے غافل رہتی ہیں، انھیں دنیا منصب اعتماد سے معزول کر دیتی ہے۔ 

او آئی سی کے اجلاس میں پاکستان کو عالم اسلام میں کسی نئے شگاف کے پیدا ہونے کا فقط تماشا نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ عالم اسلام کے مفاد میں شام کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک قدم اور آگے بڑھانا چاہیے۔ شام میں ہر طرح کی بیرونی مداخلت کے خاتمے اور وہاں سے القاعدہ سمیت تمام دہشت گرد گروہوں کے انخلا پر زور دینا چاہیے۔ شام کے عوام حق رکھتے ہیں کہ وہ اپنی قسمت کا خود فیصلہ کریں۔ ان کے اس حق کو عملی شکل دینے میں پاکستان معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 186410
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
very rough and confused writing .. certainly lowering IT standers
ہماری پیشکش