0
Saturday 11 Aug 2012 12:58

میرا جنازہ فوجی بینڈ کے ساتھ اٹھایا جائے، شہید کی وصیت

میرا جنازہ فوجی بینڈ کے ساتھ اٹھایا جائے، شہید کی وصیت
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ 

شہید محرم علی کے جنازے میں ایک پمفلٹ تقسیم کیا گیا، جس میں شہید محرم علی کی وصیت درج تھی۔ جس کا ایک جملہ یہ تھا کہ مجھے میر ے عزیز دوست ڈاکٹر محمد علی کے پہلو میں دفن کیا جائے اور میرا جنازہ فوجی بینڈ کے ساتھ اٹھایا جائے۔ شہید کی وصیت کے اس حصہ پر تو عمل نہیں کیا گیا لیکن وصیت کا آخری جملہ جو شعر پر مشتمل تھا آج تک ایک ایک جوان کی زبان پر جاری و ساری ہے۔ وصیت کے بالکل آخر میں لکھا تھا کہ ہم ہوں نہ اس بزم میں، قائم عزاداری رہے، یہ سلسلہ جاری رہے۔
 
یہ سلسلہ جاری ہے اور شہید کی روح اس بات کی شاہد ہے کہ لاہور کا یوم علی (ع) یزیدیوں کے خونی حملوں کے باوجود اس سال بھی پورے اہتمام کے ساتھ منایا گیا اور لاہور کے در و دیوار علی (ع) علی (ع) کی صداوں سے گونجتے رہے ہیں۔ وہی علی (ع) علی (ع) کی صدا جو شہید نے پوری زندگی بلند کی اور تختہ دار پر بھی اس کی گونج سنائی دی۔

شہید کا وصیت نامہ سادگی لیکن خوبصورتی سے آپ نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ جس میں کاغذ کے بائیں جانب ایک حاشیہ بنا ہوا تھا، یہ شہید کی لطافت قلبی کا مظہر اور اپنے پیغام کو روشن کرنے کی خاطر ایک کوشش تھی۔ اس حاشیہ میں کاغذ کی نیچے والی سائیڈ سے ایک گملہ بنا تھا، جس میں سے ایک شاخ اوپر کی طرف بلند ہو رہی ہے، جو کاغذ کے اوپر تک جاتی ہے اور اس شاخ میں سے ایک پھول کھل رہا ہے، اس کھلتے ہوئے پھول کے ساتھ پتیاں ہیں اور پھول اور پتیوں میں سے لہو ٹپک رہا ہے، جو غالباً اسی گملے میں واپس گر رہا ہے، جو اس چیز کی علامت ہے کہ اس پودے کی آبیاری خون سے ہو رہی ہے اور مسلسل ہو رہی ہے۔ لہذا اسے پھلنے پھولنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اسی کے نیچے ہمارے ترانے کے یہ جملے لکھے تھے کہ
 ہم ہوں نہ اس بزم میں قائم عزاداری رہے یہ سلسلہ جاری رہے۔ 

آپ نے اپنی وصیت میں جو پیغام بیان کیا، بالکل یہی الفاظ شہدائے ارض وطن کے سالار، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اسلام آباد میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی فلسطین و کشمیر کانفرنس میں ارشاد فرمائے تھے، جب وقت کی قلت کے باعث اسٹیج سے یہ کہا گیا کہ نعرے نہ لگائے جائیں تو شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اسٹیج پر تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ برادران عزیز یہ نعرے ضرور لگائیں، تاکہ کشمیر و فلسطین کے محاذوں پر فدا کاری کا مظاہرہ کرنے والے مجاہدین تک آپ کے جذبات پہنچیں اور ان کے حوصلے بلند ہوں۔
 
یہ کہنے کے بعد شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا لہجہ بھر آیا اور گویا ہوئے کہ برادران عزیز، ایک بات یاد رکھیے گا کہ سب سے افضل جہاد صف اول کا جہاد ہے اور ہم تک دین مبین اسلام کا جو پیغام پہنچا ہے یہ فقط نعروں اور کانفرنسوں کے ذریعے نہیں پہنچا، بلکہ یہ شہداء کے خون کے ذریعے ہم تک منتقل ہوا ہے۔ اسی دوران ڈاکٹر شہید نے ایک مجاہد بچے کی کہانی سنائی کہ وہ اپنے دشمن کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ اے دشمن میں تمہارے مقابلے میں ڈٹا رہوں گا، چاہے تم میرے ہاتھ کاٹ دو، لیکن میں اپنی زبان، اس کے بعد اپنی آنکھوں کے اشاروں سے حق کا پیغام بیان کرتا رہوں گا اور اگر تم مجھے شہید کر دو گے تو میرا لہو جس زمین پر گرے گا، اس میں جو اناج اگے گا، اس اناج کو جو لوگ کھائیں گے، ان تک میرا یہ پیغام منتقل ہوگا اور یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور آپ کے عزیز دوست شہید محرم علی نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے یہ سچ کر دکھایا کہ کربلا کا پیغام نسل در نسل رگ و پے سے منتقل ہوتا ہوا جاری و ساری ہے اور جاری و ساری رہے گا۔
شہید محرم علی کی زندگی مجسم ایمان تھی، آپ اعلٰی سیرت و کردار کے مالک تھے۔ جھوٹ اور منافقت سے سخت نفرت تھی۔ امامیہ نوجوانوں کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ جب تنظیمی پروگراموں میں آتے تو ہنستے ہوئے دوستوں بالخصوص اسکاؤٹس کو سیلوٹ کرتے اور چیف صاحب کہہ کے گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے۔ معنوی طور پر پاکیزہ اور جسمانی طور پر غیر معمولی حد تک چست اور فٹ تھے۔ چھوٹے بچوں کو پکڑ کے اپنے سر سے اوپر ہوا میں اچھالتے اور بہت محظوظ ہوتے تھے۔ 

اللہ تعالٰی اور امام زمانہ (ع) کا شہید پر خصوصی کرم تھا اور آپ روحانی اسرار سے بھی آگاہ تھے اور صاحبان معرفت آپ کی بہت قدر کرتے تھے، شہادت کے بعد آپ کی شخصیت کے روحانی و معنوی پہلو سے واقف بزرگ آپ کو کم از کم شہادت کے رتبے پر فائز ہونے کا حقدار گردانتے ہیں۔ آپ کا دنیا کی لذتوں، آسایشوں اور آسانیوں سے واجبی سا تعلق بھی نہیں تھا۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی آپ پر حد سے زیادہ اعتماد کرتے تھے اور انہوں نے شہید مظلوم علی ناصر صفوی اور شہید محرم علی کو اپنے آخری الفاظ میں بھی ان لفظوں میں یاد فرمایا کہ مجاہد ایسے ہوتے ہیں۔

شہید محرم علی ولایت فقیہ کے شیدائی اور دل و جان سے ولایت پر ایمان رکھتے تھے۔ رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے جب قمہ زنی سے متعلق فتویٰ دیا تو پاکستان کے ایک بڑے شہر میں رہبر معظم کے خلاف لٹریچر تقسیم کئے جانے کی اطلاع تھی، یا اربعین کے اس جلوس میں جب شہید محرم علی دیگر دوستوں کے ساتھ عزاداری میں شرکت کے لیے گئے تو اتفاق سے
انہیں پتہ چلا کہ یہاں اس قسم کے پمفلٹ تقسیم ہونے والے ہیں، اس علاقے میں مخصوص فکر کے حامل گروہ کی اجارہ داری ہوتی ہے، ایسے موقعوں پر وہ کسی کو پر نہیں مارنے دیتے، لیکن شہید محرم علی نے ان سے پمفلٹس کا وہ بنڈل چھینا اور باوجود رش اور ان کی کوششوں کے وہاں سے لیکر نکل گئے۔

آپ قائد شہید علامہ عارف حسین حسینی کے سچے عاشق تھے۔ آپ نے قائد شہید کے مقدس لہو سے اس طرح وفا کی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی، اگر ملت پاکستان اور بالخصوص جوان، قائد شہید کے سامنے سرخرو ہوں گے تو وہ فقط شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے شہید محرم علی جیسے دوستوں کی وجہ سے ہوں گے، اور اگر سرزمین پاکستان پر بسنے والے امام زمانہ (ع) کے سامنے سرخ رو ہوں گے تو وہ بھی بلامبالغہ ان شہداء کی وجہ سے۔ 

آپ کے قریبی رشتہ دار، عزیز، دوست، ہمسفر اور وہ تمام افراد جن کو مختلف اوقات میں شہید محرم علی کے ساتھ کچھ لمحات گذارنے کا موقع ملا یا جنہیں دنوں اور ہفتوں تک راہ خدا کے اس مہاجر کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا، وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ انہوں نے کبھی شہید کو اللہ رب العزت کی یاد سے غافل نہیں پایا۔ آخر کار جب شہید نے اپنے مادی جسم کو معنوی پرواز میں رکاوٹ سجھا تو آپ کی روح ملکوت اعلٰی کی طرف پرواز کر گئی۔ 

شائد قائد شہید اور شہید ڈاکٹر کے ہجر میں اس سے زیادہ طول برداشت نہیں کرسکتے تھے، یا خدا تعالٰی کو پسند نہیں تھا کہ راہ امام زمانہ (ع) کا فدائی دنیا داروں کی بے رخی اور مخاصمت کو جھیلتے ہوئے مزید آنسو بہائے۔ اللہ تعالٰی ہمیں شہید کی شفاعت نصیب فرمائے اور شہید کے دشمنوں کو قرار واقعی انجام تک پہنچائے، تاکہ امام زمانہ (ع) کے پاک وجود کے صدقے ملت مظلوم پاکستان کی مشکلات حل ہوں، یہ ارض وطن شرپسندوں کے وجود سے پاک ہو جائے اور مہدی (عج) دوراں کے ظہور میں تعجیل کے ساتھ دنیا عدل و انصاف کا گہوارہ بن جائے۔
خبر کا کوڈ : 186581
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش