0
Saturday 11 Aug 2012 16:10

ملتان کی ترقی کے دعویداروں کے جھگڑے

ملتان کی ترقی کے دعویداروں کے جھگڑے
تحریر: سید محمد ثقلین نقوی

پنجاب کے چیف منسٹر نے ساڑھے چار سال میں پہلی مرتبہ سرکاری طور پر ملتان کا دورہ کیا اور اس دورہ کے دوران انھوں نے بہت ساری باتیں کیں، جن میں سے ایک بات یہ تھی کہ ملتان میں وفاق سے پچاس ارب روپے کے فنڈ آئے، یہ رقم اگر پنجاب کے پاس ہوتی تو ملتان کی ہر اینٹ سونے کی ہوتی، میں آج کے کالم میں اسی پر اپنی گزارشات لکھوں گا، چیف منسٹر کہتے ہیں کہ یہ پچاس ارب ان کے ہاتھ ہوتے تو ملتان سونے کا ہوتا۔ لیکن ایسے بیسیوں پچاس ارب روپے 1985ء سے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے پاس لاہور کے لئے آئے تو کیا لاہور سونے کا بن گیا، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، رنگ روڈ کی تعمیر میں ناقص میٹریل کے استعمال کا اس وقت تک پتہ نہیں چلا جب تک اس کا ایک پل گر نہیں گیا اور کچھ جانیں بھی چلی گئیں۔

اس وقت لاہور شہر چند بارشوں کے بعد پانی سے ڈوبا ہوا ہے، وہاں کے اداروں کی کارکردگی سب کے سامنے آگئی ہے، اسی طرح سے لاہور میں ساری ترقی صرف و صرف امراء کے علاقوں میں کی گئی ہے جبکہ پرانے لاہور کا جو حال ہے اس کا شہرہ تو اب عالمی سطح پر سنا جا رہا ہے، ایک پروجیکٹ ہے پنجاب حکومت کے پاس لاہور میں پرانے اندرون شہر کی تزئین و آرائش کا۔ اس میں جس قدر گھپلے اور کرپشن ہوئی ہے اس کا احوال ایک انگریزی ماہنامے نے خصوصی رپورٹ میں کیا ہے، اس کو ایک نظر پڑھ لینا چاہیے۔

چیف منسٹر بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ملک میں گیس کا بحران ہے، لیکن اس کے باوجود انھوں نے ہزاروں سی این جی بسیں درآمد کیں ہیں اور یہ منصوبہ بہت جلد ڈبے میں بند ہونے والا ہے، جس طرح سے انھوں نے سستی روٹی سکیم کے تحت اربوں روپیہ جھونک دیا تھا اور اس میں بدعنوانی کی خبریں عام ہیں، اس حوالے سے آڈٹ رپورٹ کو پڑھ لینا مناسب ہوگا، شہباز شریف صاحب کا ایک اور منصوبہ پیلی گاڑیوں کا ہے، یہ گاڑیاں زیادہ تر پنجاب کے ان گھرانوں کے گھر کھڑی ہیں، جو کسی بھی طرح سے نہ تو غریب ہیں اور نہ ہی روزی روٹی کے لئے ان کو اس کی ضرورت ہے۔ سابقہ سکیم کے اربوں روپے تو آج تک واپس نہیں آئے اور اب یہ نئے گھپلے بھی سامنے آرہے ہیں۔

شہباز شریف کا کہنا ہے کہ زرداری اور ان کے ساتھی علی بابا اور چالیس چوروں کا ٹولہ ہے، لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ ان کے اپنے ہاں بھی اسی طرح کا ٹولہ جمع ہے، لاہور کے بعد ملتان ضلع سے ان کی محبت کے دعووں کو بھی پرکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ جیسے ہی برسراقتدار آئے تو انھوں نے پہلے مرحلے میں ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے اکثر ڈسٹرکس کا جو لوکل گورنمنٹ فنڈ تھا اس کو بہت ہی کم کر ڈالا، انھوں نے ملتان ترقیاتی ادارے کا فنڈ لاہور منتقل کر لیا۔ اسی طرح وہ ترقیاتی منصوبوں کی منظوری کو ضلع سے اٹھا کر ریجن میں لے گئے، ان کی ترجیح کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے لاہور کی ترقی کے صوبائی سطح پر جو اقدامات اٹھائے ویسے اقدامات انھوں نے ملتان، ڈیرہ غازی خان اور بہاول پور کے لئے نہیں اٹھائے۔

انھوں نے وعدوں کے باوجود ملتان کو بگ سٹی قرار نہیں دیا جبکہ نشتر کو ہیلتھ یونیورسٹی بنانے کے مطالبے کو اس مرتبہ بھی مسترد کر ڈالا، پنجاب حکومت کی طرف سے پرائمری کی تعلیم بارے جو کارکردگی ہے، اس پر لاہور کورٹ کا ایک فیصلہ ہی کافی ہے جبکہ اس وقت ضلع، تحصیل اور علاقائی ہیلتھ سینٹروں کی جو پوزیشن ہے، اس کے بعد بھی چیف منسٹر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ملتان کو سونے کا بنا سکتے ہیں، جبکہ واسا ملتان کی جو حالت ہے وہ کس سے پوشیدہ ہے۔؟

پورے ملتان کے اندر گندے پانی کی نکاسی ایک بگ ایشو بن چکی ہے، لیکن اس معاملے کا چیف منسٹر اس طرح سے بھی نوٹس نہیں لیتے جیسے انھوں نے لاہور میں لیا، کیا کبھی چیف منسٹر نے واسا ملتان کے افسروں سے پوچھا کہ یہ محکمہ عوام کے لئے آسانی کیوں نہیں پیدا کر پا رہا؟ میری خود ان کے ماتحت سرکاری افسروں سے بات چیت ہوئی ہے، ان میں سے بعض افسران تو وزیراعظم کے ترقیاتی پیکج پر عمل درآمد کے پروسس میں شامل رہے ہیں، انھوں نے اپنی شناخت کو پوشیدہ رکھے جانے کے وعدے پر راقم کو بتایا کہ جن منصوبوں میں پنجاب حکومت نے نصف رقم دینی تھی یا زمین حوالے کرنا تھی، انہی منصوبوں میں سب سے زیادہ تاخیر ہوئی اور ان منصوبوں کی لاگت میں بھی اضافہ ہوگیا۔

صوبائی پبلک ہیلتھ انجیئرنگ کے افسران کا کردار بھی اس حوالے سے تسلی بخش نہیں تھا، ان افسران کا کہنا ہے کہ ان پر زبردست دباو ڈالا گیا اور ان سے یہ بھی کہا گیا کہ ان منصوبوں کو خراب کریں، چیف منسٹر صاحب اور ان کے رفقاء اس خطے میں کبھی پچاس ارب روپے کا ترقیاتی پیکج لے کر نہیں آئے اور ان کی گزشتہ اور موجودہ حکومتوں کا ریکارڈ یہ ہے کہ انھوں نے جنوبی پنجاب کے دیہی علاقوں کو اور دریائی علاقوں کو شہروں سے ملانے اور جنوبی پنجاب میں اربنائزیشن کو تیز کرنے کے لئے کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا۔

چیف منسٹر صاحب اگر ملتان سے اس قدر مخلص ہیں تو ملتان ہارٹیکلچر اینڈ پارکس اتھارٹی آج تک صرف اپنے ملازموں کی تنخواہوں کے سوا کوئی بھی ترقیاتی فنڈ حاصل کرنے میں ناکام کیوں ہے؟ کیا ملتان کو پارکس اور ہارٹیکلچر کی ضرورت نہیں ہے؟ صرف ملتان ہی نہیں جنوبی پنجاب کے اکثر علاقے بری طرح سے اس معاملے میں نظر انداز کئے جا رہے ہیں، چیف منسٹر ابھی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں گئے تھے۔ انھوں نے وہاں منصفانہ لوڈشیڈنگ کا سوال اٹھایا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر وہ انصاف کے قائل ہیں تو جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب کے تمام علاقوں میں یکساں لوڈشیڈنگ کرنے کا مطالبہ کریں اور یہ بھی مطالبہ کریں کہ پنجاب کے اندر تمام وی آئی پیز پر بھی لوڈشیڈنگ کا اطلاق ہو، ان کے اپنے ہائوسز اور دفاتر میں بھی لوڈشیڈنگ ہونی چاہیے، میں کہتا ہوں کہ وہ لاہور، فیصل آباد، پنڈی، گجرانوالہ جیسے شہروں میں لوڈشیڈنگ اسی تناسب سے کرائیں جس قدر یہ بجلی خرچ کرتے ہیں۔ یہ کوئی برابری نہیں ہے کہ زیادہ اور کم بجلی کے صارف لوڈ بھی ایک طرح سے شیئر کریں۔

اسی طرح سے پانی کی تقسیم میں بھی وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب کے درمیان تقسیم کا کوئی فارمولہ طے ہونا چاہیے، پنجاب سے امتیازی سلوک کا واویلا کرنے والے چیف منسٹر پنجاب کے اندر وسطی پنجاب کی طرف سے جنوبی پنجاب سے ہونے والے امتیازی سلوک پر کوئی آواز نہیں اٹھاتے، جنوبی پنجاب والے کسی مشترکہ مفادات کونسل میں نہیں جاسکتے، ان کے پاس ارسا جانے کی اتھارٹی بھی نہیں ہے، چیف منسٹر بتائیں کہ اہل جنوبی پنجاب کس کے پاس جائیں؟

چیف منسٹر صاحب انصاف کی بات کرتے ہیں اور نئے نئے بھاشن دیتے رہتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان کی حکومت جب بھی آتی ہے تو جنوبی پنجاب کے منصوبے کیوں وسطی پنجاب منتقل ہوتے ہیں؟ ان کی طرف سے ماضی میں بہاول پور اور ڈیرہ غازی خان ترقیاتی اتھارٹیز کو کیوں ختم کیا گیا؟ بہت سارے واقعات ذہن میں ہیں، نشتر پل کا منصوبہ بینظیر بھٹو نے ترانوے میں شروع کیا تو نواز شریف نے آکر اس کو ختم کرگئے، جن منصوبوں پر گیلانی نے کام کیا، ان میں اکثر تو چالیس سال پرانے مطالبات پر مبنی تھے۔

گیلانی سرکار کی ترقی کا ایک پہلو ایسا ہے جس کی اہمیت سے انکاری ہونا عوام دشمنی ہے اور وہ یہ ہے کہ انھوں نے رورل علاقے جو اصل میں پس افتادگی کی وجہ سے رورل تھے، ان کو سیمی اربن اور اربن علاقوں میں بدلے جانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، یہی عمل سندھ میں بھی ہوا ہے، میں معذرت سے کہوں گا کہ شہباز شریف اور مسلم لیگ نواز اس عمل کو روکنا چاہتی ہے، وہ ایک طرف تو بلدیاتی نظام کے ذریعہ پرانی دیہی اور شہری تقسیم کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے، دوسری طرف وہ اختیارات کو نیچے سے پھر اوپر لیجانے کی کوشش کر رہی ہے۔

شہباز شریف جب نشتر کو ہیلتھ یونیورسٹی نہیں بناتے تو اس کے پیچھے بھی مرکزیت کی ذہنیت کارفرما ہوتی ہے، وہ لاہور کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول اور اختیارات دینے پر یقین رکھنے والے آدمی ہیں اسی لئے وہ ایک منتخب جمہوری صوبائی حکومت میں سب سے بے اخیتار کابینہ اور باختیار ٹاسک فورسز رکھتے ہیں، جس میں افسر شاہی سے مل کر وہ زیادہ سے زیادہ اختیارات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، ان کی اس روش سے خود ان کی پارلیمانی پارٹی میں بغاوت اور فارورڈ بلاک بننے کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ دوست محمد کھوسہ کو تو جانے دیجئے، انھوں نے جو سلوک جاوید ہاشمی کے ساتھ کیا ہے اس سے آمرانہ سوچ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

جس دن شہباز شریف ملتان آئے، ملتان میں جیسا کرفیو کا منظر ہو، اُس وقت میں اُسی سڑک پر تھا جہاں سے وزیراعلٰٰی کی شاہی سواری نے گزرنا تھا، اتفاق سے اُس دن میرے ساتھ کراچی کے ایک مہمان بھی تھے، جب وزیراعلٰی کی شاہی سواریاں ابدالی روڈ سے گزریں تو میرے دوست نے مجھ سے پوچھا کہ کیا طوفان ہے، میں نے کہا کہ یہ خادم اعلٰی کی سواری ہے۔ جس پر اُس دوست نے کہا کہ اگر یہ پنجاب کا خادم اعلٰی ہے تو خدا جانے وزیراعلٰی کیسا ہوگا۔

میں ان کے اس دورے کے دوران خود ان کے پارٹی ورکرز کے ساتھ ہونے والے سلوک اور اس دوران عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر کوئی بات نہیں کروں گا، کیونکہ اس پر ناراض کارکنوں کا ایک جملہ ہی کافی ہے شیر آیا بھی اور بھاگ بھی گیا، یاد رہے کہ وزیراعلٰی کا یہ دورہ اُس وقت کیا گیا جب شہباز شریف کی حکومت ختم ہونے کے قریب ہے، اور ان حالات میں وعدے کرنا سیاستدانوں کی پُرانی عادت ہے۔ یہ وعدے کیے جاتے ہیں اور نمبر گیم کھیلی جاتی ہے اور میڈیا میں آنے اور فوٹو سیشن کے خواہاں ہوتے ہیں۔ 

جنوبی پنجاب سے مخدوم جاوید ہاشمی کے جانے کے بعد کھوسہ خاندان بھی مسلم لیگ ن کو الوداع کہہ چکا ہے، اب اگر کہا جائے کہ مسلم لیگ نواز کے پاس جنوبی پنجاب میں کوئی بڑا لیڈر نہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا، کھوسہ خاندان کے جانے سے جہاں مسلم لیگ ن کو دھچکا ہوا ہے وہیں پاکستان پیپلزپارٹی کو فائدہ بھی متوقع ہے۔
خبر کا کوڈ : 186652
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش