1
0
Sunday 12 Aug 2012 17:13

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا پل صراط

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا پل صراط
تحریر: رشید احمد صدیقی
 
تحریک انصاف کو لاہور کے جلسہ کے بعد سے جو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی ہے، اس کا پاکستانی سیاست پر گہرا اثر پڑا ہے۔ ملک بھر میں کئی نامی گرامی سیاستدان اس میں شامل ہوگئے۔ اس نے راولپنڈی اور کراچی میں بھی بہت بڑے جلسے کیے۔ موجودہ مقبولیت سے پہلے خیبر پختونخوا ہی ایسا صوبہ تھا، جہاں سے اس کو اسمبلی میں سیٹ مل سکی تھی۔ اور اس کی زیادہ قوت یہاں محسوس کی جاتی تھی۔ مقبولیت کے دور میں عمران خان کو مستقبل کے آئینہ میں خود وزیراعظم نظر آنے لگا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے قائدین بھی اپنے لیے وزارت اعلٰی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

پارٹی سربراہ نئے آنے والوں کو جگہ دینے کے لیے پارٹی میں ہر سطح پر انتخابات کے خواہاں ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پنجاب کی طرح کوئی بہت بڑی شخصیت اس نئی مقبول جماعت میں نہیں آئی ہے، البتہ سابق صوبائی وزیر پرویز خٹک، سابق وفاقی وزیر خواجہ ہوتی، سابق صوبائی وزیر افتخار جھگڑا۔۔۔ چند ایک ایسے نام ہیں جن کا سیاست میں ایک مقام ہے۔ سابق چیف سیکرٹری رستم شاہ مہمند بھی ایک بڑا نام ہے۔ جب سے عمران خان نے الیکشن کا اعلان کیا ہے تمام تنظیمیں توڑدی گئی ہیں، ہر عہدیدار عام کارکن بن گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں صوبائی مجلس عاملہ نے اپنے طور پر اجلاس طلب کرکے رستم شاہ مہمند کو ایڈمنسٹریٹر، شوکت یوسفزئی کو سیکرٹری اور اسد قیصر کو فنانس سیکرٹری مقرر کیا۔ 

ان لوگوں کا کام نئے انتخابات تک پارٹی امور چلانا اور انتخابات کروانا ہے۔ رستم شاہ مہمند انتہائی تجربہ کار بیوریکریٹ ہیں اور قواعد و ضوابط ان سے زیادہ کون اچھی طرح سمجھتا ہوگا۔ اس کے باوجود نئی تقرریوں کو اگلے روز عمران خان نے کالعدم قرارد دیا اور کہا کہ اس طرح کی تقرریوں کا آئینی اختیار صرف مرکزی چیئرمین کو ہے، چنانچہ ایک بار پھر اہم عہدے خالی ہوگئے۔ 

تحریک انصاف کے پرجوش قائدین کی نظر وزارت اعلٰی پر ہے۔ گویا جو شخص صوبائی صدر بن گیا وہ آئندہ وزیراعلٰی ہوں گے۔ چنانچہ اتنے بڑے موقع کو کوئی بھی گنوانا نہیں چاہتا۔ خصوصاً پرویز خٹک جن کو سیاست میں جوڑ توڑ کا بادشاہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ وہ مشرف دور میں ضلع نوشہرہ کے ناظم منتخب ہوئے تھے اور جنرل مشرف کو یہاں لاکر بڑے بڑے اعلانات کروائے تھے۔ وہ ان کی ٹیم کے ہراول دستہ میں تھے۔ اس سے قبل ان کا سیاسی کیرئیر پیپلزپارٹی سے وابستہ تھا اور متعدد بار صوبائی وزیر بنے تھے۔ آفتاب شیر پائو نے الگ دھڑا بنایا تو خٹک صاحب صوبائی صدر بن گئے۔
 
ان کی دولت اور اثر و رسوخ کی مثال دی جاتی ہے۔ 2008ء کے آخری انتخاب میں شیرپائو گروپ کے امیدوار کے طور پر حصہ لیا اور جیت گئے۔ کامیابی کے بعد پی پی پی میں شامل ہوگئے اور صوبائی وزیر بن گئے۔ عمران خان کی سونامی میں بہہ کر ان کے ہوگئے۔ وہ اگر تحریک انصاف کے صوبائی صدر بنتے ہیں تو صوبائی وزارت اعلٰی ان کو اپنی جھولی میں نظر آ رہی ہے۔ اتنے بڑے موقع کو حاصل کرنے کے لیے شائد وہ اس بات کی کم ہی پروا کریں کہ نوخیز جماعت کا ڈسپلن خراب ہوتا ہے یا پارٹی میں دھڑا بندی کا آغاز ہوتا ہے۔ اس جانب عمران خان کے سیاسی مشیر شوکت یوسفزئی نے اشارہ دیا ہے کہ پرویز خٹک اور اسد قیصر کارکنوں کو فیصلہ کرنے کیوں نہیں دے رہے ہیں۔ 

پارٹی صدارت اور مستقبل کی وزارت اعلٰی کے دوسرے امیدوار اور اپنے تئیں سب سے زیادہ مستقحق اسد قیصر ہیں۔ ان کا تعلق ضلع صوابی سے ہے۔ متوسط طبقے سے ان کی شخصیت ابھری ہے، لیکن اچھے کاروباری ہیں اور مالی حیثیت ان کی کافی مستحکم ہوگئی ہے۔ سیاسی اور نظریاتی اٹھان ان کی جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے ہوئی ہے۔ جب سے عمران خان کا ساتھ دیا ہے تو کارکن کی حیثیت میں تھے اور استقامت کے ساتھ سفر کرتے کرتے صوبائی صدارت تک پہنچے۔ اس دوران نامی گرامی سیاستدان، عمران خان کے ساتھ آئے اور درمیان میں چلے گئے لیکن وہ ڈٹے رہے۔ عمران خان کے بے لوث ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں میں ذاتی اثر رسوخ پیدا کرچکے ہیں۔ وہ سب سے بڑھ کر پارٹی کی صوبائی صدارت کو اپنا حق سمجھتے ہیں، کیونکہ انھوں نے اس وقت عمران خان کا ساتھ دیا اور مسلسل دیا جب انھیں ناکام سیاستدان قرار دیا جاتا تھا۔ 

پارٹی کی صوبائی صدارت پر نظریں جمانے والے تیسرے امیدوار شوکت علی یوسفزئی ہیں۔ دور طالب علمی سے سیاست کرتے آئے ہیں۔ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صوبائی عہدیدار تھے۔ عملی زندگی میں صحافی کے طور پر شامل ہوئے۔ کامیاب صحافت کے ساتھ صحافتی سیاست میں بھی کافی سرگرم رہے اور متعدد بار خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ صحافتی جوڑ توڑ کے گرو مانے جاتے ہیں۔ کرکٹ کے بھی کافی شوقین ہیں اور عمران خان کے ساتھ ٹیم میں کھیلنے کے خواب بھی شائد کافی دیکھے ہوں گے۔1997ء میں اچھی خاصی صحافت چھوڑ کر شانگلہ سے صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور تحریک انصاف کے تمام امیدواروں کی طرح ناکام ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے نئے سرے سے صحافت کا آغاز کیا۔

چند سال قبل اپنے اخبار کے مالک بنے اور ایم ایم اے دور کے صوبائی وزیر اطلاعات کے کافی قریب نظر آئے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی اور علمی گھرانے سے ہے۔ اپنی محنت اور قسمت کے بل بوتے پر کافی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ عمران کے دوسرے جنم میں شوکت یوسفزئی دوبارہ ان کے ساتھ سرگرم ہوئے۔ آتے ہی ان کے سیاسی مشیر بن گئے۔ اب جبکہ صوبائی صدارت کا مرحلہ درپیش ہے، شائد سب سے زیادہ یہ بات ان کو سمجھ آ رہی ہے کہ پارٹی کا صوبائی صدر وزارت اعلٰی یا پھر حکومت سازی میں مرکزی نقطہ ثابت ہوگا، چنانچہ صوبائی صدارت میں سب سے زیادہ دلچسپی وہ لے رہے ہیں۔ ان کے دو بھائی بھی صحافت کے ساتھ ہیں۔ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں وہ ان کی کافی مدد کر رہے ہیں۔ اس دوڑ میں ان کی سرگرمی کافی سنجیدہ نظر آرہی ہے۔ وہ ورکر گروپ کے امیدوار ہیں، جنھوں نے باقاعدہ پینل تشکیل دے دیا ہے اور سب سے پہلے ان کی جانب سے پرویز خٹک اور اسد قیصر پر الزام تراشی ہوئی ہے۔ 

پارٹی میں ہر سطح پر الیکشن ہوں گے تو پتہ چلے گا کہ جماعتی عہدے کن کو ملتے ہیں۔ لیکن پارٹی کی مقبولیت کو دیکھ کر صوبائی صدارت کو ابھی یا کبھی نہیں کے انداز میں دیکھنا پارٹی کے لیے کسی طور صحت مند ماحول نہیں ہے۔ موجودہ صورت حال میں تو یوں لگتا ہے کہ صوبائی صدارت کے حصول کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جائیگا۔ پارٹی ڈسپلن، رواداری اور آئین۔۔۔ ان باتون کو ثانوی حیثیت دی جا رہی ہے۔ یہ حالت برقرار رہی تو سیاسی ماہرین پارٹی انتخابات کو پل صراط سے کم نہیں دیکھ رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 186653
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

رشید صدیقی ماشااللہ بڑا جاندار اور حقیقت پر مبنی تبصرہ تحریر کیا ہے۔۔ آپکی قلمی پختگی اور سیایسی بصیرت پسند آئی۔۔۔ اللہ اور زیادہ کرے زور قلم آمین
ہماری پیشکش