1
0
Tuesday 14 Aug 2012 15:57

جشن آزادی یا کرب غلامی

جشن آزادی یا کرب غلامی
تحریر: سید قمر رضوی
 
آج سے 65 برس قبل برِصغیر کے مسلمان رہنماؤں نے اپنی شبانہ روز محنت اور انتھک کوششوں کے بعد بالآخر ہندوستان کی زمین پر بٹوارے کی لکیر کھینچ دی اور مسلمان اکثریت کے علاقے میں بسنے والوں کو ایک طویل سامراجی نظام کی زنجیروں سے چھٹکارا دلوا کر آزادی کی خوشخبری سنائی۔ 14 اگست 1947ء کو ایک نئی، آزاد، خودمختار اور نظریاتی مملکت نے سینہء زمین پر آنکھ کھولی اور یوں مسلمانانِ ہند اب مسلمانانِ پاکستان ہوگئے۔

پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا اپنی ساخت کا ایک انوکھا واقعہ ہے، جو تاریخی حوالہ جات میں ایک معجزے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ایسی قوم، جو قومی لحاظ سے اپنا تشخص کھوچکی تھی۔ جسکے بزرگ، جوان، عورتیں اور بچے غفلت کی ایسی نیند سوئے ہوئے تھے کہ سات سمندر پار سے دشمن، دوست کا روپ دھار کر آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام ملک، اسکے وسائل اور اسکے حال پر قابض ہوگیا اور یہاں کے رہنے والے اپنے ہی گھر میں اجنبی بن کر رہ گئے۔
 
محض اجنبی ہی رہتے تو بھی قابلِ قبول تھا، مگر انگریز نے کچھ اس انداز میں اس سرزمین پر اپنے قدم جمائے کہ صدیوں سے اسی زمین کے بیٹے اسی زمین پر غلام بن کررہ گئے اور قرونِ اولٰی کی یاد تازہ ہوگئی۔ یہ دورِ غلامی کافی طویل ہوچلا، جس نے فضا میں اتنی گھٹن پیدا کی کہ سانس لینا تک دشوار ہوگیا۔ اپنی انہی سانسوں کو بحال کرنے اور انگریز کو اس ملک سے نکالنے کی جو جدوجہد ہندوستانیوں نے کی، وہ ایک الگ داستان ہے، جسکا ذکر یہاں مقصود نہیں۔

مشہور کہاوت ہے کہ جب ڈھونڈنے والوں کے لئے تمام راستے بند ہوجائیں تو اوپر والا ایک پتلی گلی ضرور پیدا کرتا ہے، جہاں کی تاریکی میں راستہ ٹٹولتا ہوا قافلہ کسی نخلستان میں جا پہنچتا ہے۔ مسلمانانِ ہند کے لئے بھی اس گھٹن اور تاریکی میں خدا نے ایسے ایسے راہنما بھیج دیئے، جو تمام تر مفادات، حرص اور ہوس کی آلائشوں سے پاک، شفاف آئینوں کی مانند اس قوم کی رہبری کے لئے کمربستہ ہوگئے، جو اب اپنی غفلت کی نیند سے بیدار ہونا شروع ہو چکی تھی اور تازہ ہوا میں سانس لینا چاہتی تھی۔

محمد علی جناح، محمد اقبال، لیاقت علی خان، سید احمد خاں، محمد علی جوہر، شوکت علی، راجہ صاحب، فاطمہ جناح رحم اللہ عنہم اور اسی قبیل کے سینکڑوں بابصیرت و ہوشمند راہبران آگے بڑھے اور اس حساس قوم کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو پار لگانے کا بیڑہ اٹھایا۔ یہ مظہر اظہر من الشمس ہے کہ کسی ڈوبتے کو بچانے کے لئے سمندر میں وہی چھلانگ لگاتا ہے، جو سمندر کے مزاج سے بھی آشنا ہو اور اپنی جان سے بھی بے نیاز ہو۔ کوئی بھی اناڑی یا موت سے خوفزدہ شخص یہ کام نہیں کرسکتا۔ خدا کا صد شکر کہ اس نے مسلمانوں کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو بچانے کے لئے ایسے ایسے باکمال ناخدا دیئے جو عالمی سامراج کے سیاہ سمندر میں انگریز و ہندو اور مسلم نماؤں جیسی آسمان کو چھوتی خوفناک لہروں سے نبردآزما ہوئے۔ 

ہندوستان میں اموی سیاست کا تسلسل تھا کہ خدا کے ان عاشقوں نے سیاستِ حیدری سے تمام سازشوں کی بساط ایسے الٹ کے رکھ دی کہ آج بھی دنیا کے محققین، دانشور اور سیاسی میدانوں کے پہلوان اس بات پر حیران ہیں کہ کس طرح سے ہندوستان کے چند بوڑھے، لاغر اور بظاہر کمزور افراد نے راہبری کی ایسی داستان رقم کی کہ نہ صرف اس انگریز کو الٹے پیروں بھگا دیا کہ جسکی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوا کرتا تھا، بلکہ غلیظ ترین سازش کرنے والے ہندو کو بھی اسی کی سازشوں کا شکار کرکے ہاتھ ملتا ہوا چھوڑ کر رکھ دیا۔ اور اس قوم کو "آزادی" کا تحفہ دیا، جسکی اپنی آرزو یہی تحفہ حاصل کرنے کی تھی۔

14 اگست 1947ء کو مسلمانانِ ہندوستان آزاد ہوگئے اور اپنے خود مختار وطن کی کھلی فضاؤں میں گہری اور لطیف سانسوں کے ذریعے آزادی کی چاشنی کو اپنے رگ و پے میں اترتا ہوا محسوس کرنے لگے۔ آزادی کا احساس کیا ہوگا؟ یہ تو وہی جانیں جنہوں نے یہ احساس کیا ہوگا۔ اسی احساس کی قوت کے بل بوتے پر یہ متوالے اپنا گھر بار، اعزا و اقربا، قبورِ اجداد اور تمام زمین جائیداد چھوڑ کر خدا کے آسرے پر اس سرزمین کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔ انکی نظروں میں ایک تابناک مستقبل تھا، جسکے آگے یہ تمام چیزیں دھول کے برابر بھی نہ تھیں۔ ہندوستان سے نوزائیدہ پاکستان کی جانب مہاجرین کا اتنا طویل کاروان چلا کہ عظیم ترین ہجرت کے عنوان سے تاریخ کے صفحات میں اپنا انمٹ نقش ثبت کرگیا۔

یہ آزادی کی عطا کردہ قوت ہی تھی جسکی بنیاد پر اس قوم کا سفر صفر سے شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسکا شمار دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی اقوام میں ہونے لگا۔ ایک علیحدہ نظریاتی ریاست کا وجود میں آنا اور پھر ترقی کے زینے طے کرنا نہ جانے کس کی آنکھ کا کانٹا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے آزادی اور ترقی کے معنی ہی بدل گئے۔ آج سے پینسٹھ سال قبل میرے اجداد خوش تھے۔ انکے سامنے انکی منزل تھی۔ انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کرکے ہمارے لئے ایک آزاد وطن حاصل کیا تھا، تاکہ آنے والی نسلوں سے غلامی کے وہ سائے بھی دور رہیں کہ جس دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کے بہانے یہاں آئی اور غیر محسوس طریقے سے پورے ملک پر قابض ہوگئی۔ ہمارے اجداد نے وہ دور ایک سیاہ اور حبس شدہ رات کے طور پر کاٹ کر ہمارے لئے روشن اور تازہ صبح کی بنیاد رکھی، اور اپنا کام کرکے اس دنیا سے چلتے بنے۔

آج پینسٹھ سال بعد میں اپنے اجداد کی برعکس خوش ہونے کی بجائے حیران، پریشان اور پشیمان ہوں۔ جس ایسٹ انڈیا کمپنی کے منحوس سائے کو میرے اجداد نے اپنا خون دے کر ہمارے سروں سے محو کیا تھا، آج وہی ایسٹ انڈیا کمپنی نام، کام اور چہرے مہرے بدل کر ایک مرتبہ پھر میرے وطن کے چپے چپے پر قابض ہوگئی ہے۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ملٹی نیشنل بینک "ترقی" اور "خوشحالی" کا نعرہ لے کر ایک بار پھر ہمارے پیروں میں غلامی کی زنجیریں ڈال چکی ہیں۔
پینسٹھ سال کا سفر طے کرکے آج آزادی کا مفہوم بھی بدل چکا ہے۔ آج اس ملک کے بظاہر آزاد باشندے تو عالمی سامراجی نظام کے غیر مرئی شکنجوں میں جڑ چکے ہیں، جبکہ یہاں مکمل آزادی حاصل ہے
دہشت گردوں کو کہ جسے دل چاہیں مذہب یا قوم کے نام پر قتل کر دیں،
سیاستدانوں کو کہ جب چاہیں اور جیسے چاہیں باری کا نظام نافذ کرکے ملک کے وسائل پر اپنا اجارہ قائم رکھیں،
فوج کو کہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی بجائے دوسری ذمہ داریوں میں مصروف رہے،
وڈیروں اور جاگیرداروں کو کہ جب جہاں اور جیسے چاہیں، غرباء کا استحصال کریں،
مذہبی ٹھیکیداروں کو کہ جسے چاہیں کافر قرار دے کر اس سے جینے کا حق چھین لیں،
غیر ملکی قوتوں کو کہ چاہیں تو دن دیہاڑے اس ملک کے سپوتوں کو ملک میں گھس کر قتل کر ڈالیں یا سرحد پر موجود محافظین کو بھون ڈالیں۔

کیا اس لئے چنوائے تھے تقدیر نے تنکے
کہ بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے؟؟؟


یہاں آزادی حاصل ہے لینڈ، آٹا، شوگر، منشیات، اسلحہ، پراپرٹی، ٹرانسپورٹ، تاجر اور بیوروکریسی مافیا کو کہ جب، جہاں اور جس طرح چاہے، اپنی قوت کا مظاہرہ کرے اور اس ملک کے نظام کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر وسائل پر نقب زنی کرے۔
یہاں قانون کے رکھوالوں کے بہروپ میں ڈاکوؤں کو مکمل آزادی ہے کہ جیسے چاہیں قانون کی دھجیاں بکھیریں۔
یہاں عدلیہ آزاد ہے کہ چاہے تو بے گناہوں کو تختہء دار پر جھلا دے یا قاتلوں کو باعزت بری کرکے مزید دہشت پھیلانے کا اجازت نامہ دے دے۔

آج انہی قوتوں کی آزادی نے ہم سے وہ آزادی چھین لی ہے جسکی بہت بڑی قیمت ہمارے اجداد نے ادا کی تھی۔ آج ایک عام پاکستانی اپنے ہی وطن میں بدترین قید کا شکار ہے اور عالمِ تصور میں اپنے اسلاف سے شرمندہ ہے کہ انکی قیمتی امانت کی حفاظت نہ کرسکا۔ آج پورا پاکستان غربت، جہالت، ناانصافی اور بداخلاقی کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ اسکا چپہ چپہ جل رہا ہے۔ اسکے گلی کوچوں میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک تشنہء جواب سوال ہے کہ آزادی اور ترقی کے معنی یوں غیر محسوس طریقے سے کیوں کر بدل گئے کہ اس سرزمین کا وارث ایک عام، تعلیم یافتہ اور باشعور پاکستانی اپنے ہی گھر میں ایک اجنبی بن کربِ غلامی کی قید میں ہے اور ملک کے کونے کونے میں ہر قسم کا مافیا پاکستان کا پینسٹھواں جشنِ آزادی منا رہا ہے!!!
خبر کا کوڈ : 187472
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United Kingdom
یہاں عدلیہ آزاد ہے کہ چاہے تو بے گناہوں کو تختہء دار پر جھلا دے یا قاتلوں کو باعزت بری کرکے مزید دہشت پھیلانے کا اجازت نامہ دے دے۔

Very nice piece of writing
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش