0
Wednesday 15 Aug 2012 19:00

دفاع فلسطین و القدس ہر مسلمان کا شرعی فریضہ (1)

دفاع فلسطین و القدس ہر مسلمان کا شرعی فریضہ (1)
تحریر: صابر کربلائی
مرکزی ترجمان فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

مسئلہ فلسطین و القدس کی اہمیت:
مسئلہ فلسطین آج دور حاضر میں زندہ رکھنا ایک ایسا فریضہ ہے جس سے کوتاہی دراصل اسلام سے خیانت کے مترادف ہے، مسئلہ فلسطین کی اہمیت و نوعیت کو عالمی استعمار امریکہ و اسرائیل اور دیگر عالمی قوتوں نے ایک سازش کے تحت محدود کرنے اور دنیا کی توجہ فلسطین و القدس سے منحرف کرنے کی جو گھناؤنی سازشیں کی ہیں ان میں سے ایک بڑی اور اہم ترین سازش مسئلہ فلسطین و القدس کی اہمیت کو کم سے کم کرکے بیان کیا جانا ہے۔
 
مثال کے طور پر جب دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر سرزمین القدس پر جمع کیا گیا اور عربوں کی سرزمین یا جسے انبیاء (ع) و اسرایٰ کی سرزمین کہتے ہیں (فلسطین) میں لاکر بسایا گیا اور بالآخر سنہ 1948ء میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود عمل میں آگیا اور اس کے بعد عالمی دہشت گرد امریکہ اور غاصب اسرائیل کی سرپرست یورپی قوتوں نے دنیا بھر کو اس مسئلہ کو فقط فلسطینیوں اور یہودیوں کے مابین ایک مسئلہ قرار دیتے ہوئے کوشش کی کہ اس مسئلہ کی طرف سے دنیا کی توجہ منحرف کی جائے۔

دراصل سرزمین فلسطین پر قائم ہونے والی غیر قانونی اور دہشت گرد ریاست اسرائیل کو تحفظ دینے کے لئے عالمی دہشت گرد امریکہ نے ہر ممکن کوشش کی اور جس خطے میں اسرائیل نامی ناجائز ریاست کا وجود عمل میں آیا وہاں کا جغرافیائی مطالعہ کیا جائے تو نہر سوئز جیسے اہم راستے اس کی جغرافیائی حدود کی اہمیت کو مزید بڑھاتے ہیں، تاہم اسی اہمیت کے حامل خطے میں صیہونی ریاست کا وجود بھی اسی سازش کے تحت وجود میں آیا ہے تاکہ خطے کے تمام تر معاملات کو کنٹرول کیا جا سکے اور غاصب اسرائیل کے ناجائز وجود کے بعد سے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کی بات منظر عام پر آنا صیہونی دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کی نشاندہی کرتا ہے۔
 
صیہونی دہشت گردوں کی جانب سے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ یعنی نیل سے فرات تک اسرائیل کی سرحدیں، اس بات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف عرب فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان ہے؟ یقیناً ہرگز نہیں! دوسری جانب مسلم امہ کا قبلہ اول بیت المقدس (مسجد اقصٰی) پر اسرائیلیوں کا غاصبانہ قبضہ اور مسجد اقصیٰ کی توہین اور بالخصوص 21 اگست 1969ء میں یہودی انتہا پسندوں کی جانب سے مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کیا جانے سمیت متعدد مرتبہ قبلہ اول کے تقدس کو پامال کیا جاتا رہا ہے۔ القدس (یروشلم) میں مسلمانوں کی 3000 مقدس مقامات موجود ہیں جس کو غاصب اسرائیل نابود کرنا چاہتا ہے۔

القدس جو کہ مذہبی اہمیت کا بھی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی ثقافت کا بھی ایک عظیم شاہکار ہے کے حوالے سے روایات میں ملتا ہے کہ آخری زمانہ میں پیغمر اکرم (ص) کی اولاد سے ایک فرزند جس کا نام حضرت امام مہدی (ع) ہوگا وہ ظہور کریں گے اور قبلہ اول بیت المقدس میں نماز کی امامت فرمائیں گے جبکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی ظہور کریں گے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی امامت میں نماز ادا کریں گے۔ اس روایت کو پڑھنے کے بعد قبلہ اول کی مذہبی اہمیت مسلمانوں اور عیسائیوں کے نزدیک اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، تاہم یہ ایک ضروری امر ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس کو آزاد کروانا اور القدس کی آزادی کی جدوجہد میں شریک ہونا ہر مسلمان کا شرعی اور اخلاقی فریضہ بھی ہے۔

ان تمام باتوں کے پیش نظر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ القدس کی اہمیت اور مسئلہ فلسطین کی اہمیت کی نوعیت فقط فلسطینی اور اسرائیلی لوگوں کے درمیان نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ اور مسلم امہ کا اول ترین مسئلہ ہے جبکہ عالم انسانیت کا مسئلہ ہے۔ جہاں عالمی دہشت گرد امریکہ نے اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تحفظ دینے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے ہیں وہاں مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو محدود کرنے کے لئے بھی بھرپور گھناؤنی سازشیں کی ہیں۔
 
مثلاً ایک مخصوص فکر و سوچ کو ترویج دیا گیا ہے جس کے تحت یہ کہا گیا ہے کہ مسئلہ فلسطین نہ تو انسانیت کا مسئلہ ہے اور نہ ہے مسلم امہ کا مسئلہ ہے بلکہ یہ مسئلہ صرف اور صرف فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کا مسئلہ ہے اور پھر بتدریج اس مسئلہ کی نوعیت کو محدود کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ یہ مسئلہ فلسطین کی ایک تنظیم الفتح اور اسرائیل کے درمیان ہے جن کو آپس میں گفت و شنید کے ذریعے حل کر نا چاہئیے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ مسئلہ صرف الفتح اور اسرائیل کے مابین ہے؟ یا یہ ایک عالمگیر اور انسانیت کا مسئلہ ہے؟

قارئین! ایک اور بات جو عام طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اکثر پڑھے لکھے اور باشعور لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اسرائیل کو 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلے جانا چاہئیے تاکہ یہ مسئلہ ختم ہوجائے۔ لیکن یہاں بات سنہ 1967ء کی سرحدوں کی نہیں ہے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سنہ 1948ء سے قبل یا اس سے بھی زیادی ماضی کی تاریخ میں چلے جائیں تو فلسطین نامی خطے میں کوئی اسرائیل نامی ریاست موجود تھی؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر اسرائیل نامی کسی ریاست کا وجود ہونا ہی نہیں چاہئیے اور یہ ہے اس مسئلہ کا سیدھا اور آسان سا حل۔ 

قارئین! رمضان المبارک کا مہینہ چل رہا ہے اور اس ماہ مبارک میں ہر مسلمان روزہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے عہد کرتا ہے کہ ہر مظلوم و دکھی انسان کی خدمت کروں گا یقیناً اس ماہ مبارک کی برکتوں سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئیے اور اس ماہ مبارک رمضان میں فلسطین کے مظلوم اور نہتے عوام کو نہیں بھولنا چاہئیے اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو بھی اپنی دعاؤں اور زندگی میں یاد رکھنا چاہئیے اور القدس کو ہر صورت زندہ رکھنا چاہئیے۔ فلسطین کا مسئلہ اسلامی مسائل میں سر فہرست مسئلہ ہے جس کو اہمیت دینی چاہیئے۔

ایک زمانہ تھا جب اسرائیل کا منحوس وجود فلسطین کی سرزمین پر آیا ہے اور فلسطین اس مشکل کا شکار ہوا ہے۔ جہاں عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کے حواریوں نے مسئلہ فلسطین و القدس کی اہمیت کو ختم کرنے کی گھناؤنی سازشیں کیں وہاں ایک مرد مجاہد جو سرزمین ایران سے نمودار ہوا اور دنیا اسے امام خمینی (رہ) کے نام سے یاد کرتی ہے امام خمینی (رہ) نے مسئلہ فلسطین و القدس کی اہمیت کو نہ صرف ملت ایران میں زندہ کیا بلکہ امام خمینی(رہ) جب نجف میں تھے یا فرانس میں تھے یا ترکی میں جلاوطن ہوئے، جہاں جہاں بھی امام خمینی (رہ) گئے۔ انہوں نے اس مسئلے کو سرفہرست رکھا اور جہاں امریکہ کے خلاف امام خمینی (رہ) مسلسل بیانات دیتے رہے وہاں اسرائیل کو بھی اپنی اسلامی اور انقلابی تحریک کا سطح اول کا دشمن قرار دیا اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ فلسطین امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں بنیادی ترین اور سب سے فرنٹ محاذ تھا جس کو مسلمانوں کو فیس کرنا چاہیئے اور لڑنا چاہیئے اور ہرگز اسرائیل کو قبول نہیں کرنا چاہیئے۔

اسی عنوان سے امام خمینی (رہ) نے ’’یوم القدس‘‘ کا اعلان کیا اور ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو فلسطینی عوام اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کا دن قرار دیتے ہوئے نہ صرف اس مسئلہ کو مسلم امہ کے درمیان زندہ کیا بلکہ عالم شرق و غرب میں مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو مزید تقویت فراہم کی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سارے مسلمان مل کر فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اور صہیونیزم کے اس پلان کو جو انہوں نے فلسطین میں اجرا کیا ہے اسرائیل کے نام سے اس کو قبول نہ کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس کے عنوان سے مناتے ہیں اور دراصل یوم القدس منانا عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کے حواریوں اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف جہاد کے اعلان کا یوم ہے۔

بہرحال یہ امام خمینی (رہ) کا کارنامہ ہے کہ روز قدس کو پوری دنیا میں منایا جا رہا ہے۔ جہاں تک صیہونیزم کا تعلق ہے تو ایک بہت بڑا شبہ مسلمانوں کے ذہنوں میں ہے کہ فلسطین کوئی یہودی مذہب کو ماننے والے لوگ ہیں جنہوں نے اسرائیل کو جنم دیا ہے، نہیں بلکہ قطعاً ایسا نہیں ہے، ابھی بھی وہ یہودی موجود ہیں جو صہیونیوں کے خلاف اور خود اسرائیل کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، یورپ میں بھی موجود ہیں اور دیگر بہت سے ممالک میں بھی ان کی باقاعدہ ٹیمیں بنی ہوئی ہیں اور تحریک ہے کہ جو اسرائیل کے بھی خلاف ہے اور صہیونیوں کے بھی خلاف ہے اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ صہیونیزم ایک تنظیم ہے کہ جو نہ صرف اسلام کے خلاف بلکہ وہ انسانیت کے خلاف اپنے مفادات کے حق میں۔ انہوں نے اہدافات مقرر کئے ہوئے ہیں اور اس پلان کے تحت وہ لوگ آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ پوری دنیا پر صہیونیوں کا قبضہ ہونا چاہیئے اور جہاں جہاں انکے مفادات ہیں، وہ اسکا تحفظ بھی کرتے ہیں اور ان مفادات کے حصول کیلئے اگر آگے بڑھ سکتے ہیں تو آگے بھی بڑھتے ہیں۔

اسرائیل کا وجود خود صہیونیوں کا پلان تھا اور برطانیہ اور فرانس اس سازش میں شریک رہے ہیں، صہیونیوں نے انکے ساتھ مل کر پلان کیا۔ صہیونیوں کے ایک بڑے لیڈر "ہرٹزل" نے یہ بات بھی کی کہ یوگنڈا کو صیہونیوں کیلئے مرکز قرار دیا جائے اور وہاں اپنی حکومت کو قائم کیا جائے۔ ہرٹزل کے مرنے کے بعد صیہونیوں کی جو کانفرنس ہوئی اس میں اس بات کو رد کردیا گیا اور کہا گیا کہ فلسطین کو ہی اپنی حکومت کا مرکز بنانا چاہیئے اور وہاں پر تمام یورپی اور حتی افریقی ممالک اور جہاں جہاں بھی یہودی بستے ہیں جن کے پاس اپنا ملک نہیں ہے کو جمع کرنا چاہیئے اور فلسطین کو اپنا ملک قرار دیا جانا چاہیئے۔ لہذا یہ سازش، جس کو قبول کیا گیا اور یہ پلان کیا گیا کہ کس طرح سے فلسطین سے فلسطینیوں کو نکالا جائے، اور وہاں پر یہودیوں کی آبادکاری کی جائے اور انکی آبادی بڑھائی جائے۔

صیہونزم:
صیہونیزم دراصل یہودیوں میں ایک انتہا پسند تنظیم کا نام ہے جس کا ہدف صرف اور صرف پوری دنیا پر تسلط قائم کرنا ہے اور ایک عالمی حکومت کا قیام ہے جس کی باگ ڈور صیہونیوں کے ہاتھوں میں ہو۔ صیہونی نہ صرف عالم اسلام کو ہڑپ کرنے کے درپے ہیں بلکہ انہوں نے یہ منصوبہ سازی کی ہے کہ پہلے عیسائیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے ممالک پر تسلط قائم کرو اور پھر بعد میں عیسائیوں کو بھی ختم کردو۔ صیہونی اپنے مفادات کی خاطر کسی بھی حد کو پار کر سکتے ہیں مثال کے طور پر سنہ 1948ء میں دیکھیں کہ کس طرح 15 مئی 1948ء کو صیہونیوں کی ایک دہشت گرد تنظیم ’’ ہگانہ ‘‘ نے ہزاروں فلسطینیوں کو انتہائی سفاکانہ انداز میں صرف اس لئے قتل کردیا کہ وہ فلسطین کے باشندے ہیں۔ لہذٰا فلسطینیوں نے اس دن کو ’’ یوم نکبہ ‘‘ یعنی بہت بڑی تباہی و بربادی کا دن قرار دیا ہے۔

اسی طرح صیہونیوں کے مظالم اور دہشت گردانہ کاروائیوں کی اور بھی مثالیں موجود ہیں جن میں صبرا و شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں میں بدترین اسرائیلی گولہ باری ہے کہ جس میں سینکڑوں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اسی طرح سنہ 1982ء میں لبنان پر صیہونی فوجوں کا قبضہ، جس کو بعد میں حزب اللہ لبنان کے مجاہدین نے مقاومت کی مدد سے سنہ 2000ء میں صیہونیوں کے چنگل سے آزاد کروایا۔ اسی طرح سنہ 2006ء میں لبنان پر صیہونی فوجوں کا دوبارہ حملہ اور پھر سنہ 2008ء میں غزہ پر حملہ اور غزہ کا پانچ سالہ محاصرہ اور پھر کاروان آزادی ’’فریڈم فلوٹیلا‘‘ پر دہشت گردانہ حملوں سمیت متعدد ایسی وارداتیں موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ صیہونیت صرف کسی ایک خطے یا کسی ایک ملک کی نہیں بلکہ عالم اسلام اور پوری انسانیت کی دشمن ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 187839
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش