2
0
Thursday 16 Aug 2012 15:02

یوم القدس یوم اللہ

یوم القدس یوم اللہ
تحریر: فیصل عمران چوہدری

صیہونیوں کا عقیدہ ہے کہ روئے زمین پر وہی ہیں کہ جن کو خداوند نے حق حکمرانی دیا ہے اور صرف انہی کو اقتدار کا حق حاصل ہے۔ وہ خدا کی چہیتی قوم ہے، باقی اقوام ان کی محکوم اور غلام ہیں۔ نازیوں کے ظلم و ستم کے افسانے، آشوٹز، برجن بیلسن، عیسائیت کی یہودی بنیاد اور ہولوکاسٹ جیسے خوش نما نعروں کو بنیاد بنا کر دنیا بھر کی ہمددریاں سمیٹنے والا اسرائیل، جب خود معصوم لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتا ہے اور جدید پراپیگنڈا مشینری میڈیا کے ذریعے مغرب اور دیگر دنیا کو قائل اور باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، اگر ہم اس طرح کے ظلم و ستم نہ کریں تو ہمارا وجود خطرے میں ہے، اور مغرب اس امر کو حق سچ سمجھ کر اس کا ساتھ دیتا ہے اور بات تو سچ ہے مغرب کرے بھی تو کیا کرے، کیونکہ اسرائیل نے امریکی سیاست دانوں کو بلیک میل کرکے اور خرید کر اپنے مہروں میں تبدیل کر لیا ہے۔

امریکہ کا کوئی بھی محکمہ ایسا نہیں کہ جہاں یہودوں کا اثر و رسوخ موجود نہ ہو اور وہ اپنے اسی نفوذ سے جہاں چاہتے ہیں امریکہ میں من مانی کرتے پھرتے ہیں اور ان سب کا اسرائیل پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ امریکہ کی اسرائیل کی بے چوں و چرا تابعداری اس بات کی توجیہ ہے کہ اسرائیل یہودی دولت اور طاقت نے امریکی سیاست کو اس حد تک آلودہ اور گندا کر دیا ہے کہ امریکہ اب اس گندگی کی دلدل میں دھنس چکا ہے اور اس کا ساتھ دینا اس کو مجبوری بن چکا ہے۔ اور اسی آشرباد کے بل بوتے پر اسرائیل نے اپنے اس اچھوتے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے، فلسطین ہی نہیں پورا عالم اسلام اس آگ میں جھلس رہا ہے۔

قارئین یہاں پر میں کس کس صیہونی ظلم کا ذکر کروں۔؟ ان معصوم بچوں کا جو اسرائیلی جیلوں میں پیدا ہوئے اور وہیں پر جوان ہوئے، یا سورج کی کرنوں کو ترستے ان ہزاروں نوجوانوں کی جو صیہونی قیدخانوں میں قید ہیں اور ان کی جوانیاں صیہونی جیلوں میں گل کر بڑھاپے کی شکل اختیار کر چکیں ہیں؟ یا ان خواتین کی جو صیہونی درندوں کی ہوس کا نشانہ بنیں یا ان قیدخانوں کے اندر خواتین کے عقوبت خانوں کی؟ یا قیدیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی دردبھری داستانوں کا؟ اسرائیل کی انسانیت سوز بربریت، ظلم و جارحیت اور انسانیت مخالف جرائم کی داستان اتنی طویل ہے کہ اگر اسرائیلی مظالم کی فہرست بنائی جائے تو یہ اوراق ناکافی ہوں گے۔ دراصل یہ ساری ڈرامے بازی اور کھیل کا مقصد درج بالا عقیدہ ہے جس کو پورا کرنے کے لیے اور دنیا کو محکوم بنانے کی خواہش ہے، جسے پورا کرنے کے لیے اس طرح کے انسانیت سوز اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ اسرائیل اس مقصد کے حصول میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل اپنے وجود سے لے کر آج تک اپنی بقاء کی ہی جنگ لڑ رہا ہے۔ اسرائیل کا شام کے اندر رول اس بات کی گواہی ہے کہ اسرائیل کو اپنی بقاء شدید خطرے میں نظر آتی ہے اور وہ شام میں کرائے کے غنڈے بھیج کر شورش کروا رہا ہے اور اس کے حواری عرب ممالک شام کو اسرائیل مخالفت کی سزا سنا کر OIC سے نکال چکے ہیں۔ اسرائیل شاید اس بات سے آگاہ نہیں ہے کہ اس کا سامنا صرف فلسطین و شام سے ہی نہیں، بلکہ دنیا بھر کے ذی شعور اور زندہ ضمیر لوگوں سے ہے، کیونکہ اس کے اقدامات اسلام کش نہیں بلکہ انسانیت کش ہیں۔ وہ عرب ممالک جو اسرائیلی مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں اور اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کر رہے ہیں، وہ یہ بات بھول چکے ہیں کہ ان کی باری آنے والی ہے اور جب کل دنیا کے باضمیر لوگ قبلہ عصر کو آزاد کرنے نکلیں گے تو ان کے آقا ان کا ساتھ نہیں دیں گے، بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ وہ ان کی بربادی اور نابودی کے لیے دعاگو بھی ہوں گے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے اس ایجنڈے کو ناکام کرنے کے لیے اصیل اسلامی قدرتوں کا ساتھ دیا جائے اور انقلاب اسلامی جیسے چراغ ہدایت سے استفادہ کرکے خوداری اور حمیت کو زندہ کیا جائے۔ جس طرح امام خمینی (رہ) نے اسرائیل کے وجود کو چیلنج کیا اور اس کے وجود کو عالم اسلام کے کلیجے میں خنجر کی ماند قرار دیا اور اسرائیل کو سرطانی لاعلاج مرض اور اس کو مکڑی کے جال سے بھی کمزور قراد دیا اور تمام اسلامی ممالک کو متوجہ کیا اور کہا کہ اگر تمام اسلامی ریاستیں ایک ایک بالٹی پانی کی بھی بھر کے اسرائیل کی طرف پھینکیں تو وہ غرق ہو جائیگا۔
 
یہ امام راحل (رح) کا ہی کارنامہ ہے کہ اسلام کے سیاسی نظام کو دل جان سے قبول کرتے اور سمجھتے ہوئے اپنی تقاریر میں امام نے اسرائیل کے ناپاک وجود سے ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا اور اس کو عالم اسلام کے کیے خطرہ قرار دیا اور انقلاب  اسلامی کے آتے ہی اور اسلامی حکومت و نظام کی تشکیل کے فوراً بعد ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو القدس قرار دے کر تمام مسلمانوں کو اتحاد کی طرف دعوت دی۔ اور اس بات کی خواہش کی کہ دنیا کے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ایک ہو کر اس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔ اور ایک عالمی تنظیم کا اعلان کریں جو اس مسئلہ کے حل کے لیے اقوام عالم کو متوجہ کریں۔

انہوں نے القدس کی آزادی کو اولین فرضہ قرار دیا۔ اور اس یوم القدس کو یوم اللہ، یوم رسول (ص) قرار دیا۔ امام خمینی(رہ) نے شدید خطرات کی طرف متوجہ کرواتے ہوئے القدس کو احیاء اسلام اور بقاء اسلام قرار دیا۔ یوم القدس یعنی اسرائیلی نابودی اور اسرائیلی ایجنڈے کی ناکامی ہے۔ یوم القدس منانے میں ماہ رمضان المبارک اور جمعہ الوداع کا انتخاب اس دن کی روحانیت و معنویت کی جانب ہمیں متوجہ کرتا ہے۔ القدس کو منانے کو مقصد یہ ہے کہ اس مسئلہ کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جاسکے اور اقوام عالم کو اجتماعی معاملات میں اکٹھا کرکے بیدار کیا جاسکے اور نشاۃ ثانیہ کی طرف لے جایا جاسکے۔

    قبلہ اول بیت المقدس اور فلسطینی سرزمین کی اسرائیلی و صیہونی پنجوں سے آزادی کے لیے یوم القدس کا ماہ رمضان کے جمعہ الوداع کے دن کا انتخاب درحقیقت دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک سبق اور اشارہ ہے کہ اگر وہ واقعی ہی دنیا میں کھوئی ہوئی عزت و آبرو کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اسلام کی بالادستی اور قرانی اصولوں کی حاکمیت کی جانب لوٹنا ہوگا۔ خود کو صحیح معنوں میں خدا کی عبودیت میں دینا ہو گا اور خود کو بیرونی خداوں کی عبودیت سے آزاد کرنا ہوگا۔ یوم القدس مسلمانوں کا شو آف پاور ہے اور تمام عالم اسلام کا اولین فریضہ ہے کہ اس میں اپنا کردار ادا کریں اور غیرت و حمیت کا مظاہرہ کریں۔ ایک مظلوم قوم کی حمایت و دفاع کی غرض سے عالمی سطح پر ظالم کے خلاف آواز اٹھانا اسلام کے جامع ضابطہ حیات اور مکمل دین ہونے کو بیان کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 188032
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Good MashaAllah Faisal bhai.. Mukhtar saqfi
Pakistan
good faisal keep it up
ہماری پیشکش