0
Friday 17 Aug 2012 22:51

گلگت بلتستان کی لہو رنگ عید

گلگت بلتستان کی لہو رنگ عید
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ 
 
مانسہرہ کے دور دراز علاقے بابوسر روڈ پر نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ سے مقامی پولیس کے مطابق کم سے کم اْنیس افراد شہید ہوگئے۔ یہ افراد پبلک ٹرانسپورٹ میں راولپنڈی سے گلگت جا رہے تھے۔ بی بی سی اردو کے مطابق کالعدم تحریک طالبان درہ آدم خیل کے ترجمان محمد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کارروائی طالبان کے المنصورین گروپ نے کی، جس کی سربراہی گروپ کے امیر طارق منصور خود کر رہے تھے۔ اس سے پہلے گلگت جانے والے مختلف راستوں پر فائرنگ کے متعدد واقعات ہوچکے ہیں، جن میں متعدد افراد شہید ہوچکے ہیں۔

تین مسافر گاڑیاں راولپنڈی سے گلگت جا رہی تھیں کہ بابو سر روڈ پر لولوسر کے مقام پر نامعلوم مسلح افراد نے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے مذکورہ گاڑیوں کو روکا اور ان گاڑیوں میں سوار افراد کے شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد اْنہیں گاڑیوں سے اْتارا اور اْنہیں لائن میں کھڑا کرکے گولیاں مار دیں۔ پولیس کے مطابق اْنیس افراد موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ رمضان المبارک کے آخری دنوں میں عید سے چند روز قبل ٹی ٹی پی کی سفاکیت کا نشانہ بننے والے ان مسافروں میں ایک بڑی تعداد ان جوانوں کی تھی جو عید کی چھٹیوں کے موقع پر اپنے آبائی علاقوں کو واپس جا رہے تھے، تاکہ اپنے والدین، بہن بھائیوں، دوست احباب اور رشتہ داروں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔

پولیس کے مطابق شہید ہونے والے افراد کے ساز و سامان سے ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ عید منانے کے لیے گھر جا رہے تھے۔ شہید ہونے والوں کی عمریں پچیس سے تیس سال کے درمیان ہیں اور شہید ہونے والوں میں کوئی خاتون شامل نہیں ہے۔ شہید ہونے والے سبھی لوگ کڑیل جوان تھے۔ جن کی مائیں اور بہنیں عید کے موقع پر اپنے بیٹوں اور بھائیوں کا انتظار کر رہی تھیں کہ وہ آئیں گے اور ان کی خوشیوں کو دوبالا کریں گے۔ یہ تو وہی جانتی ہیں اور خدا جانتا ہے کہ جب انہیں اپنے بیٹوں اور بھائیوں کی لاشیں ملیں گئیں۔ 

عید پہ نہ اپنوں کا مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ استقبال کر سکیں گی نہ بہنوں کو عید کے تحفے اور عیدی ملے گی، کیونکہ حملہ آور مسافروں کو شہید کرنے کے بعد شہید ہونے والوں کے پاس نقدی اور اْن کی شناخت کے دیگر دستاویزات اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ شہداء کی مائیں اور بہنیں بی بی زینب کبریٰ (س) کی خدمت عید سے چند روز قبل مسجد کوفہ میں مولا علی (ع) کی شہادت کا پرسۂ بھی دیں گی اور ثانی زہرا (س) کی خدمت میں التجا بھی کریں گی امام حسین (ع) کی محبت میں ہمارے بھائیوں اور بیٹوں کی قربانی قبول فرمائیں۔ 

14 اگست 1947ء کو جس دن پاکستان معرض وجود میں آیا، اس دن رمضان المبارک کی ستائیس تاریخ تھی، گلگت اور استور کے اہل تشیع کو بھی اسی دن نشانہ بنایا گیا۔ اسی دن قرآن نازل ہوا اور اسی دن اللہ رب العزت کی تائید اور منشاء سے مملکت خداداد پاکستان کو آزادی بھی نصیب ہوئی۔ قرآن، رمضان اور پاکستان کو ہر مسلمان کے دل ایک خاص مقام حاصل ہے۔ 27 رمضان کے دن محب وطن پاکستانیوں کو بربریت کا نشانہ بنانے والوں کا قرآن، رمضان اور پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ وہ قرآن اور اسلام پر ایمان رکھتے ہیں نہ پاکستان کے وجود کو قبول کرتے ہیں۔ ان درندہ صفت جنگجووں کی کارروائیاں آزاد عدلیہ، حکومت اور ذمہ دار اداروں کے لئے کھلا چیلنج ہیں۔

شاہراہ قراقرم پر ہونے والے ان بھیانک واقعات کے محرکات میں سے پہلا محرک گلگت بلتستان کو صوبہ قرار دیا جانا ہے۔ جب سے یہ قرار پایا ہے کہ ان علاقوں کو بتدریج صوبائی حیثیت دی جائے گی، اس وقت سے ان علاقوں میں دہشت گردی کی بڑی لہر شروع ہوئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک وطن دشمن طبقہ تعصب، تنگ نظری اور سفاکانہ طینت کی وجہ سے گلگت بلتستان کی ترقی اور ملکی استحکام کو نقصان پہنچا رہا ہے، لیکن ان کی کارروائیوں کا نشانہ فقط شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے ان دہشت گردوں کے ڈانڈے قاتل تکفیری گروہ لشکر جھنگوی اور تکفیری جماعت سپاہ صحابہ سے ملتے ہیں۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے ذمہ داروں کے خلاف حتمی کارروائی کریں۔

ان واقعات کے دیگر محرکات میں سے پاکستان اور چین کے درمیان ٹریڈ کے لیے استعمال ہونے والی شاہراہ ریشم کو غیر محفوظ کرنے سازش ہے، تاکہ پاکستان کی اکانومی کمزور ہو، جس سے ملکی دفاع اور معاشی عدم استحکام پیدا ہو۔ اگر دقت نظر سے ان واقعات کا جائزہ لیں تو یہ چیز بھی سامنے آتی ہے کہ گوادر سے لیکر چین کے بارڈر تک جتنے روٹ ہیں وہ سارے کے سارے غیر محفوظ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاکہ چین اور پاکستان کے درمیان ہر قسم کے تجارتی تعلقات مضبوط نہ ہوسکیں۔ 

شمالی علاقہ جات پاکستان کے لئے فطری طور پر ایک ناقابل تسخیر دفاعی لائن کی حیثیت رکھتے ہیں اور انڈیا کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے مولوی فضل اللہ جو اس وقت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دراندازی کی کارراوئیوں کی نگرانی کر رہے ہیں ان کا تعلق بھی سوات سے ہے، بعید نہیں ان واقعات کی منصوبہ بندی ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی اور تکفیری جماعت سپاہ صحابہ مولوی فضل اللہ کے ساتھ ملکر افغانستان میں کر رہی ہوں اور ان کو عملی جامعہ پاکستان میں پہنایا جا رہا ہو، کیونکہ اسی دن کامرہ ائیر بیس پر بھی انہی دہشت گردوں نے ناکام حملہ کیا اور آٹھ دہشت گرد مارے گئے۔ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جا رہا کہ کامرہ ائیر بیس سکیورٹی فورسز کی زبردست کارروائی کے نتیجے میں مہران ائیر بیس کے برعکس آٹھ دہشت گرد مارے گے اور دہشت گرد اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام بھی رہے تو ہو سکتا ہے کہ انہی دہشت گردوں اپنے مقامی ساتھیوں کی مدد سے ان مسافر بسوں کو نشانہ بنایا ہو۔

مسافر بسیں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردوں کے لیے آسان نشانہ اور ہدف ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت مسافروں کی حفاظت میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے یا سرے سے اس طرف توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے، کیو نکہ گلگت بلتستان اور دیگر علاقوں میں گاڑیوں کو روک کر مسافروں کو اْتار کہ اْنہیں نشانہ بنانے کے واقعات کے سدباب کے لیے گلگت بلتستان کی حکومت نے وفاقی حکومت کے ساتھ ملکر ایک حکمت عملی طے کی تھی کہ مسافر گاڑیاں جن جن علاقوں سے گْزریں گے تو متعقلہ تھانے کے اہلکار اْن کی حفاظت کے لیے گاڑی فراہم کریں گے، جو کہ اگلے تھانے کی حدود شروع ہونے تک اس مسافر گاڑی کے ساتھ ہوں گے، تاہم اس حکمت عملی پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ملت مظلوم پاکستان کی مشکلات ختم ہوں اور گلگت بلتستان سمیت دنیا بھر کے اہل تشیع کو عید کی خوشیوں سمیت آزادی قدس کی خوشی بھی نصیب ہو۔

ملی یکجہتی کونسل کی تمام جاعتوں جماعت اسلامی، جمیعت علمائے پاکستان، ایم ڈبلیو ایم، شیعہ علماء کونسل، جمیعت علمائے اسلام (ف)، جے یو آئی سینئر کے پیر عبدالشکور مشہدی اور جنرل حمید گل سمیت تمام مذہبی اور سیاسی راہنماؤں نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے اور کامرہ بیس اور بابو سر کے واقعہ کو ایک ہی سلسلے کی کڑی قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام مانسہرہ، کوہستان اور چلاس میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ان واقعات کی روک تھام میں موثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ 

شمالی علاقہ جات اور ملک کے دیگر علاقوں میں اکابرین کی سنجیدہ کوششوں سے امن و امان بھی قائم ہوسکتا ہے اور اس کے بغیر ملی یکجہتی کے خواب کو پورا ہونے میں بھی مدد ملے گی اور جس سے یہ تائثر بھی زائل ہوگا کہ ملی یکجہتی کونسل کے اکابرین فقط ہوٹلوں اور دفاتر میں بیٹھ کر اتحاد امت کی بات تو کرتے ہیں لیکن عوام کی حفاظت اور مذہب کے نام پہ ہونے والی قتل و غٓارت کی روک تھام میں عملی کردار ادا نہیں کرتے۔

لاکھوں سلام ہوں شہدائے بابو سر کی ارواح پر، اور سلام ہو گلگت بلتستان کے عوام پر کہ جو عید سے دو تین روز قبل اپنے جوانوں کی لاشیں بھی اٹھا رہے ہیں، لیکن مسجد اقصٰی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یوم القدس بھی منا رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام کا حوصلہ، جرات، استقامت اور صبر یہ ثابت کرتا ہے کہ امام خمینی (رہ) کے فرزند قدس کی آزادی کی جدوجہد سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ اسرائیل کی نابودی حتمی ہے اور شکست بھارت اور امریکہ کے ایجنٹ دہشتگردوں کا مقدر ہے۔
خبر کا کوڈ : 188268
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش