0
Saturday 18 Aug 2012 16:13

دہشتگردی کی وجوہات ختم کی جائیں!

دہشتگردی کی وجوہات ختم کی جائیں!
تحریر: تصور حسین شہزاد

ضلع مانسہرہ کے دور دراز علاقے بابو سر روڈ پر ناران کے قریب لولو سر کے مقام پر نامعلوم مسلح افراد نے راولپنڈی سے استور جانے والی 3 بسوں میں سوار 25 مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر شہید کر دیا۔ مقامی پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق جمعرات کو تین مسافر گاڑیاں راولپنڈی سے گلگت جا رہی تھیں، سحری کے بعد جب گاڑیاں ناران سے روانہ ہوئیں تو ساڑھے چھ بجے کے قریب لو لو سر کے مقام پر کمانڈوز کی وردی میں ملبوس نقاب پوش مسلح افراد نے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر کے انھیں روک لیا اور مسافروں کو شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد نیچے اتارا اور لائن میں کھڑا کر کے گولیاں مار دیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں شیعہ برادری کے افراد شامل ہیں، ملزمان مرنے والوں سے نقدی اور شناختی دستاویزات بھی لے گئے۔

مقتولین کے سامان سے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ عید منانے گھر جا رہے تھے۔ حملہ آوروں کی تعداد دس سے بارہ تھی، جو آرمی کی یونیفارم میں ملبوس تھے۔ مقتولین کی عمریں پچیس سے تیس سال کے درمیان ہیں۔ اطلاعات کے مطابق درندہ صفت قاتل اس واردات کے بعد پہاڑوں میں روپوش ہوگئے۔ یہ دل خراش واقعہ اس وقت پیش آیا جب پاکستان کے لوگوں نے 27 رمضان المبارک کی مقدس ترین رات کو اللہ تعالٰی کے حضور عبادت کرنے کے بعد 27 ویں روزے کی ابھی سحری کی تھی اور جن افراد کو شہید کیا گیا وہ بھی روزے سے تھے اور عید کی خوشیاں منانے اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ اتنی مقدس رات اور اس کے بعد 27ویں رمضان کا روزہ اور اس دن یہ بربریت، کیا اس کے بعد بھی کوئی شخص یہ بات کہہ سکتا ہے کہ انسانیت کے قاتلوں کے اس گروہ کے وحشی اور درندہ صفت افراد کا تعلق اسلام تو کیا دنیا کے کسی بھی مذہب سے تھا۔

ہمارا نہیں خیال کہ ایسا انسانیت سوز اور گھناؤنا فعل کرنے والوں کا تعلق کسی بھی مذہب اور خاص طور پر اسلام جیسے امن و سلامتی والے دین سے ہو سکتا ہے۔ ہماری نظر میں تو جو کوئی ان کرائے کے قاتلوں کا تعلق کسی طرح بھی اسلام سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بذات خود گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ پاکستان میں اس قسم کی دہشت گردی کی واردات کوئی پہلی واردات نہیں اور نہ ہی ایک خاص مکتبہ فکر کے حامل افراد کو پہلی مرتبہ نشانہ بنایا گیا ہے۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران اسی مکتبہ فکر کے لوگوں کو بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے علاقوں میں بھی بسوں سے اتار کر اسی طرح شناختی کارڈ دیکھ کر انتہائی سفاکیت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا گیا، مگر اس کے باوجود حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

پاکستان میں فرقہ پرستی کا زہر خاص طور پر جنرل ضیاء الحق کے دور آمریت کا تحفہ ہے، لیکن گذشتہ ایک دہائی میں فرقہ ورانہ واقعات بلکہ ٹارگٹ کلنگ میں جس شدت کیساتھ اضافہ ہوا ہے وہ پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پوری قوم اس کے خلاف متحد ہو جاتی، مگر افسوس کہ دیگر قومی معاملات کی طرح ہم اس ایشو پر بھی الجھ کر رہ گئے اور اس طرح دہشت گردوں کو اپنا کام کرنے کی ایک قسم کی کھلی چھوٹ مل چکی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ابھی تک اگر دہشت گردی کی لعنت پر قابو نہیں پایا جا سکا تو اس کی کئی وجوہات ہیں، جب تک ہم ان عوامل پر قابو نہیں پائیں گے اور ہمارے اپنے اندر جو خامیاں ہیں، انھیں درست نہیں کریں گے، تب تک یہ رقص ابلیس ہوتا رہے گا اور معصوم لوگ مارے جاتے رہیں گے۔

سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ کام ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔ ماضی قریب کے واقعات اور زمینی حقائق کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ خود ہمارے سکیورٹی اداروں کے اندر کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ جی ایچ کیو پر حملہ ہو، مہران بیس کراچی کے اندر گھس کر دہشت گردی کی کارروائی ہو یا پھر گزشتہ روز ہونے والی کامرہ کی دہشت گردی کی واردات، ان سب میں ایک بات بہرحال مشترک ہے کہ دہشت گردوں کو سکیورٹی اداروں کے اندر سے مدد حاصل ہوتی ہے اور پھر بریگیڈیئر علی خان کا کورٹ مارشل اس بات کا ثبوت ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں، کہیں نہ کہیں نہیں بلکہ ہر جگہ پر گڑبڑ ہے۔

اس لئے سب سے پہلا کام تو یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں اپنی صفوں میں سے کالی بھیڑوں کو تلاش کر کے جلد از جلد ان کو ان کے انجام تک پہنچانا چاہیے۔ اس کام کے لئے سب سے زیادہ جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ کہ انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی میں بہتری لائی جائے۔ اس لئے کہ دہشت گردی کی سب سے بنیادی وجہ ہی ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی ناقص کار کردگی ہے۔ اگر ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی بہتر ہوتی اور تمام انٹیلی جنس اداروں اور سکیورٹی ایجنسیوں میں رابطے کا فقدان نہ ہوتا تو شاید دہشت گردی کا اب تک خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ 

دہشت گردی ختم نہ ہونے کی دوسری اہم وجہ قوم کا دہشت گردوں کے خلاف نظریاتی طور پر متحد نہ ہونا ہے۔ اس کے لئے قصور وار وہ عناصر ہیں جو ہمیشہ میڈیا پر آ کر ان کرائے کے قاتلوں کے وکیل صفائی بن جاتے ہیں۔ ان سے جب بھی ایسے کسی واقعے پر تبصرہ کرنے کو کہا جاتا ہے تو بجائے اس کے کہ وہ ان دہشت گردوں کی کھل کر مذمت کریں وہ بات کو الجھانے کے لئے یہ بے معنی عذز پیش کرنے لگ جاتے ہیں کہ چونکہ حکومت پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے رہی ہے، اس لئے جو لوگ امریکہ کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، وہ ردعمل کے طور پر ایسی کارروائیاں کرتے ہیں۔

ہمارے خیال میں یہ ایسی بودی دلیل ہے کہ جس کا نہ سر ہے اور نہ پاؤں، اس لئے کہ اگر یہ سب کچھ امریکہ کا اتحادی ہونے کا ہی ردعمل ہے تو اس میں پاکستان کی معصوم عوام کا کیا قصور ہے اور پھر خاص طور پر ایسے افراد کو ہی کیوں ہمیشہ نشانہ بنایا جاتا ہے جو نظریاتی طور پر مخالف مکتبہ فکر کے حامل افراد ہوتے ہیں۔ ہماری رائے میں امریکہ کیخلاف جنگ محض ایک بہانہ ہے، کیونکہ اگر اس میں رتی بھر بھی حقیقت ہوتی تو جس طرح پاکستان میں اب تک چالیس ہزار افراد اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں تو اسی طرح کم از کم اتنی ہی تعداد میں افغانستان میں بھی امریکی افواج کو ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس کے برعکس اب تک افغانستان میں امریکہ سمیت نیٹو فورسز کے مرنے والوں کی کل تعداد 2250 ہے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی 22570 ہے اور اسی قسم کی صورت حال عراق میں بھی تھی، تو یہ کون سی امریکہ کے خلاف جنگ ہے جس میں امریکن تو کم مرتے ہیں اور مخالف مکتبہ فکر کے لوگ زیادہ مرتے ہیں۔

ہماری رائے میں یہ ایک کھلی فرقہ پرستی کی جنگ ہے اور جب تک اس تلخ حقیقت کو ہم نے تسلیم نہیں کیا تب تک ہمیں اس جنگ میں مکمل کامیابی نصیب نہیں ہوگی۔ یاد رہے کہ تاریخ اسلام میں اس قسم کے دو گروہوں کا ذکر موجود ہے، اول خوارج کہ جن کے خلاف پوری امت یک سو و متحد تھی، سو ان کا خاتمہ جلد ممکن ہو سکا اور دوئم حسن بن صباح کے فدائین کہ جن کا فتنہ پورے سو سال تک چلتا رہا تھا اور جسے ہلاکو خان نے آ کر ختم کیا تھا، کیا آج ہم پھر کسی ہلاکو خان کے منتظر ہیں۔
 
ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات کے تدارک کے لئے اب ضروری ہوگیا ہے کہ اول ہم اپنے انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنائیں اور تمام سکیورٹی اداروں چاہے وہ وفاق کے دائرہ کار میں آتے ہوں یا صوبوں کے، ان کے آپس میں مربوط روابط وقت کی اہم ضرورت ہیں نیز قوم کو ان انسانیت کے دشمنوں کے خلاف متحد ہوتا پڑے گا ورنہ اس کے بغیر اس ناسور کا خاتمہ شاید ممکن نہ ہوسکے۔
خبر کا کوڈ : 188523
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش