0
Friday 20 Mar 2009 12:36

دہشت گردی کی امریکی جنگ اور پاکستانی معیشت

دہشت گردی کی امریکی جنگ اور پاکستانی معیشت
گیارہ ستمبر کے واقعے کی آڑ میں صدربش نے صلیبی جنگ کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان پرحملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کے نام پر جتنی دہشت پھیلائی گئی، جس قدر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئیں، بین الاقوامی قوانین اور انصاف کی جس طرح دھجیاں بکھیری گئیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ افغانستان کے علاوہ عراق پربھی ”وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں “ کے نام پرچڑھائی کردی گئی اور اقوام متحدہ کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ اس جنگ کے نام پر اب تک آٹھ لاکھ سے زیادہ لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ہیں۔ لاکھوں معذور اور اپاہج ہو گئے ہیں۔ خود امریکی فوجی اس جنگ کے نتیجے میں شدید نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ان کے حوصلے اور عزائم ٹوٹ رہے ہیں اورامریکا ایک ہاری ہوئی جنگ میں مسلسل سرمایہ کاری کررہا ہے۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف امریکی و مغربی جنگ میں پاکستان کے حلیف بننے کے نقصانات بھی بے شمار ہیں اور مستقبل کا مورخ اس پر جب قلم اٹھائے گا تو کئی کتابیں اس کی تفصیلات منظرعام پر لانے کیلئے لکھنی پڑیں گی۔ اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو بدامنی، شدت پسندی، بم دھماکوں کے علاوہ بے پناہ معاشی نقصانات کا سامناکرنا پڑا۔ ہمارے حکمران اور معاشی منتظمین ہمیں اس جنگ کے متعلق خوش فہمی میں مبتلا کرنے کی کوششیں کرتے رہے کہ یہ جنگ پاکستان کے مفاد میں ہے اور اس جنگ میں امریکا کا ساتھ نہ دینے کی صورت میں پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو جائے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے معاشی فوائد تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف تھے۔ اورمعاشی نقصانات کوہ ہمالیہ کے برابر۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کے نقصانات کا اعتراف وزارت خزانہ کی شائع ہونے والی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ پاکستان کو ۲۰۰۴-۰۵ سے ۲۰۰۸ تک ۲ ہزار ۸۰ ارب روپے کا نقصان ہوا۔ یعنی اوسطاً سالانہ ۵۲۰ ارب روپے کا نقصان ہوا۔ صرف ۲۰۰۷-۰۸ میں پاکستان کو ۴۸۴ ارب روپے کا نقصان ہوا۔ ۲۰۰۸-۰۹ میں اندازہ ہے کہ یہ نقصان بڑھ کر ۶۷۸ ارب روپے ہوجائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تباہ کاریوں کی بدولت صوبہ سرحد اور فاٹا کے علاقوں میں بے روزگاری میں بے تحاشا اضافہ ہواہے اور لاکھوں لوگ نقل مکانی پرمجبور ہوئے۔ حکومت کو غربت، افلاس اور جہالت کے خاتمے کیلئے جامع پروگرام ترتیب دینا چاہیے اور اپنے اعلان شدہ منصوبوں پرعمل درآمد بھی کرنا چاہیئے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے جاری رہنے سے غربت، افلاس، بھوک، مہنگائی اور بے روزگاری میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اس بے مقصد جنگ سے سراسر غیرملکی طاقتوں کا مفاد وابستہ ہے۔ عالمی معاشی کساد بازاری بالخصوص امریکا کے مالیاتی ومعاشی بحران کی بدولت جلد ہی امریکا کو یہ احساس ہو جائے گا کہ وہ طاقت کا کھیل ہار چکا ہے اور اب مذاکرات اور پرامن ذرائع کے استعمال کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ امریکا اس جنگ میں جتنی طاقت استعمال کرتا چاہے گا انتہا ہی وہ اس دلدل میں دھنستا چلا جائے گا کیونکہ امریکی معیشت کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے۔ امریکی پالیسیاں ایسی بوجھل کشتی کی مانند ہیں جس میں جو بھی سوار ہوگا ڈوب جائے گا۔ امریکا اور یورپ کی معاشی ترقی میں شدید کمی آرہی ہے اور کئی ممالک کی معاشی ترقی تو منفی زون میں داخل ہوچکی ہے۔ امریکی پالیسیوں کی اندھی حمایت کرنے والے برطانیہ کی قومی آمدنی گزشتہ ۳۰ سال کی پست ترین حالت میں ہے۔ پاکستان کی معاشی نمو بھی ۸۔۵ فیصد سے کم ہوکر ۵۔۲ فیصد متوقع ہے۔ ملک میں بے روزگاری، بدامنی اور بے چینی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت دہشت گردی کی جنگ میں شرکت کے فیصلے پر نظرثانی کرے اور تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر قومی امنگوں اور عوام کی خواہشات کے مطابق داخلی اور خارجہ پالیسیاں ترتیب دے۔ قومی مفاہمت وقت کی شدید ترین ضرورت ہے اور اس وقت ذاتی، جماعتی اورگروہی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی مفاد میں فیصلے نہ کیے گئے تو تباہ کن نتائج مرتب ہوں گے اور قومی یکجہتی کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ معیشت کی بحالی کے لیے خارجہ پالیسی میں تبدیلی اور امن کا قیام ضروری ہے۔



خبر کا کوڈ : 1886
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش