0
Tuesday 19 Jan 2010 11:37

القاعدہ منصوبہ کیوں اور کس کے لئے؟

القاعدہ منصوبہ کیوں اور کس کے لئے؟
آر اے سید 
انیس سو اسی کے آخری عشرے میں القاعدہ کے نام سے منظر عام پر آنے والی تنظیم کے بارے میں بہت سے لوگ ابھی تک شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔القاعدہ تنظيم کے بارے میں مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اور برطانیہ کے بعض اہلکاروں اور پاکستان اور سعودی عرب کے حکام کے مختلف مواقع پر آنے والے بیانات کی روشنی میں اب یہ با آسانی کہا جا سکتا ہے کہ اس کے قیام میں سامراجی اور استعماری اہداف پوشیدہ تھے۔البتہ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بعض سادہ لوح مسلمان القاعدہ کے قائدین کی ظاہری تعلیمات اور دلفریب نعروں کی وجہ سے اس تنظیم کا حصّہ بنے اور ان میں سے بعض نے تو اپنی جان تک اس راستے میں قربان کر دی۔امریکہ کی ایک فوجی اکیڈمی نے حال ہی میں القاعدہ کے بارے میں جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں وہ بھی اس بات کو ثابت کر رہے ہیں کہ اس تنظیم کی کاروائیوں کا سب سے زیادہ نقصان خود مسلمانوں کو پہنچا ہے،اور اگر دنیا کو فریب دینے کے لئے امریکہ وغیرہ کے خلاف کچھ گنی چنی کاروائیاں بھی ہوئیں تو اس سے بھی سامراجی طاقتوں کو ہی فائدہ پہنچا ہے۔
امریکی فوجی اکیڈمی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار چار سے لیکر دو ہزار آٹھ تک القاعدہ کی کاروائیوں میں مرنے والے پچاسی فیصد افراد مسلمان اور غیر مغربی تھے۔دو ہزار چھ کے بعد کے اعداد و شمار کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ شرح اٹھانوے فیصد تک پہنچ جاتی ہے القاعدہ کی تاسیس اور اسکے قائدین کا سب سے بڑا اور مرکزي نعرہ یہ تھا کہ وہ اسلام و مسلمانوں کے دفاع نیز سامراجی طاقتوں کے خلاف قیام کر کے اسلام کے پرچم کو بلند کریں گے۔ لیکن القاعدہ کی گزشتہ دس بارہ سالہ کارکردگی کا اگر جائزہ لیا جائے تو صورتحال برعکس ثابت ہوتی ہے القاعدہ کی گذشتہ کارکردگي سے نہ صرف کئی مسلمانوں کی جانیں تلف ہوئی ہیں بلکہ عراق، افغانستان،پاکستان اور اب یمن جیسے اسلامی ملک امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی آماجگاہ بنے گئے ہیں۔اکثر تجزيہ کاروں کے مطابق القاعدہ سامراج کا ایک ایسا کامیاب منصوبہ ہے جس سے امریکہ اور اس کے اتحادی ایک تیر سے دو نہیں بلکہ کئی شکار کر رہے ہیں۔
القاعدہ اور طالبان جیسے انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں نے جہاں سلامتی کے حوالے سے امریکہ کے کئی اہداف پورے کئے ہیں،وہاں یورپ میں بہت تیزي سے مقبول ہونے والے دین اسلام کا بھی چہرہ مسخ کرنے میں اس گروہ نے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔طالبان و القاعدہ کی دہشت گردانہ کاروائیوں نے امن و آشتی کے دین کو مار دھاڑ اور قتل و غارت کے دین کے طور پر معروف کر دیا ہے۔آج مغربی میڈیا جس شدت سے اسلام اور دہشت گردی کو ایک چہرے کے دورخ یا ایک نظریے کے دو نام بنا کر پیش کرتا ہے اس سے ہر مسلمان کادل خون کے آنسو روتا ہے۔دین اسلام کی بدنامی کے ساتھ مغربی ملکوں میں مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن بن چکی ہیں اور کئی یورپی ممالک میں مسلمان اپنا مذہب بتاتے ہوئے خوف اور دہشت محسوس کرنے لگے ہیں۔امریکہ نے گیارہ ستمبر کے مشکوک واقعات کا بہانہ بنا کر اسی گروہ یعنی القاعدہ کو ہدف بنا کر افغانستان پر حملہ کیا جو ابھی تک جاری ہے اور اس کی آگ ایک اور اسلامی ملک پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔
مشرق وسطی میں بھی القاعدہ کے منفی اثرات نے جہاں اسلامی جمہوریۂ ایران کے اسلامی انقلاب کے مثبت اثرات کو روکنے کی کوشش کی،وہاں اس گروہ نے اسلام کے خود پسندانہ خودساختہ اور انتہا پسندانہ نظریات کو فروغ دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔مشرق وسطی کے حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس خطے کے حوالے سے امریکہ اور القاعدہ کا ہدف ایک تھا،لیکن اسٹرٹیجی مختلف تھی۔دونوں اسلام کے حقیقی افکار سے اس خطے کے لوگوں کو محروم رکھنا چاہتے تھے۔لہذا القاعدہ نے اسلام کا انتہا پسندانہ چہرہ پیش کر کے اور امریکہ اور سامراجی اداروں نے ڈیموکریسی اور لبرل ازم کے نظریات کو پھیلا کر اپنے مذموم اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔بعض تجزيہ کاروں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ القاعدہ اور اس جیسے دوسرے اداروں نے کیمونزم کے مقابلے کے لئے امریکہ کے ایک بازو اور ونگ کا کام کیا۔افغانستان میں روس کے خلاف امریکی سرمایے پر لڑی جانے والی جنگ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔پاکستان میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے فوجی اثر و رسوخ کی بھی ایک بڑی وجہ القاعدہ کا بہانہ ہے۔امریکہ القاعدہ اور طالبان کے ہائی ویلیو ٹارگٹس کے بہانے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے کرتا ہے لیکن اس میں القاعدہ اور طالبان کے اہم افراد کی بجائے عام شہری ہلاک ہوتے ہیں۔
حکومت پاکستان کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار چھ سے دو ہزار نو تک امریکہ نے تراسی ڈرون حملے کئے جن میں ایک ہزار دو سو پچاسی افراد ہلاک ہوئے۔امریکی فوج کے مشیر ڈیوڈ کیلکیولن (David kilcullen ) نے امریکی کانگریس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ دو ہزار چھ سے اب تک ڈرون حملوں میں صرف چودہ مطلوبہ دہشت گرد مارے گئے ہیں۔
القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی حمایت کرنے میں امریکہ پیش پیش رہا ہے اور اس نے افغانستان سمیت کئی علاقوں میں اسامہ اور اسکے گروپ سے استفادہ کیا ہے۔کیا القاعدہ اس وقت بھی اسّی اور نوے کے عشرے کی طرح ایک منظم فورس اور عالمی تنظیم کی شکل میں موجود ہے؟ایک ایسا سوال ہے جسکا ہاں یا ناں میں جواب دینا ممکن نہیں ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ القاعدہ جب ایک عالمی گروہ کی طرح کام کر رہی تھی،اس وقت بھی امریکی اہداف کو پورا کر رہی تھی اور اب جبکہ وہ تحریک طالبان پاکستان یا طالبان افغانستان یا کسی اور نام اور ٹائیٹل سے مصروف عمل ہے اس کا سب سے زيادہ فائدہ امریکہ اور اسکے سامراجی اہداف کو ہی پہنچ رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 18863
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش