0
Thursday 23 Aug 2012 15:50

شام، کیمیائی ہتھیار اور مسٹر اوباما

شام، کیمیائی ہتھیار اور مسٹر اوباما
تحریر: ثاقب اکبر 

امریکی صدر باراک اوباما نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ شام کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال امریکہ کے لیے ”ریڈ لائن“ ہوگا، جس کے بعد امریکہ کی شام کے بحران میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی تبدیل ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے شام میں فوجی مداخلت کا حکم نہیں دیا، تاہم شامی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے برے نتائج برآمد ہوں گے۔
 
20 اگست کو وائٹ ہاﺅس میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیب یا ان کا استعمال خطے میں جاری بحران کو مزید وسیع کر دے گا۔ باراک اوباما نے کہا کہ کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے سے صرف شام ہی متاثر نہیں ہوگا بلکہ اس سے خطے میں موجود اسرائیل سمیت ہمارے اتحادی بھی متاثر ہوں گے، جس پر انھیں تشویش ہے۔ انھوں نے شام کے صدر بشارالاسد کو متنبہ کیا کہ وہ کیمیائی ہتھیار استعمال نہ کریں۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی نقل و حرکت دیکھی تو یہ ہمارے لیے ”ریڈ لائن“ ہوگی۔
 
امریکی صدر کے اس بیان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر امریکہ شام میں فوجی مداخلت کا فیصلہ کرے گا تو وہ کیا بہانہ اختیار کرے گا۔ امریکہ کے لیے ضروری نہیں کہ واقعاً شام کی حکومت کیمیائی ہتھیار استعمال کرتی ہے یا نہیں۔ ماضی میں بھی امریکہ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر اسے تاخت و تاراج کر چکا ہے۔ اب امریکہ نے گویا اپنے ساتھیوں کو راہنمائی دی ہے کہ شام میں واضح فوجی مداخلت کے لیے کونسا حربہ اور موضوع زیادہ مفید رہے گا۔ 
ضروری نہیں کہ شام میں حکومت یا مخالفین میں سے کوئی کیمیائی ہتھیار استعمال کرے، تاہم یہ بات اہم ہے کہ دونوں کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔
 
بعض رپورٹوں کے مطابق اپوزیشن جسے امریکہ، اسرائیل اور علاقے میں امریکی وفاداروں کی حمایت حاصل ہے، کے پاس بھی کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔ دہشت گرد گروہوں کو ان کے عالمی سرپرست مزید کیمیائی ہتھیار بھی مہیا کرسکتے ہیں۔ ان ہتھیاروں کو استعمال کرکے ان کا الزام بڑی آسانی سے حکومت پر لگایا جاسکتا ہے۔
 
ریڈیو دیروز نے گذشتہ دنوں یہ خبر دی تھی کہ قذافی حکومت کے اسلحہ خانوں سے کیمیائی ہتھیاروں سمیت مختلف قسم کے ہتھیار لوٹ لیے گئے ہیں، ان میں میزائل بھی شامل ہیں۔ ریڈیو نے بعض ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی تھی کہ یہ اسلحہ شام میں سمگل کر دیا گیا ہے۔ ریڈیو نے پہلے ہی متنبہ کیا تھا کہ حکومت مخالف دہشتگرد گروہ شام کی حکومت اور فوج پر الزام لگانے کے لیے یہ کیمیائی اسلحہ عوام کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں۔ جہاں تک شام کی حکومت کا تعلق ہے تو وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے گذشتہ ماہ یہ واضح کر دیا تھا کہ شام میں کبھی بھی کیمیائی ہتھیار نصب نہیں کیے جائیں گے۔ 

دریں اثنا گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق روسی وزیر خارجہ سرگی لووروف نے کہا ہے کہ انھوں نے مغرب کو متنبہ کیا ہے کہ وہ شام کے خلاف یکطرفہ اقدام نہ کرے۔ یہ بیان انھوں نے امریکی صدر کے مذکورہ بالا بیان کے بعد جاری کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ روس اور چین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ شام کے مسئلہ پر یو این او کے عالمی قوانین اور چارٹر کی پابندی کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ شام کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت صرف اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل دے سکتی ہے، موجودہ حالات میں یہی ایک درست راستہ ہے۔ یاد رہے کہ سلامتی کونسل میں شام کے خلاف امریکہ اور اس کے حواریوں کی قرارداد روس اور چین پہلے ہی ویٹو کر چکے ہیں۔
 
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق شام کے نائب وزیراعظم قادری جمیل نے روسی دارالحکومت ماسکو میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ مغربی ممالک شام میں عسکری مداخلت کے لیے جواز ڈھونڈ رہے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ کے بیان کی تائید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ شام میں عسکری مداخلت ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔
 
ایک معروف روسی اخبار کامرسنٹ نے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں اپنی ایک حالیہ اشاعت میں لکھا ہے کہ امریکہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں اظہار رائے کا حق نہیں رکھتا اور نہ انھیں شام میں فوجی مداخلت کا جواز بنا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ شام میں ان ہتھیاروں کی وجہ اسرائیل کے پاس غیر قانونی ہتھیاروں کے وسیع ذخائر ہیں۔ 

اخبار نے اطلاع دی ہے کہ امریکی سینیٹر رچرڈ لوگار نے ماسکو میں اپنے ایک حالیہ دورہ میں روس کو دعوت دی کہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کی جائیں، لیکن ماسکو نے ان کی یہ تجویز ٹھکرا دی۔ روس کے ڈپلومیٹک ذرائع کا کہنا ہے کہ شام اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو خود کنٹرول کرسکتا ہے۔ 

اخبار نے ان امور کے ایک ماہر فیوڈور لوکیانوف کی رائے نقل کی ہے کہ ماسکو کے اس شدید نقطہ نظر سے شام کے مسئلہ پر روس اور مغرب ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ روس کی وزارت امور خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ کیمیائی ہتھیار شام کا داخلی مسئلہ ہے اور انھوں نے کہا کہ اسرائیل نے چونکہ ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے این پی ٹی پر دستخط نہیں کئے، لہٰذا شام نے بھی کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں کنونشن پر دستخط نہیں کئے۔
 
جونہی امریکہ نے شام کے حوالے سے کیمیائی ہتھیاروں کا شوشہ اٹھایا ہے، عالمی سطح پر اس کے حواری بھی اس پراپیگنڈہ کو فروغ دینے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی اتحادیوں نے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے خطرے کے عنوان پر میٹنگز اور بیانات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اسرائیل اس حوالے سے سب سے زیادہ سرگرم ہے بلکہ نیویارک ٹائمز کے ایک آرٹیکل کے مطابق مسٹر اوباما کے مذکورہ بالا بیان کا مقصد دراصل اسرائیل کو شام کے خلاف تنہا کسی ممکنہ کارروائی سے روکنا ہے۔ اگرچہ ممکن ہے کہ نیویارک ٹائمز کا یہ تبصرہ بھی دراصل پراپیگنڈہ کا ایک حصہ ہو۔ 

حال ہی میں بروکسل میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس بھی منعقد ہوا ہے۔ اس میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے بھی شرکت کی ہے۔ انھوں نے بھی شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کے مسئلے پر اظہار تشویش کیا ہے۔ یہ تمام شور شرابہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی آئندہ حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے، لیکن کیا واقعی امریکہ اس وقت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ کسی بہانے سے شام کے خلاف ویسی کارروائی کر سکے، جیسی اس نے صدام کی موجودگی میں عراق کے خلاف کی تھی۔
 
ہماری رائے میں اس کا مختصر جواب ”نہیں“ ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں، جنھیں شاید آج کی نشست میں کماحقہ بیان نہیں کیا جاسکتا، البتہ کچھ اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ شام کی حکومت کو اب بھی عوام کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہے۔ روس اور چین نے شام کی حکومت کے معاملے میں اس سے مختلف نقطہ نظر اختیار کیا ہے، جو انھوں نے صدام حکومت کے خلاف امریکی کارروائی کے موقع پر کیا تھا۔ 

علاقے میں مصر سمیت بہت سے ممالک میں غیر معمولی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ حزب اللہ جس سے اسرائیل شکست کھا چکا ہے، اسرائیل کے خلاف کارروائی کے لیے کسی ممکنہ صورت میں بالکل آمادہ ہے۔ فلسطینی عوام کی ایک بڑی اکثریت اور ان کی کئی ایک آزادی پسند جماعتیں بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ ہیں۔ جنگ پھیلنے کی صورت میں سب سے زیادہ خطرہ اسرائیل ہی کو لاحق ہوسکتا ہے اور امریکہ کو یہی قبول نہیں۔
خبر کا کوڈ : 189478
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش