0
Friday 24 Aug 2012 20:49

امریکی ڈرونز کے تازہ حملے!

امریکی ڈرونز کے تازہ حملے!
تحریر: طاہر یٰسین طاہر

دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کے لیے امریکہ ہمہ وقت مشکلات میں اضافہ کئے جا رہا ہے۔ انتہا پسندی کو کچلنے کے لیے جو انتہا پسندانہ طریقہ امریکہ نے اختیار کر رکھا ہے اس سے معاملات اور زیادہ بگڑ رہے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم محب وطن لیڈر سے محروم ہیں، ذاتی اور گروہی مفادات کے اسیر ہمارے سیاسی رہنما نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ بھی تعلقات کار استوار کرنے میں یکسو نظر نہیں آتے۔ 

دہشتگردی کے خلاف جاری اس جنگ میں بھی ہماری سیاسی قیادت، اپنے اپنے جماعتی اور سیاسی مفادات کا تحفظ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ حکمران جماعت اور اس کے اتحادی معاشرے کو انتہا پسندی سے پاک کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں، جبکہ اپوزیشن جماعتیں اور پارلیمنٹ سے باہر عمران خان، دہشتگردی کے خلاف جنگ کو امریکہ کی جنگ کہہ کر اپنے لیے ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں، جبکہ راولپنڈی کے ایک فرزند نے تو ملا عمر کو امیر المومنین کہہ کر یہ التجا کی کہ تحریک انصاف کے لیے شمالی وزیرستان میں ریلی لے کر آنے میں مدد کی جائے۔ 

یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ جب ریاست دہشتگردوں کے خلاف برسرپیکار ہو اور دہشتگرد ہماری دفاعی اور عسکری تنصیبات کو کھلے بندوں نشانہ بنا رہے ہوں اور معصوم شہریوں کو شناختی کارڈ چیک کرکے ان پر گولیاں برسائی جا رہی ہوں، تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ جنگ ہماری نہیں؟ سامنے کی حقیقت کو جھٹلانا جہلا کا شیوہ ہے۔ امریکی ڈرونز حملے بلاشبہ ہماری قومی غیرت اور خود مختاری کا جنازہ نکال رہے ہیں، مگر یاد رہے کہ طاقت کے اپنے اصول ہوتے ہیں اور وہ پانی کی طرح اپنے لیے خود راستہ بناتی ہے۔ 

ہم نہ تو دہشتگردی کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے درست لائحہ عمل ترتیب دے سکے اور نہ ہی معصوم شہریوں کی حفاظت کے لیے ریاست کوئی بندوبست کرسکی۔ جو لوگ خودکش حملوں کی حمایت میں مختلف توضیحات تراشتے ہیں، انہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ حملے نہ تو اسلام کی خدمت ہیں اور نہ ہی اس رویہ کے حامل افراد کو اسلام کی نمائندگی کا کوئی حق حاصل ہے۔ بہت واضع احکامات ہیں، مثلاً جس کسی نے ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس کسی نے ایک بے گناہ انسان کی جان بچائی، اس نے گویا ساری انسانیت کی جان بچائی۔ یوں اس قرآنی مفہوم سے واضع ہوتا ہے کہ خون ریزی، قتل و غارت گری اور معاشرے میں فساد پھیلانے والوں کو اللہ رب العزت پسند نہیں کرتا۔ 

ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ جس زاویے سے بھی دیکھا جائے، انتہا پسندی ایک قطعی ناپسندیدہ عمل ہے۔ رہا سوال امریکہ کے ڈرون حملو ں کا، تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ جب تک ہم موثر حکمت عملی نہیں اپنائیں گے، ہم لاکھ احتجاج کرتے پھریں، امریکہ یہ حملے جاری رکھے گا۔ اگر پاکستان کے پاس یہ دلیل ہے کہ یہ حملے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں، بلکہ ہماری خود مختاری پر بھی حملہ ہیں، بالکل اسی طرح امریکہ یہ دلیل دیتا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے بالخصوص شمالی وزیرستان دہشتگردوں کی جنت بنتا جا رہا ہے۔
 
امریکہ یہ بھی کہتا ہے کہ چونکہ دہشتگردی کے خا تمے کے لیے لڑی جانے والی اس جنگ میں وہ اربوں ڈالر خرچ کرچکا ہے، اس لیے وہ برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی ایک بھی دہشتگرد اس کے وار سے بچ کر نکل جائے۔ کئی مواقع پر امریکی نمائندوں نے یہ تسلیم کیا کہ ڈرون حملوں میں بے گناہ شہری بھی جاں بحق ہو رہے ہیں، اس کے باوجود امریکی صدر باراک اوبامہ ڈرون حملوں کو اپنا حق قرار دے چکے ہیں۔
 
یوں ہمیں اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ ان حملوں میں کمی نہیں آئے گی۔ امریکہ اپنا "حق" ضرور استعمال کرے گا اور ہم فقط احتجاج، توڑ پھوڑ، ایک دوسرے پر الزام تراشی اور چند مذمتی قراردادوں کے سوا کچھ بھی نہ کرسکیں گے،کیوں۔؟ اس لیے کہ اپوزیشن اگر دہشتگردوں کے لیے نرم گوشہ رکھ کر سیاست کر رہی ہے تو دوسری جانب حکومت بھی ایک بھرپور اور بے رحم آپریشن کرنے میں پس و پیش کا شکار ہے۔ ہماری اس کیفیت کو امریکہ جانتا ہے اور وہ اس سے خوب فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ دہشتگردوں کے خلاف ہر آپریشن سے پہلے بار بار آپریشن کرنے کے اعلانات کرکے انہیں یہ موقع بھی دیا جاتا ہے کہ وہ فرار کے لیے کسی محفوظ راستے کو تلاش کرلیں۔
 
یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا جاتا ہے تو امریکہ افغان سرحد کو کبھی بھی پوری طرح بند نہیں کرے گا، بلکہ وہ دہشتگردوں کے لیے فرار کا راستہ ضرور رکھے گا، کیونکہ کہ خطے میں طویل امریکی قیام کے لیے یہ ضروری ہے۔ جس وجہ کو بنیاد بنا کر امریکہ اس خطے میں داخل ہوا، وہ کبھی بھی اس بنیادی وجہ کو کلی طور پر ختم نہیں ہونے دے گا۔ اس کا مقصد کبھی بھی انتہا پسندوں کا مکمل خاتمہ نہیں رہا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ یہ امریکی مفادات کے فرنٹ لائن پاسبان ہیں، جن کے سہارے امریکہ اپنے اصل اہداف کی جانب تیز رفتاری کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ اگلے دنوں میں پاکستان پر بہت دباؤ ہو گا۔ 

امریکہ ڈرون حملوں میں تیزی لا کر پاکستان کو شمالی وزیرستان میں آپریشن کیلے کہے گا، جبکہ دہشتگرد اس آپریشن کو رکوانے کے لیے وطن عزیز میں دہشت گردی کی ایک نئی مگر خوف ناک لہر کو جنم دیں گے۔ امریکہ ڈرون حملوں میں تیزی لاچکا ہے، اگرچہ پاکستان میں شمالی وزیرستان میں ڈورن حملوں پر امریکی سفارت کار کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج کیا، مگر تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان نے جتنا شدید احتجاج کیا، امریکہ نے ڈرون حملے بھی اتنی ہی شدت سے کئے۔ پھر اس مسئلے کا حل کیا ہے۔؟
 
اس سے پہلے کہ امریکی ڈرونز کا دائرہ کار قبائلی علاقوں کے بعد کوئٹہ سے ہوتا ہوا گلگت تک پھیل جائے، حکومت دہشتگردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف خود آپریشن کرے۔ گزشتہ دس سالوں میں ہماری دی جانے والی قربانیاں صرف اسی صورت رنگ لاسکتی ہیں کہ اس دھرتی پر ایک بھی دہشتگرد باقی نہ رہے، بصورت دیگر ہم خانہ جنگی کا ایسا شکار ہوں گے کہ درودیوار لہو رنگ ہوجائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 189699
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش